گھبراہٹ اور بے چینی الزائیمر کی اولین علامات

ویب ڈیسک  بدھ 17 جنوری 2018
امریکی ماہرین نے 5 سالہ طویل مطالعے کے بعد کہا ہے کہ اگر آپ ڈپریشن کے مقابلے میں گھبراہٹ اور بے چینی کا شکار ہیں تو اس سے دماغ میں ایک خاص قسم کا پروٹین بڑھ جاتا ہے اور یوں الزائیمر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

امریکی ماہرین نے 5 سالہ طویل مطالعے کے بعد کہا ہے کہ اگر آپ ڈپریشن کے مقابلے میں گھبراہٹ اور بے چینی کا شکار ہیں تو اس سے دماغ میں ایک خاص قسم کا پروٹین بڑھ جاتا ہے اور یوں الزائیمر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

میساچیوسٹس: ماہرین نے ایک طویل مطالعے کے بعد کہا ہے کہ گھبراہٹ اور بے چینی کی بڑھتی ہوئی شدت الزائیمر کے مرض کی کئی برس قبل سامنے آنے والی علامت ہے۔

اس سے قبل ماہرین یہ کہتے رہے ہیں کہ ڈپریشن جیسی اعصابی نفسیاتی (نیورو سائیکاٹرک) کیفیات الزائیمر کا پیش خیمہ ہوسکتی ہیں تاہم اب انہیں یقین ہے کہ گھبراہٹ اور بے چینی اس بیماری کی ابتدائی علامات میں سے ایک ہوسکتی ہے۔

بوسٹن میں برگہام اینڈ ویمنز ہاسپٹل کی ماہرِ نفسیات نینسی ڈونووان کہتی ہیں، ’ڈپریشن اور اداسی جیسی علامات اپنی جگہ لیکن گھبراہٹ اور اینگژائیٹی (anxiety) جب بڑھنے لگتی ہے تو اس سے دماغ میں ’امائی لوئیڈ بی ٹا‘ کی مقدار زیادہ ہونا شروع ہوجاتی ہے۔‘

نینسی کے مطابق امائی لوئیڈ بی ٹا ایک دماغی پروٹین ہے جو بڑھتا ہے تو وہ دماغ کےلیے مضر مادے (پلاک) کو کشش کرتا ہے اور یوں دماغی خلیات یا نیورونز کے درمیان رابطہ کمزور ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ پروٹین الزائیمر اور دماغی خلل کی مرکزی وجہ ہے اور اس کا اندازہ یادداشت کی تباہی سے 10 سال قبل لگایا جاسکتا ہے۔

نینسی اور ان کے ساتھیوں نے ہارورڈ برین اسٹڈی سے حاصل شدہ ڈیٹا کا بغور جائزہ لیا اور 5 برس تک 270 کے قریب صحت مند مرد و خواتین کا جائزہ لیا جن کی عمریں 62 سے 90 سال کے درمیان تھیں۔ ان تمام افراد میں ایک قدر مشترک تھی: وہ سب بے چینی کے شکار تھے۔

پانچ سالہ عرصے میں وقفے وقفے سے تمام مرد و خواتین کے ڈپریشن کا جائزہ لیا گیا، کئی ٹیسٹ ہوتے رہے اور دماغی اسکیننگ بھی کی گئی۔ ان میں سے جو افراد اینگژائیٹی کے شکار تھے، ان کے دماغ میں امائی لوئیڈ بی ٹا کی مقدار بڑھتے ہوئے دیکھی گئی۔

ماہرین نے کہا ہے کہ امائی لوئیڈ بی ٹا ایک اہم بایو مارکر ہے اور یہ الزائیمر کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس کی بڑھتی ہوئی مقدار اس خوفناک مرض کی جانب لے جاتی ہے، تاہم ماہرین نے مزید تحقیق پر زور دیا ہے اور اگلے مرحلے میں اس پر وسیع تر مطالعات کیے جائیں گے جن میں افراد کی بہت بڑی تعداد شریک کی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔