دولت ، ناموس اور کنوارا

 منگل 16 جنوری 2018
’’سب انسان گھوڑے ہوتے تو گدھوں کا کام کون کرتا؟‘‘ فوٹو : فائل

’’سب انسان گھوڑے ہوتے تو گدھوں کا کام کون کرتا؟‘‘ فوٹو : فائل

کہانی: امر جلیل
ترجمہ: نوشابہ نوش

میں کنوارا ہوں۔

لیکن جب سے پچیسویں سال گرہ منائی ہے تب سے میرا کنوارپن کھٹکنے لگا ہے۔ بابا نے صبح بلاکر کہا:

’’مجھے سیٹھ نور بھائی کی لڑکی پسند ہے۔‘‘

اس سے پہلے کہ میں جواب دوں، اماں دور سے چیخی:

’’شرم نہیں آتی، اس عمر میں ایسی باتیں کر رہے ہیں۔‘‘

’’تم بیچ میں بک بک نہ کرو، اپنا کام کرو۔‘‘

’’میں بک بک کر رہی ہوں؟‘‘

’’تمہیں تین ہزار تین سو تین دفعہ کہا ہے کہ بزنس کے معاملے میں بات نہ کیا کرو۔‘‘

اماں نے جواب نہیں دیا اور نرم کشن کے صوفے پر دھڑام کرکے بیٹھ گئی۔ میری اماں اس شہر کی مشہور ہستی ہے۔ بہت سی جماعتوں کی سرگرم رکن ہے اور عورتوں کی ترقی پسند جماعت ایل پی ای کی جنرل سیکریٹری ہے۔ پتا نہیں نہ جانے کیسے بابا کی ڈانٹ سہہ گئی۔ وہ بے چینی سے کروٹیں بدلنے لگی۔ اس کے چہرے سے ظاہر تھا کہ وہ جلد ہی کسی فیصلے پر پہنچ کر بھوک ہڑتال کا اعلان کردے گی۔

بابا نے کہا: ’’لڑکی مجھے پسند ہے۔ ایسا رشتہ سالوں میں ایک بار ہی ملتا ہے۔ تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘

’’آپ بزرگ ہیں۔‘‘

’’شاباش! فرمانبردار اولاد ہو تو ایسی ہو۔‘‘

’’میں آپ کا اور آپ کے فیصلوں کا احترام کرتا ہوں۔‘‘

’’شاباش! سیٹھ نور بھائی کی بیٹی کو تم نے بھی تو دیکھا ہوگا؟‘‘

’’جی، اکثر کلبوں اور ہوٹلوں میں اسے دیکھا ہے۔‘‘

’’کیسی ہے؟‘‘

’’آپ کو پسند ہے تو سمجھیں مجھے بھی پسند ہے۔‘‘

’’شاباش، نور بھائی شادی میں اپنی بیٹی کو ایک لاکھ روپیہ، ایک بنگلہ اور ایک کار دے گا۔‘‘

’’ایسے کہیں ناں۔۔۔!‘‘ اماں اٹھ کھڑی ہوئی دولت کے نام پر۔

’’شٹ اپ!‘‘ بابا نے چیختے ہوئے کہا۔

’’صرف دولت کی بات نہیں ہے لڑکی بھی مجھے پسند ہے۔‘‘

’’شرم نہیں ہے، باقی سب کچھ ہے سفید بالوں میں عقل گم کردی ہے۔‘‘

’’کیا اس گھر میں مجھے کوئی بھی فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے؟‘‘

’’ہے۔۔۔لیکن جائز ہونا چاہیے۔‘‘

’’تم کون ہوتی ہو حق اور ناحق ۔۔۔‘‘

’’میں کوئی پرانے زمانے کی دقیانوسی عورت نہیں ہوں، یہ مسئلہ ایل۔پی۔ای کے ہنگامی اجلاس میں پیش کروں گی۔‘‘

میں نے بیچ میں صلح کروانے کی خاطر کہا۔

’’اماں! یہ بیسویں صدی ہے، ترقی پسند زمانہ ہے بابا کو اسلام نے دوسری شادی کی اجازت دی ہے۔‘‘

’’What!‘‘ بابا آرام دہ کرسی سے راکٹ کی طرح اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ کشمیری ٹیبل پر پیر رکھتے ہوئے کہا۔

’’دوسری شادی! بدتمیز۔۔۔۔نالائق!‘‘

’’لیکن بابا! آپ۔۔۔۔!‘‘

’’Shut Up!بابا کے بچے۔‘‘

’’لیکن۔۔۔۔!‘‘

’’No تم نے ایسی واحیات بات زبان پر لانے کی جرأت کیسی کی؟‘‘

’’اس کا کیا قصور، آپ ہی تو نور موئے کی بیٹی کے کلمے پڑھ رہے ہیں۔‘‘

’’Old Women تمہیں تین ہزار تین سو تین دفعہ کہا ہے کہ اپنا کھنڈر جیسا منہ بند کرو۔‘‘

’’کھنڈر ہوں گے آپ، میرے بتیس دانت ہیں۔‘‘

’’سب نقلی ہیں۔‘‘

’’بابا! آپ ہی کہہ رہے تھے کہ سیٹھ نور کی بیٹی آپ کو پسند ہے۔‘‘

’’ہے۔۔۔۔Bloddy Fool پسند ہے۔‘‘

’’تو پھر؟‘‘

’’پسند کی ہے اپنے لیے نہیں، لیکن تمہارے لیے۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’ہمیں اپنے جیسوں کے ساتھ چلنا ہے۔‘‘

اماں کا غصہ کافور ہوگیا۔ ان کے چہرے پر خوشی واپس آگئی۔

میں نے ہمت کرتے ہوئے کہا۔

’’وہ لڑکی مجھے پسند نہیں۔‘‘

’’کیوں پسند نہیں؟ ایک لاکھ روپے، ایک کار، ایک بنگلہ پسند ہے؟‘‘

’’سب کچھ پسند ہے، لیکن لڑکی مجھے پسند نہیں۔‘‘

’’وہی دقیانوسی پسند، ارے بے وقوف عقل سے کام لو، ہم سندھیوں کو ترقی کرنی ہے۔‘‘

’’نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔ لڑکی کالی ہے۔۔۔۔موٹی ہے، منہ پر داغ ہیں اور ایک بار وہ اپنے ڈرائیور کے ساتھ بھاگ بھی گئی تھی۔‘‘

’’غلطی انسان کی فطرت ہے۔‘‘ اماں نے غصے سے کہا۔

’’تم مرد سنگ دل ہو۔ عورت کی ایک غلطی ہزاروں سال تک سوچتے رہتے ہو۔‘‘

’’یہ ساری عورتوں کا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

’’ہے مار پڑے موئے شیکسپیئر کو، سو سال پہلے ایک بار کہا تھا Frailty the name is women آپ آج تک ان الفاظ کا تعویز بناکر باندھ کر گھوم رہے ہیں۔‘‘

’’تمہیں تین ہزار تین سو۔۔۔۔!‘‘

’’میں یہ مسئلہ ایل۔پی۔ای کے ہنگامی اجلاس میں پیش کروں گی۔‘‘

’’کچھ بھی ہوجائے، لیکن میں سیتا پھل سے شادی ہرگز نہیں کروں گا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔

بابا نے آنکھیں پھاڑ کر میری طرف دیکھا۔

اماں نے کہا ’’میں احمد کی ماں ہوں، لڑکی پسند کرنا میرا کام ہے۔‘‘

’’تم کون ہوتی ہو لڑکی پسند کرنے والی؟ لڑکی میں پسند کروں گا۔‘‘

’’لڑکی پسند کرنا عورتوں کا کام ہے آپ عورتوں کے معاملات میں نہ پڑیں۔‘‘

’’آج کی شادی بزنس ہے۔ بزنس میں عورتوں کو دخل نہیں دینا چاہیے۔‘‘

’’آپ عورتوں کی توہین کر رہے ہیں۔‘‘

’’بڈھی۔۔۔۔بے عقل!‘‘

’’خبردار! جو مجھے بڈھی کہا۔‘‘

’’بے وقوف نہیں ہو تو اور کیا ہو؟ بھول گئی ہو کہ انیتا کو شادی میں 80 ہزار اور کار دی تھی ہم نے۔‘‘

’’انیتا میری بہن ہے بے حد ذہین اور حاضر جواب ہے، امریکا جانے سے پہلے انکساری سے کام لیتی تھی۔ ایک بار بابا نے اسے سمجھایا کہ ہم سندھی ہیں ترقی کی طرف قدم اٹھایا ہے، ہمیں اپنے جیسوںکے ساتھ چلنا ہے۔‘‘

’’سب انسان ایک جیسے ہیں۔ دولت انسان کے درمیان دیوار نہیں بن سکتی۔‘‘ اس نے جواب دیا۔

اس اعتراض کا جواب اماں نے دیا۔

’’سب انسان گھوڑے ہوتے تو گدھوں کا کام کون کرتا؟‘‘

’’کچھ بھی ہو، میں بہادر خان جیسے شرابی کی بیوی ہونے پر موت کو ترجیح دیتی ہوں، انیتا نے ایک انقلابی فیصلہ کیا تھا۔‘‘ میں رشید سے شادی کروں گی ، وہ غریب ہے مسکین ہے، دن کی نوکری ہے رات میں کالج میں پڑھتا ہے۔‘‘

ہمارے اوپر بم گرا تھا، بابا نے اتنے جتن کرکے دولت جمع کی ہے، ان کے منہ اتر گیا، اماں کو ناموس کی فکر رہتی ہے۔ وہ فکر مند ہوگئی تھی۔

لیکن انیتا ایک سال کے لیے امریکا سے ہوکر آئی تھی تب اس کے خیالات بھی تبدیل ہوگئے تھے آنے سے پہلے رشید کو ٹیلی فون کیا اور کہا:

’’رشید! تم میرے لیے Unfit ہو۔‘‘

اس نے کچھ کہا تھا، جس پر انیتا نے جواب دیا:

’’میرا اعتقاد راکٹ کی رفتار پر ہے اور تم ایک کشتی ہو۔‘‘

کچھ عرصے کے بعد بابا نے 80 ہزار روپے کیش اور موٹر دے کر انیتا کی شادی اسی زمیں دار سے کروائی تھی۔ انیتا بہت بے حد مسرور تھی۔ اس نے اپنی دوستوں کو شادی کی رات ایک فلمی گانا بھی سنایا تھا۔ لیکن جب سے انیتا کی شادی ہوئی ہے بابا نے جہیز میں دی دولت ہاتھ کرنے کے لیے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا ہے کہ جیسے میں بیٹا نہیں بونس واؤچر ہوں۔

’’کہا جو کچھ بھی انیتا کو دیا ہے اس سے زیادہ لوں گا۔‘‘

میں نے احتجاج کیا،’’آپ مجھے بیچ رہے ہیں۔‘‘

’’بے وقوف آج کل انسان کا خدا سے زیادہ دولت پر اعتقاد ہے۔‘‘

اماں نے کہا۔

’’بیٹا! تمہاری شادی میں کرواؤں گی۔‘‘

’’تمہیں تین ہزار تین سو تین دفعہ کہا ہے کہ تم تجارتی معاملات میں دخل نہ دیا کرو۔‘‘

’’مجھے بیٹے کی بیوی ڈھونڈنے کا حق نہیں ہے؟‘‘

’’نہیں ہے۔‘‘ بابا نے کڑکتی زوردار آواز میں کہا ۔

’’میں یہ بات ایل۔پی۔ای کے ہنگامی اجلاس میں پیش کروں گی۔

میں نے چیخ ماری۔ ’’خدارا! میری بھی تو سنیں۔‘‘

’’میں تمہارا باپ ہوں۔ لڑکی میں پسند کروں گا۔‘‘

’’میں تمہاری ماں ہوں لڑکی میں پسند کروں گی۔‘‘

’’تمہیں تین ہزار تین سو۔۔۔۔!‘‘

’’آپ خاموش ہوجائیں۔‘‘ اماں نے کہا۔

’’بیٹا! تمہاری شادی میں کرواؤں گی، لڑکی ایم۔اے ہے، یورپ کا سفر کیا ہے، عورتوں کی ازدواجی زندگی اور سماجی مسائل پر بہترین تقریر کرتی ہے۔‘‘

’’تقریر۔۔۔۔!‘‘میں نے بالآخر روتے ہوئے کہا۔

’’نہیں بیٹا! تمہیں لیڈر نہیں، عورت چاہیے۔‘‘ بابا نے کہا۔

’’مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے۔‘‘

’’سیٹھ نور کی بیٹی۔‘‘

’’نہیں، نہیں!‘‘

’’وہ ایم۔اے ہے اور۔۔۔۔!‘‘

’’میں شادی نہیں کروں گا۔‘‘

’’کیا؟‘‘ اماں اور بابا نے چیخ کر کہا۔

’’میں کنوارا ہی رہوں گا۔‘‘

’’تم پاگل ہوCrack ہو۔‘‘

میں کرسی سے اٹھ کر دوڑتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔