آخری دھرنا؟اورحکومتی ہٹ دھرمی

علی احمد ڈھلوں  بدھ 17 جنوری 2018
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

چارسُو اتنا کچھ ہو رہا ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا لکھا گیا‘ فوراََ ذہن میں بات آئی کہ 17جنوری کو کالم شایع ہوگا تو اُس دن لاہور میں دمادم مست قلندر ہو رہا ہوگا۔ قلم اٹھایا تو شرمندہ ہوکر خود سے کہا اور کتنا لکھو گے! بہت لکھ لیا۔ بہتر ہے اب کچھ پڑھ لیا جائے، کتابیں ٹٹولیں اور دوران مطالعہ بہادر شاہ ظفر کے  آخری ایام نظر سے گزرے، تکلیف بھی ہوئی کہ کس طرح ایک مسلمان بادشاہ کے ساتھ ظلم ہوا،لیکن پھر خیال آیا کہ کوئی ریاست یا سلطنت قیامت تک کب قائم رہتی ہے۔

خیر یہی اصول ہمارے موجودہ حکمرانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ آپ کسی ملک پر چار دہائیاں بھی حکومت کرلیں لیکن ایک نہ ایک دن تو آپ کو اقتدار چھوڑنا ہی پڑتا ہے۔ آج اگر ہر جگہ حکومت کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ دھرنا، دھرنا پلس اور احتجاج وغیرہ ہو رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت سب سیاسی جماعتوں کو اس پوزیشن تک لے کر کیوں آئی۔ بادی النظر میں ن لیگ کی کسی سے بنتی ہی کب ہے؟ سولو فلائٹ کی عادی ن لیگ کے بارے میں ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ اسے ضیاء الحق نے بنایا ، یوں یہ اسٹیبلشمنٹ کی پیدوار ہیں لیکن ان کی اپنے ’’خالق ‘‘ کے ساتھ بھی نہیں بنتی، پھر طاہر القادری ن لیگ کی پیدوارہیں ان کے ساتھ بھی تعلقات سب کے سامنے ہیں۔

حتیٰ کہ 2008سے 2013 تک ان کی پیپلز پارٹی کے ساتھ خوب دوستی رہی۔ پھر جب اقتدار ملا تو آپ کون اور میں کون؟ قارئین کو یاد ہوگا کہ بے نظیر بھٹو نے ان کی جلاوطنی ختم کرائی، اسی وجہ سے 2008کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی کوششوں سے ہی ان کو الیکشن میں حصہ لینے کا موقع ملا تھا،لیکن یہ لوگ پیپلز پارٹی کو ایسے بھولے جیسے بھولنے کا حق ہوتا ہے،پھر پیپلز پارٹی نے بھی اپنا آپ دکھایا اور ن لیگ کو اکیلا کر دیا۔بہرکیف اس وقت ملک جس صورتحال سے گزر رہا ہے، اس کی تمام تر ذمے داری ن لیگ پر عائد ہوتی ہے۔

آج تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ایک بے یقینی، پھر نئی بے چینی نے جنم لے لیا ہے۔ اتنا بڑا ملک ہے، 20کروڑ سے زائد آبادی ہے، لیکن کوئی ایک شہر، کوئی ایک احتجاج، کوئی ایک تاریخ اس کے سارے نٹ پیچ ہلا کر رکھ دیتی ہے۔یہاں مسائل ختم ہوتے ہیں اور نہ تاریخیں،کیلنڈر بدل جاتے ہیں، رویے اور اندازِ سیاست نہیں بدلتے۔ حکومت بھی ڈھیٹ بن جاتی ہے اور اس کے حواری بھی۔ کہنے کو سب پڑھے لکھے ہیں، مگر ایک دوسرے سے بات کرنا انھیں نہیں آتی، ایسے لڑتے ہیں، جیسے دیہات کے ان پڑھ بچے لڑتے ہیں۔شرافت سے کوئی چار سال تک احتجاج کرتا رہے، حکمرانوں کی آنکھیں اور کان بند رہتے ہیں۔ انھیں ہوش تب آتا ہے، جب سڑکیں بلاک ہو جائیں، شہر جام ہو جائیں، لوگ دھاڑیں مارنے لگیں اور خود حکمرانوں کا گزرنا ناممکن ہوجائے۔یہ کیسا معاشرہ ہے، یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے اور کیسے رویے ہیں، یہ کب تک چلے گا اور کب تک ہم پتھر کے زمانے کی لغت استعمال کرتے رہیں گے؟

آج سے شروع ہونے والی اپوزیشن کی تحریک اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ قادری صاحب کو تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ لاہور کا کیا ہوگا کسی کو علم نہیں، دو چار بندے مریں گے ایجنسیاں متحرک ہوں گی اور پھر میڈیا پر بیٹھ کر خطابات کرنے والے کہیں گے کہ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔یہ گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت خصوصاََپنجاب کے لیے سب سے مشکل وقت ہے۔ راقم نے بہت پہلے ہی اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ اگر پنجاب حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے جن کو بوتل میں بند نہ کیا تو ایک دن یہ بے قابو ہو جائے گا اور اسے سنبھالناممکن نہیں رہے گا۔ سو اب وہ گھڑی آچکی ہے۔ مطالبات بڑھتے بڑھتے کہاں تک پہنچ گئے ہیں، انھیں تسلیم کرنا بھی ناممکن ہے، اُن سے بچنا بھی محال ہے۔ حکومت سیاسی طور پر اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ طاقت کے ذریعے اس تحریک کو دبا دے۔

آخر میں میرا سوال یہی ہے کہ نوبت ’’دی اینڈ‘‘  تک آنے سے پہلے حالات کو کیوں نہیں سمجھا جاتا۔ اُس وقت تو اقتدار کا خمار ہر چیز کو حقیر سمجھتا ہے، مگر جب حالات بگاڑ کی آخری حدوں کو چھونے لگتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا جارہا۔نواز شریف کو ہی دیکھ لیں، انھوں نے چار حلقے کھولنے کی بات نہیں مانی، دھرنے ہوئے، ملک رُک گیا، پھر پاناما لیکس آئی، سب نے کہا کہ پارلیمنٹ  ٹی او آر بنالے، جن پر تحقیق ہو، وہ یہ مطالبہ بھی نہیں مانے۔معاملہ سپریم کورٹ میں گیا اور وہ نااہل ہوگئے۔

اب سوال یہ ہے کہ بروقت فیصلے نہ کرکے اپنی نااہلیت کس نے ثابت کی؟ یہی حال اب شہباز شریف کے ساتھ ہے۔ کیا  انھیں معلوم نہیں تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کو حل کیے بغیر وہ ایک بڑے بحران کی زد میں رہیں گے، انھوں نے اسے دبانے کی کوشش میں سارا زور کیوں صرف کیا۔آج اگر یہ طاہر القادری کا آخری دھرنا ہے تو حکومت کا بھی آخری بچاؤ ہوگا۔ حالات کس طرف جا رہے ہیں، اس حوالے سے کسی کو علم نہیں مگر خدا اس ملک اورعوام پر رحم کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔