ڈرامہ معاشرتی سدھار کے بجائے پیسہ کمانے کیلئے بنایا جارہا ہے

قیصر افتخار  منگل 16 جنوری 2018
اگرمجھے کوئی ’’آنگن ٹیڑھا ‘‘ جیسا کام آفر کرے گا توضرورکام کرونگی، اداکارہ۔ فوٹو : فائل

اگرمجھے کوئی ’’آنگن ٹیڑھا ‘‘ جیسا کام آفر کرے گا توضرورکام کرونگی، اداکارہ۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں اگرورسٹائل فنکاروں کی بات کی جائے توبہت سے نام سامنے آجاتے ہیں کیونکہ 60ء کی دہائی میں جب ٹیلی ویژن اس دھرتی پرمتعارف ہوا توکوئی نہیں جانتا تھا کہ مستقبل میں یہ شعبہ عوام میں بے حد مقبول ہوجائے گا۔

ٹی وی کا مختصرسفرشروع ہوا اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے ایسے باصلاحیت فنکاروں نے اس شعبے کی جانب قدم بڑھایا کہ ایک لمبی فہرست بننے لگی۔ وقت تیزی کے ساتھ آگے بڑھتا رہا اورباکمال فنکاروں کے قافلے میں باصلاحیت نوجوان اپنی جگہ بناتے چلے گئے۔ ایسے ہی باکمال فنکاروں میں ایک نام ورسٹائل اداکارہ ثانیہ سعید کا بھی ہے جواپنے کام اورشخصیت کی وجہ سے ہمیشہ ہی توجہ کا مرکز رہتی ہیں۔

اگریہ کہا جائے کہ ان کا کام ہی ان کی پہچان ہے توغلط نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنے فنی سفرکا آغازسٹریٹ تھیٹرسے کیا اورپھر جب ایکٹنگ کرتے ہوئے ٹی وی کی دنیا میں قدم رکھا تواچھوتے کرداروں کی بدولت ایک ایسی تاریخ رقم کی جس کے بنا شاید پاکستانی ڈرامے کی کہانی کبھی مکمل نہ ہوپائے ۔

گزشتہ دنوں اداکارہ ثانیہ سعید نے ’’ایکسپریس‘‘ کوایک خصوصی انٹرویودیا ، جوقارئین کی نذرہے۔

ثانیہ سعید کا کہنا تھا کہ میرے نزدیک ڈرامہ کسی کی زندگی میں سُدھارپیدا کرنے کیلئے نہیں ہوتا ہے۔ وہ صرف پرانی چیزوں کونئے زاویوں سے دیکھنے اورسوچنے پرمجبورکرتا ہے۔ ڈرامہ کوئی دھمکی یا بحث نہیں ہے، بس یہ تولوگوں کو سوچنے کا انداز بتاتا ہے۔ ہردورمیں ہرطرح کے ڈرامے پیش کئے گئے ہیں۔ مگراب مسئلہ یہ ہے کہ آج کے دورمیں صرف ٹی وی ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا جیسے بہت سے میڈیم کام کررہے ہیں۔ ایسے میں کسی ایک شعبے کی بات کرنا تودرست نہیں ہے۔

جہاں تک بات ڈراموں میں خواتین کے موضوعات کی ہے توہمارے معاشرے میں عورت کی کہانی پر کام کرنا بہت آسان ہے۔ اسی لئے آجکل کے ڈرامے میں جب خواتین پرہونے والے مظالم اورحقوق پرمبنی ڈرامے پیش کئے جاتے ہیں تو اس کو فوری اپنا لیا جاتا ہے، مطلب پسند کیا جاتا ہے۔ جتنی مظلوم کہانی سنائی جاتی ہے، اتنا ہی اچھا رسپانس ملتا ہے۔ دیکھا جائے توڈرامے کا کام لوگوںکو بارباراس بات کا احساس دلانا ہے کہ ہاں یہ سچ ہے جبکہ جو لوگ ڈرامے کا کاروبار کرتے ہیں، وہ توبس اتنا ہی کہتے ہیں کہ جوہم دکھا رہے ہیں یہ سچ ہے۔ یہی فرق ہے ہمارے اور کاروبارکرنے والوں کی سوچ میں۔

اس وقت جوڈرامہ پیش کیا جارہا ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہیں، ان میں سے چند تویہ ہیں کہ اس وقت ایک لکھنے والے کوسوچنے کا وقت نہیں ملتا ، مگر بہت زیادہ لکھنا پڑ رہا ہے ، اس طرح ڈرامے کے ڈائریکٹرکا بھی یہی حال ہے۔ وقت کم ہے اورکام زیادہ ، اس لئے ایک ہی طرح کا کام سامنے آرہا ہے، دوسری جانب ڈرامے کا کاروبار کرنے والے کواس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ یہ کام پہلے پیش کیا جاچکا ہے یا نہیں۔ اسے توبس پیسہ کمانے سے غرض ہے۔

اس کے علاوہ جولوگ آجکل کام کررہے ہیں ان میں سے اکثریت کوزیادہ تجربہ نہیں ہے، بس انہیں توپیسہ کمانا اورکاروبار کرنا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچ رہے کہ اس سے سُدھارآئے گا یا مزید خرابی ہوگی، انہیں توبس اپنی پراڈکٹ بیچنی ہے اوراس کیلئے وہ ایسے موضوعات کوہی ترجیح دینگے جوجلدی سے لوگوں کی توجہ حاصل کرسکیں گے۔ حالانکہ کچھ وقت گزرنے کے بعد اچانک سے ایسی چیزیں بکنا بند ہوجاتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آج کا ڈرامہ ہمارے دماغ کو’ری چارج‘ نہیں کررہا بلکہ الٹ کررہا ہے ،  یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی ہمیں ڈرامہ دکھا کرڈرگ دے رہا ہے اورکہتا ہے کہ سوجاؤ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سینما اس لئے زوال پذیرہوا کہ فیصلہ کرنا تھا کہ گھرسے باہرجانا ہے اورپیسے خرچ کرنے ہیں ؟ جبکہ ٹی وی ڈرامہ تومفت میں مل رہا ہے اوراس لئے وہ اچھا ہے یا برا دیکھا جا رہا ہے۔ یہی نہیں ’ ٹی آر پی‘ کا جوناٹک کیا جاتا ہے وہ ناظرین کے اختیارمیں نہیں ہے۔

کوئی کچھ دیکھے نہ دیکھے لیکن سوشل میڈیا پرریٹنگ ہزاروں، لاکھوںمیں آجاتی ہے۔ اب کون فیصلہ کرے گا کہ کون سا ڈرامہ یا فلم مقبول ہے ؟ ۔ میں سمجھتی ہوں کہ ٹیلی ویژن پرہرطرح کی کہانی کی جب تک جگہ نہیں ہوگی تب تک سدھارممکن نہیں۔ مگرضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جوکچھ بھی دکھا رہے ہیں، اس کے اختتام پرناظرین کوکوئی بہترحل ملے یا سبق ملنا بے حد ضروری ہے۔ لوگوں میں امید کا برقراررکھنا انتہائی ضروری کام ہے۔ اسی لئے مجھے ہر ڈرامے میں کام کرنے میں خاصی دشواری رہتی ہے۔

مگراکثریت مجبورہے کہ چینلز اس کوپسند نہیں کرتے۔ اس کے باوجود میں اوربہت سے دیگرفنکار تھوڑی تھوڑی کوشش جاری رکھتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ’’ایکسپریس انٹرٹینمنٹ‘‘ پرپیش کئے جانے والے ڈرامہ ’’ پیاری بٹو‘‘ کی میکنگ کے دوران ہمیں بہت سپورٹ ملی۔ میں نے ڈرامے کے رائٹراورڈائریکٹرکے ساتھ مل کراس کی کہانی کومشاورت کے ساتھ بہترکیا۔ یہ میرے کیرئیرکا بہت یادگارپراجیکٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تمام لوگ ڈرامے کی شوٹ ختم ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ میں ہیں اورہرروز گزرے وقت کی یاد کوتاذہ کرتے ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، لیکن واقعی یہ میرے نزدیک بہت چیلنجنگ اورمنفرد کام تھا۔

ایک سوال کے جواب میں ثانیہ سعید نے کہا کہ میں صرف سنجیدہ کردارہی نہیں کرتی لیکن ٹی وی پرہونے والی کامیڈی مجھے پسند نہیں ہے۔ البتہ تھیٹرپرمیں نے بہت سے مزاحیہ کردارنبھائے ہیں۔ ہم جب تھیٹرپرمزاحیہ کردارنبھاتے ہیں تووہ سیچویشن کے ساتھ ہوتے ہیں ، جبکہ ہمارے ٹی وی ڈراموں میں جوکامیڈی ہوتی ہے، وہ کسی کا مذاق اڑاتے ہیں، وہ میرے بس کا کام نہیں ہے۔ ’’ دستک، کتھا اورالوموپولو‘‘ تھیٹرکے ذریعے بہت سے ڈراموں میں منفرد کردارنبھائے اوریہ سلسلہ جاری ہے۔

اگرمجھے کوئی ’’آنگن ٹیڑھا ‘‘ جیسا کام آفر کرے گا توضرورکام کرونگی۔ لیکن یہ ڈرامہ توکلاسک ہے اوراس کے کرداراب کون سا دوسرا فنکارادا کرسکتا ہے۔ بشریٰ انصاری، دردانہ بٹ ، سلیم ناصراورشکیل نے جس طرح سے اس ڈرامے میں کام کیا، اس کی تومثال ہی نہیں ملتی۔ مجھے توسلیم ناصرکے کام سے عشق ہوگیا تھا۔ انہوں نے جس طرح سے خواجہ سراء کے کردارکونبھایا، ایسا کوئی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے اپنے کردارسے بہت انصاف کیا۔ اسی لئے جب میں ان کی صاحبزادی سے ملتی ہوں تواس کوخوب پیارکرتی ہوں اوران کے والد کی اداکاری کے حوالے سے بہت بات جاری رہتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جس دورمیں، میں نے ٹی وی پرکام شروع کیا تواس دورمیں بننے والی فلمیں اچھی نہیں تھیں، حالانکہ میرے ساتھ کام کرنے والے کچھ فنکارٹی وی سے فلم کی طرف آئے لیکن میں تویہی سوچتی رہتی تھی کہ میرے جیسا فنکارفلم میں کیا کرے گا ؟ اس کی بڑی وجہ ایک فنکارکا مزاج ہوتا ہے جوکہ میرا مزاج نہیں ہے۔ جہاں تک بات ایک فنکارکی جانب سے فلم کے مزاج میں تبدیلی لانے کی ہے توایک فنکارکبھی بھی فلم کا مزاج تبدیل نہیں کرتا۔ ایک فنکارکوتوبس اپنا کردارنبھانا ہوتا ہے ، وہ اس کوہی بہتربنالے توکافی ہے۔

بالی وڈ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ثانیہ سعید نے کہا کہ بھارتی سینما سوسال پرانا ہے۔ انہوں نے سلسلہ وارفلمیں بنائی ہیں اوران کے کلچرنے انہیں بھی سپورٹ کیا۔ وہاں پرہر طرح کا سینما ہے اوراب توبالی وڈ میں آرٹ اورکمرشل سینما کے درمیان کا ایک نیا سینما پروان چڑھ رہا ہے۔ مگرایسا کام کرنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ راج کمار ہیرانی کے علاوہ چند ایک ہی فلم میکر ہیں جولوگوںکو انٹرٹین کرنے کے ساتھ ایسی فلمیں پروڈیوس کرنے کوترجیح دیتے ہیں، جس سے لوگ ایجوکیٹ ہوسکیں۔ دوسری جانب بالی وڈ میں زیادہ تر اداکارائیں توادائیں ہی دکھا رہی ہے۔

صرف کنگنا رناوت اورودیا بالن ہی ایسی دواداکارائیں ہیں جوکچھ ہٹ کرکام کررہی ہیں۔ اب ہم ایک تاریخی فلم ’’ باجی راؤ مستانی ‘‘ کی بات کریں توتاریخ کا مطالعہ کرنے والے یہ بات جانتے ہیں کہ ’مستانی‘ایک بہت سخت جان اورنڈرخاتون تھی لیکن فلم میں اسے صرف ادائیں دکھانے والی پیش کیا گیا ہے ، جوحقیقت کے منافی تھا۔ اگراس کی جگہ یہ دکھایا جاتا کہ وہ کس طرح سے ایک دوسرے مذہب اورذات والے شخص سے شادی کیلئے دوسرے ملک تک اکیلی پہنچی توپھر ہیروکا کام اتنا نمایاں نہ رہتا لیکن بدقسمتی سے بالی وڈ میں بھی بننے والی زیادہ ترفلمیں ہیرو کے کردارکوزیادہ مضبوط بناتی ہیں، جبکہ اداکارائیں صرف ادا دکھاتی نظرآتی ہیں۔ جوکہ میرے نزدیک درست نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ مجھے فلموں میں کام کی پیشکش نہیں ہوئی لیکن مجھے صرف وہی کام کرنا تھا جس میں میرا کردارجاندارہو اورحقیقت کے قریب بھی ہو۔ اسی لئے ’منٹو‘ میں ایک اچھا کردارملا ، جس کومحنت کے ساتھ نبھایا اورشائقین نے اس کوپسند بھی کیا۔

ثانیہ سعید نے کہا کہ مجھے ٹی وی ڈراموں میں عورت کو بطورولن پیش کرنے پرسخت اعتراض ہے۔ ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ ایک عورت کیا ہروقت عام زندگی میں منفی کردارہی اداکرتی رہتی ہے۔ اس لئے مجھے ایسے ڈراموں میں کام کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ اگردیکھا جائے توجوخواتین پروفیشنل لائف گزارتی ہیں، وہ اپنی زندگی کیلئے بہترفیصلے لیتی نظرآتی ہیں۔ اگرہم ان خواتین کی بات کریں جوبطورہاؤس وائف اپنی تمام عمر خاندان کی خدمت کیلئے وقف کرتی ہیں، کیا وہ کوئی آسان کام ہے۔ وہ تو24گھنٹے نوکری پررہتی ہے۔ اس کے باوجود جب ڈراموں میں خواتین کی شخصیت کومنفی پیش کیا جاتا ہے توبے حد برا لگتا ہے۔ اسی لئے میں ایسے کرداروں کوسائن کرنے سے صاف انکارکرتی ہوں۔ کیونکہ میں جانتی ہوں کہ خواتین ایسی نہیں ہوتیں۔

پڑوسی ملک بھارت میں نوجوانوں کوایکٹنگ سکھانے کیلئے جس طرح تربیت دی جاتی ہے اورباقاعدہ ایکٹنگ اکیڈمیاںاورسکول کام کررہے ہیں،اس پربات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک اچھی بات یہ ہے کہ اب ہمارے ملک میں بہت سی یونیورسٹیوں اورکالجوں میں نوجوانوں کوایکٹنگ کی تربیت دی جارہی ہے۔ یہ اچھا ہے لیکن سب سے زیادہ ضروری چھوٹے شہروں میں ایکٹنگ سکھانے کے اداروںکا قیام ہے۔

کیونکہ ہمارے ہاں توانٹرٹینمنٹ کے شعبے کوکچھ خاص ترجیح نہیں دی جاتی ۔ اس کوتوبس ایسے عام سی شے قراردیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ وہ شعبہ ہے جوکسی بھی انسان کے دماغ کوسب سے زیادہ حرکت میں لاتا ہے۔ جن لوگوں کواس شعبے کواپنا پروفیشن بنانا ہے ، میں ان سے کہنا چاہوں گی کہ وہ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا کریں اورسنجیدہ تھیٹربھی دیکھیں، تاکہ وہ سیکھ سکیں۔ میں توکراچی سے ٹرین کے ذریعے رفیع پیر تھیٹرکے فیسٹیولزمیں شرکت کیلئے اکیلی آجاتی تھی اوریہاں پیش کئے جانے والے تمام ڈرامے اورمختلف شوزدیکھتی اوربہت کچھ سیکھا کرتی تھی۔

آخر میں ثانیہ سعید نے کہا کہ میں میوزک بہت پسند کرتی ہوں اورہر طرح کا میوزک سنتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوںکہ میوزک سُن کرہم ساری دنیا کی سیرکرسکتے ہیں۔ دنیا بھرمیں لوگوں نے اس خوبصورتی سے میوزک تخلیق کیا ہے کہ اس کوسن کراورمحسوس کرکے ہم ان کے کلچر کوجان پاتے ہیں۔ اس لئے میرے نزدیک تومیوزک اوررقص کو خاص مقام حاصل ہے، میں ان دونوں شعبوں سے بہت محظوظ ہوتی ہوں۔ جہاں تک بات دوسرے ممالک سے بہترتعلقات کی ہے توہمیں خبریں دیکھ کراورپڑہ کرکسی بھی ملک کے لوگوں کے حوالے سے رائے قائم نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم دوسرے ممالک کے لوگوں سے ملیں اورپھر فیصلہ لیں، اگریہ سلسلہ شروع ہوجائے تودوریاں ختم اورتعلقات میں مضبوطی آئے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔