- موبائل فون صارفین کی تعداد میں 37 لاکھ کی ریکارڈ کمی
- گیلپ پاکستان سروے، 84 فیصد عوام ٹیکس دینے کے حامی
- ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کے غلط استعمال پر 10کروڑ روپے جرمانہ
- معیشت2047 تک 3 ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وزیر خزانہ
- پٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں نے سبسڈی مانگ لی
- پاکستان کی سعودی سرمایہ کاروں کو 14 سے 50 فیصد تک منافع کی یقین دہانی
- مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال، عالمی منڈی میں خام تیل 3 ڈالر بیرل تک مہنگا
- انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی پر محمد عامر کے ڈیبیو جیسے احساسات
- کُتا دُم کیوں ہلاتا ہے؟ سائنسدانوں کے نزدیک اب بھی ایک معمہ
- بھیڑوں میں آپس کی لڑائی روکنے کیلئے انوکھا طریقہ متعارف
- خواتین کو پیش آنے والے ماہواری کے عمومی مسائل، وجوہات اور علاج
- وزیر خزانہ کی چینی ہم منصب سے ملاقات، سی پیک کے دوسرے مرحلے میں تیزی لانے پر اتفاق
- پولیس سرپرستی میں اسمگلنگ کی کوشش؛ سندھ کے سابق وزیر کی گاڑی سے اسلحہ برآمد
- ساحل پر گم ہوجانے والی ہیرے کی انگوٹھی معجزانہ طور پر مل گئی
- آئی ایم ایف بورڈ کا شیڈول جاری، پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں
- رشتہ سے انکار پر تیزاب پھینک کر قتل کرنے کے ملزم کو عمر قید کی سزا
- کراچی؛ دو بچے تالاب میں ڈوب کر جاں بحق
- ججوں کے خط کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام ججوں سے تجاویز طلب کرلیں
- خیبرپختونخوا میں بارشوں سے 36 افراد جاں بحق، 46 زخمی ہوئے، پی ڈی ایم اے
- انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں تنزلی، اوپن مارکیٹ میں معمولی اضافہ
سات رنگوں والے پرندہ نما ڈائنوسار کی دریافت
بیجنگ: چینی سائنس دانوں نے دو روز قبل ایک ایسے پرندہ نما ڈائنوسار کی دریافت کا اعلان کیا ہے جس کے پر قوسِ قزح کی طرح سات رنگوں پر مشتمل تھے جبکہ اس کی جسامت ایک کوے جتنی تھی۔
ڈائنوسار کی یہ انوکھی قسم اب سے 16 کروڑ سال قبل وہاں بڑی تعداد میں موجود تھی جہاں آج چین واقع ہے۔ اس ڈائنوسار کو ’’سائی ہونگ‘‘ کا نام دیا گیا ہے جو مندارین زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ’دھنک‘ کے ہیں۔ ڈائنوسار کا تعلق جیوراسک عہد سے تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہیبائی صوبے سے ملنے والے اس ڈائنوسار کا مکمل رکاز (فوسل) ملا ہے جس پر خردبینی ساختیں بھی محفوظ ہیں۔ یہ باریک نشانات اس کی گردن، سر اور سینے پر دیکھے گئے۔ جب ان پر روشنی پڑتی تھی تو ڈائنوسار کے پر عین اس طرح چمکتے تھے جس طرح آج ہمنگ برڈ (شکر خورے) کے جسم کے رنگین بال خوبصورت انداز میں دکھائی دیتے ہیں۔
شکاگو کے فیلڈ میوزیم کے ارتقائی ماہر حیات شیڈ ایلیاسن نے کہا ہے، ’’یہ دریافت ظاہر کرتی ہے کہ جیوراسک دور کا زمانہ اتنا بُرا نہیں تھا بلکہ وہاں رنگ برنگے جاندار پائے جاتے تھے۔‘‘ واضح رہے کہ ایلیاسن نے بھی سائی ہونگ پر تحقیق کی ہے جس کی تفصیلات تحقیقی مجلے ’’نیچر کمیونی کیشن‘‘ میں شائع ہوئی ہیں۔
سائنسدانوں نے طاقتور خردبین (مائیکرواسکوپ) کے ذریعے اس کے پروں کے اندر چھوٹے ذرات دیکھے ہیں جو ’’میلانوسوم‘‘ کہلاتےہیں۔ ان کی ساخت اور کیفیت سے مختلف رنگ بنتے ہیں۔ سائی ہونگ کے پروں میں جس ساخت کے میلانوسومز موجود ہیں وہ عین شکرخورے (ہمنگ برڈ) ہی کی طرح ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ڈائنوسار ہمنگ برڈ جیسے شوخ اور رنگ برنگے تھے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اس کی گردن پر رنگ برنگی ربن کی طرح پر تھے جبکہ اس کے بہت سے خواص اسے پرندوں کے قریب ہی ثابت کرتے ہیں۔ اس کے پر مخالف جنس کو تولید کی غرض سے ملاپ کےلیے کشش کرنے کا کام کرتے تھے، لیکن سائنس دانوں کا خیال ہے کہ شاید یہ کسی بھی طرح پرواز نہیں کرسکتا تھا، یعنی یہ صرف ایک ’’چلنے والا پرندہ‘‘ ہی تھا۔
ایک خوش نما شکاری
ابتدائی تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ سائی ہونگ دو ٹانگوں پر چلنے والا ڈائنوسار تھا جس کی کھوپڑی ویلوسی ریپٹر ڈائنوسار سے ملتی جلتی تھی اور اس کے دانت بہت تیز تھے۔ شاید یہ دانتوں کی وجہ سے چھوٹے ممالیہ (دودھ پلانے والے جانور) اور چھپکلیاں کھایا کرتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے اوپر ابھار تھےجو سخت ہڈیوں کی وجہ سے بنے تھے۔
ہم جانتے ہیں کہ بہت سے ڈائنوسار، پرندوں جیسے خواص بھی رکھتے تھے اور جیوراسک عہد کے اختتام پر چھوٹے پروں والے پرندوں کا ارتقاء ڈائنوسار ہی سے ہوا تھا، تاہم سائی ہونگ کے پر اتنے طویل تھے جنہیں سیاہی میں ڈبو کر قلم بنایا جاسکتا تھا۔
چینی اکادمی برائے سائنس کے ماہر معدومیات زنگ ژو کہتے ہیں ’’یہ ابتدائی پرندے آرکیوپٹیرکس جیسا ہے جو 15 کروڑ سال پہلے موجود تھا۔ شاید سائی ہونگ کے پر دھیرے دھیرے بدلے ہوں؛ اورشاید اس کے بعد اڑنے والے پرندے وجود میں آئے ہوں گے۔‘‘
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔