دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان دس کھرب سے زائد خرچ کرچکا

سید بابر علی  منگل 16 جنوری 2018
ہزاروں قیمتی انسانی جانوں کے نُقصان کے باوجود امریکی طعنوں اور دھمکیوں کا سامنا

ہزاروں قیمتی انسانی جانوں کے نُقصان کے باوجود امریکی طعنوں اور دھمکیوں کا سامنا

 ’’دہشت گردی اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان دہشت گردوں کی جنت بن چکا ہے۔‘‘ یہ اور ان جیسے کئی بیانات ہیں ہم آئے دن کسی نہ کسی بین الاقوامی اخبار کی خبروں اور مضامین میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

صحافت کا پہلا اصول غیرجانب داری ہے لیکن بین الاقوامی خصوصاً بھارتی اور امریکی میڈیا ان تمام تر اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف رہتا ہے۔ ایسے ہی متعصب اور اسلام سے بغض رکھنے والے بعض میڈیا کے ادارے اکثر یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جیبیں بھرلیں، لیکن یہ کبھی نہیں بتاتے کہ اس پرائی جنگ میں پاکستان میں کتنی ماؤں کی گودیں اُجڑ گئیں ہیں، کتنی عورتیں بیوہ، کتنے بچے یتیم ہوچکے ہیں، ہزاروں پاکستانی نوجوان ایسے ہیں جو اس ’پرائی جنگ‘ میں اپنے جسمانی اعضاء کا خراج دے چکے ہیں، کتنے بوڑھے کاندھے مزید جُھک گئے ہیں۔

ان تمام تر قربانیوں کے باوجود پاکستان کے خلاف یہ پروپیگنڈا جاری ہے کہ پاکستان ایک دہشت گرد ریاست ہے، یہاں پیدا ہونے والا ہر بچہ پیدائشی دہشت گرد ہے۔ لیکن حقیقت یہ نہیں، بل کہ حقیقت تو یہ ہے کہ دہشت گرد پاکستان نہیں، بل کہ امن کا نام نہاد داعی ملک امریکا ہے، اس جنگ میں جانیں امریکی عوام نے نہیں پاکستانی عوام نے دی ہیں، اس ملک کی عوام نے اپنے خون پیسنے کی کمائی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اربوں ڈالر کا نُقصان کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سولہ سالوں میں دہشت گرد کارروائیوں کے نتیجے میں ایک سو 23 ارب ڈالر سے زاید کا نقصان کر چکا ہے۔

پاکستانی روپے میں یہ رقم تقریباً ساڑھے دس کھرب روپے بنتی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے نتیجے میں پاکستان میں سماجی اور معاشی بڑھوتری بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان نائن الیون کے بعد افغانستان پر ہونے والے امریکی چڑھائی کے بعد دہشت گردی کی اس جنگ میں امریکی اتحادی بنا تھا۔ اپنی جنگ میں پاکستان کو اپنا اتحادی بنانے کے لیے امریکا نے ’اتحادی فنڈ‘ کے نام سے ایک فنڈ کی منظوری دی تھی۔ معاہدے کے تحت امریکا کو سالانہ تقریباً ایک ارب ڈالر اس فنڈ کی مد میں پاکستان کو دینے تھے تاہم سولہ سالوں میں پاکستان کو مجموعی طور پر صرف 14ارب ڈالر دیے گئے۔

جب کہ پاکستان اس جنگ کا ایک فریق بننے کے بعد دہشت گردی کی براہ راست لپیٹ میں رہا، جس کے نتیجے میں ہونے والی پُرتشدد کارروائیوں میں پاکستان کو ایک سو 23 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جب کہ امریکا کا نام نہاد اتحادی فنڈ صر ف آٹے میں نمک برابر ہے۔ مالی نقصان کے علاوہ بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی، اور جانی نْقصان اس کے علاوہ ہے۔ جنگ کا فریق ہونے کی وجہ سے غیرملکی اور ملکی سرمایہ کاری میں کمی آئی، برآمدات متاثر ہوئیں ان سبب عوامل کی بنا پر تجارتی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہوئی اور یہ نقصان ان سب کے علاوہ ہے۔

اکنامک سروے آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سولہ سالوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے نتیجے میں بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر پاکستان اپنا کھربوں روپے کا نقصان کرچکا ہے۔

تاہم سیکیوریٹی کی صورت حال میں ہونے والی بہتری کے بعد یہ نقصانات ہر سال کم ہوتے جا رہے ہیں۔ مالی سال 2015 تا 2016 میں ان اخراجات میں29اعشاریہ آٹھ فی صد، جب کہ مالی سال 2016 تا 2017 تک اس میں 42 فی صد تک کمی آئی۔ مالی سال 2010تا2011 اس لحاظ سے پاکستان کے لیے بدترین سال رہا اس سال پاکستان کو دہشت گرد کارروائیوں کے نتیجے میں 23ارب 77کروڑ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا جو بتدریج کم ہو کر مالی سال 2017کی تیسری سہ ماہی تک کم ہوکر تین ارب 88کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ہونے والی جنگ کا سیاسی، سیکیوریٹی، سوشیو اکنامک اور ماحولیاتی نُقصان کا سب سے زیادہ سامنا پاکستان کو کرنا پڑا ہے۔

ایک طرف لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی جو دہشت گردی کے براہ راست متاثرین ہونے کی وجہ سے پاکستان آئے اور ان کی وجہ سے پاکستان کے تمام اہم صنعتی اور معاشی شعبوں کی مجموعی بڑھوتری پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ عام معاشی اور تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوئیں، جس کی وجہ سے ایک طرف تو دنیا بھر میں پاکستانی برآمداتی آرڈر تاخیر کا شکار ہوئے، جس کے نتیجے میں پاکستان نے بتدریج اپنے بین الاقوامی خریدار کھو دیے اور حریف کمپنیوں کے منافع اور حصص میں اضافہ ہوا۔ گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان کی معاشی بڑھوتری طے شدہ منصوبہ بندی کے مطابق نہیں ہوسکی۔

اپنی جنگ میں پاکستان کو ایندھن بنا کر ہاتھ سینکنے والے ملک امریکا میں تو تمام معاشی اور سماجی سرگرمیاں معمول کے مطابق چلتی رہیں، لیکن پاکستان نہ صرف دہشت گرد تنظیموں بل کہ پڑوسی ممالک کی مدد سے کی جانے والے دہشت گرد کارروائیوں کا بھی سامنا کر رہا ہے۔ گذشتہ سو لہ سالوں میں دہشت گردوں کی جانب سے شہری آبادیوں میں وحشت و بربریت کی نئی داستانیں رقم کی گئیں، اتحادی کے نام پر اس جنگ کا ایندھن بننے والے ملک پاکستان میں شاید مالی نقصانات کا شمار تو شاید ممکن ہے لیکن ایسے بچوں، خواتین، مردوں کا شمار کسی صورت ممکن نہیں جو بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے نتیجے میں لقمۂ اجل بنے۔ امریکی اتحادی بن کر پاکستان کے حصے میں ماسوائے، راکھ اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے کچھ نہ آیا۔

٭امریکا کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی مختلف امداد کا تاریخی پس منظر

امریکا کی جانب سے تقسیم کے ایک سال بعد معاشی بہتری کے لیے پاکستان کو 7لاکھ ستر ہزار ڈالر کی پہلی امداد دی گئی، جب کہ یو ایس ایڈ کے ذریعے پہلی امداد 1952میں دی گئی جو کہ 73لاکھ55ہزار ڈالر تھی۔ 1955میں امریکا نے فوجی تعاون کی مد میں پہلی بار 26کروڑ 60لاکھ ڈالر کی رقم دی۔ 1948سے 2010 تک امریکا نے پاکستان کو معاشی تعاون کی مد میں40ارب 42کروڑ ڈالر، معاشی تعاون کے لیے اسی عرصے میں یو ایس ایڈ کے ذریعے25ارب 47کروڑ ڈالر کی امداد دی گئی۔ ان 62 سالو ں میں امریکا نے پاکستان کو فوجی تعاون کی مد میں 21 ارب 30 کروڑ ڈالر کی امداد دی۔ جب کہ ’اتحادی تعاون فنڈ‘ کے تحت ابتدائی دس سالوں میں پاکستان کو نو ارب 27کروڑ ڈالر کی رقم دی گئی۔

جب کہ یو ایس ایڈ کے اعداد و شمار کے مطابق امریکا نائن الیون کے بعد پاکستان سول اور فوجی تعاون کی مد میں 14ارب 79کروڑ ڈالر دے چکا ہے۔ نائن الیون کے بعد سب سے زیادہ رقم ایک ارب چالیس کروڑ ڈالر اوباما انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کو دی گئی۔ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی جانی اور مالی نقصان کو مدنظر رکھا جائے تو پھر پاکستان ہر طرح سے خسارے میں ہے کیوں کہ یہ بات صرف ٹرمپ انتظامیہ کی نہیں ہے ماضی میں بھی جب جب پاکستان اور امریکا کے سول اور فوجی تعلقات کشیدگی کا شکار ہوئے، جب جب امریکا نے پاکستان کو امداد بند کرنے کی دھمکی دی یا امداد بند کردی۔

پاکستان کو پہلی بار ملنے والی عسکری امداد میں اضافہ پہلے آمر جنرل ایوب خان کے دور میں ہوا تاہم پاک بھارت جنگ اور دیگر عوامل کی بنا پر یہ امداد کم ہوتے ہوتے 1969 تک صرف پچاس لاکھ ڈالر رہ گئی۔ اگلے دس برسوں تک امریکا پاکستان کو ہلکی پھلکی امداد دیتا رہا تاہم 1979ء میں امریکی صدر جمی کارٹر نے پاکستان میں جوہری پلانٹ کی موجودگی کے انکشاف کو جواز بناکر ماسوائے خوراک ہر قسم کی مدد روک دی تھی۔ اسی دورانیے میں سوویت یونین نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی اور سپر پاور روس کے خاتمے کے لیے کوششوں میں مصروف امریکا کو اپنے مفاد کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانی پڑی۔ 1982 میں بارہ لاکھ ڈالر کے ساتھ پاکستان کی امریکی امداد بحال کردی گئی اور اس کے ایک سال بعد ہی اس امداد میں غیر معمولی اضافہ کردیا گیا اور پاکستان کو امریکی امداد کی رقم تقریباً 50 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی۔

1990تک امریکی امداد مجموعی طور پر تین ارب 80 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی۔ پاکستان کو پہلی بار بڑی مقدار میں عسکری امداد ایوب خان کے زمانے میں ملنا شروع ہوئی تھی۔1991 میں امریکی عسکری امداد تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ اگلے سال 1992 میں 72 لاکھ ڈالر اور پھر سات سال کے طویل عرصے بعد امریکا کی جانب سے 1999 میں 22 لاکھ ڈالر کی عسکری امداد دی گئی۔

اسی عرصے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایف 16 جہازوں کی فراہمی پر بھی تنازع پیدا ہوا۔ پاکستان خود پر عاید ہونے والی پابندیوں سے پہلے ہی امریکا کو جہازوں کی خریداری کے لیے رقم ادا کر چکا تھا تاہم امریکہ نے جہاز تو فراہم نہیں کیے لیکن اس کے بدلے گندم دینے کی پیشکش کرتا رہا۔ تاہم 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی نے امریکا کی نظروں میں پاکستان کی اہمیت یک دم بڑھا دی کیوں کہ اسے افغانستان میں اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کرنا تھا اور یہ کام پاکستان کی مدد کے بغیر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور تھا۔

دنیا کے نقشے کو تبدیل کرنے والے نائن الیون کے واقعے نے امریکا جیسی سپر پاور کو ہزاروں میل دور جنوبی ایشیا میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کی مدد کرنی پڑی ۔ امریکہ نے افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف فوجی یلغار کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اس کا مرکزی اتحادی بن گیا۔ اور اب امریکا افغانستان سے ’باعزت ‘ نکلنے کے لیے کسی موقع کی تلاش میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ جیسے بدصفت امریکی صدر کی جانب سے امداد بند کردینے کی دھمکیاں محض ایک گیڈر بھپکی سے زیادہ کچھ نہیں ، کیوں کہ پاکستان اپنی استطاعت سے زیادہ مالی اور جانی نقصان برداشت کرچکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔