یہ چوہدری، خان، ملک وغیرہ

عبدالقادر حسن  بدھ 17 جنوری 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

دیہاتی آدمی کی جان پہچان بھی زیادہ تر دیہات کے رہنے والوں تک ہی ہوتی ہے، اس کا ملنا جلنا بھی انھی سادہ لوگوں کے ساتھ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو ان کے درمیان زیادہ آرام دہ محسوس کرتا ہے ۔گاؤں کی سادہ زندگی بسر کرنے والوں کے مزاج میں بھی سادگی اور ایک بے ساختہ پن پیدا ہو جاتا ہے، یہ سادہ لوح لوگ شہرکے لوگوں کی چالاکیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات تو شہروں میں آکر ان کا معصومانہ بوکھلایا پن نہایت بھلا محسوس ہوتا ہے۔

میں نے گاؤں سے آنے والوں کو اکثر یہ بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ان کا بھی شہروں پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ شہر میں رہنے والوں کا کیونکہ اگر وہ گاؤں سے ان کو اجناس نہ بجھوائیں تو شہری زندگی مفلوج ہو جائے اور قحط کا سماں ہو جائے مگر گاؤں کے لوگ شہروں کے دانشوروں کی طرح چونکہ چنانچہ اور اگر مگر نہیں کرتے بلکہ جو بات کہنی ہو کسی ذہنی پیچیدگی اور تحفظ کے بغیر کہہ جاتے ہیں اس لیے وہ میرے استدلال کے باوجود شہری زندگی کے بارے میں مطمئن نہیں ہوتے ۔ گاؤں سے جب لوگ ملنے آتے ہیں تو گاؤں کی روایات کے مطابق ان کا ملنا کچھ دن قیام کرنا اور تفصیلی گپ شپ ہوتا ہے۔

اس میل ملاپ سے میں تازہ دم ہو جاتا ہوں بلکہ اکثر اوقات تو ان دیہاتی لوگوں کی معلومات میرے لیے حیران کن ثابت ہوتی ہیں اور بعض ایسی خبر یں بھی مل جاتی ہیں جن کا میں شہر میں رہ کر اور جدید ذرایع ابلاغ تک رسائی کے باوجود بھی بے خبر رہتا ہوں ، ان کے ملکی سیاست اور عوام کی مشکلات کے بارے میں تجزیئے حقیقت کے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ بسا اوقات ڈر لگتا ہے کہ ہم جو عوام کو بے خبر سمجھتے ہیں وہ شعورکی اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ کسی دن یہی اُٹھ کھڑے ہوئے تو حکمرانوں اور اشرافیہ کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ میرے ان سادہ لوح دیہاتیوں کا زندگی سے اتنا ہی قریبی تعلق ہوتا ہے جتنا سانس کی ڈور کا انسانی جسم سے۔ یہ زندگی کی بے رحم حقیقتوں سے قریب رہتے ہیںاور ان بے رحم حقیقتوں کو بھگتتے بھی ہیں ۔

میرے مہربان مہمانوں کاا س بار بھی موضوع گفتگو حکومت اور حکمران ہی تھے جو ان دیہاتیوں کے مطابق ان کے اپنے دور حکومت میں آسانیاں تو کجا ان کی پہلے سے مشکلات میں اضافے کا موجب بنے ہیں، ان کے خیال میں ملک میں اتنی ہی تبدیلی ہوتی ہے کہ ایک حکومت جاتی ہے اور دوسری چلی آتی ہے، یہ کھیل اسی تک محدود ہو کر رہ گیاہے۔ میرے مہمانوں کو ا س بات سے کوئی سروکار نہیں کہ یکایک بلوچستان کے وڈیروں اور سرداروں کو کیا ہو گیا کہ وہ بیٹھے بٹھائے ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے پر مجبور ہو گئے حالانکہ اسی حکومت کو وہ ٹکڑوں میں بانٹ کر حکمرانی کا معاہدہ پہلے ہی کر چکے تھے اور ایک حصہ کھایا جا چکا جب کہ دوسرا بھی ختم ہونے کے قریب تھا کہ بلوچستان کی قسمت میں ایک ہی دورِ حکومت میں تیسرا نیا حکمران آگیا جس کو دیکھ کر مجھے پنجاب کی ایک گزشتہ حکومت یاد آگئی جو منظور وٹو کی سربراہی میں بنی تھی اور اس کے اسمبلی ممبران کی تعدا د بھی کم و بیش اتنی ہی تھی جتنی اس وقت ق لیگ کے منتخب وزیر اعلیٰ کے پاس ہے بہرحال اس نئی حکومت پر چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی کو ڈھیروں مبارکباد کہ دس سال کے بعد وہ دوبارہ اقتدار کی سیڑھیوں کی جانب رواں دواں ہو گئے ۔

ایک دیہاتی بزرگ کے مطابق ایک اور سردار حکومت پر براجمان ہو گیا ہے لیکن یہ بگٹی، مینگل، مزاری، جمالی، ملک، چوہدری، وغیرہ ہمارے کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ خود ایک مسئلہ ہیں اور ہمارے تمام مسائل انھی کے پیدا کردہ ہیں ۔ ستر برسوں سے یہ لوگ باری باری ہمارے حکمران یا حکمرانوں کے دست وبازو رہے ہیں اور آج جو فصل ہم کاٹ رہے ہیں اور جو قرضے اتارنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے یہ سب انھی کے کرتوتوں کا نتیجہ ہیں ہماری سادگی کی انتہا یہ ہے کہ ہم انھی لوگوں سے علاج مانگ رہے ہیں جن کی وجہ سے بیمار چلے آرہے ہیں ۔

گاؤں کے ان سادہ لوح مگر روشن دماغ والوں کی بحث کو میں اپنے شہری الفاظ میں بیان کروں تو اس کا لب ِ لباب یہ ہے کہ ہمارے مسائل یعنی ہمارے عوام کے مسائل وہ لوگ حل کر سکتے ہیں جن کے دونوں پاؤں اس وطن کی کی مٹی میں گڑھے ہوئے ہوں ان کا خمیر اس مٹی سے اٹھا ہو، جن کا بچپن کھیتوں اور کھلیانوں میں جوان ہوا ہو ۔ جو لوگ اسپتالوں کے آرام دہ کمروں میں پیدا ہوئے ہوں ، بنگلوں اور شکار گاہوں میں پلے بڑھے ہوں جو موسموں کو خرید سکتے ہوں جن کی گرمیاں یورپ میں اور سردیاں پاکستان کے گرم گھروں میں گزرتی ہوں جو ہوائی جہازوں کی فرسٹ کلاس میں سفر کرتے ہوں، ان جیسے لوگ ہمارے مسائل کیسے حل کر سکتے ہیں ان کا اور ہمارا کلچر ہی مختلف ہے، پاکستان کے اصل عوام سے ان کا کبھی تعارف ہی نہیں ہوا، بجلی اور گیس کے بل دیکھ کر ان کے چہروں پر خوف اور پریشانی کا گزر نہیں ہوتا، تھانہ کچہری ان کے گھروں کی باندی ہے، ان کی عالیشان زندگیاں کبھی دکھوں اور غموں سے آشنا نہیں ہوئیں جو آج کے پاکستانی کی زندگی کا معمول ہیں جو لوگ ہمارے مسئلے جانتے نہیں وہ انھیںحل کیسے کر سکتے ہیں جن طبیبوں کومرض کا پتہ ہی نہیں وہ علاج کیسے کر سکتے ہیں جب کہ ہم اس کے باوجود بضد ہیں کہ یہی برگزیدہ مخلوق ہمارے دکھوں کا مداوا کرے گی۔

پاکستان کی تاریخ کو یاد کریں تو اس میں قدم قدم پر یہی لوگ دکھائی دیں گے اور ہماری ذہانتوں کا یہ عالم ہے کہ آج بھی نظر اٹھتی ہے تو اس کے سامنے کوئی سردار، کوئی چوہدری، کوئی خان کوئی ملک آجاتا ہے، ہم سے دور اندیش تو گاؤں کے لوگ ہیں جو اس مخلوق کو پہچان چکے ہیں اور ان کے حصار سے باہر نکلنے کو بے چین ہیں تا کہ حقیقی تبدیلی سے آشنا ہو سکیں۔ عرض ہے کہ افراد کی تبدیلی سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی جب وہ لوگ آئیں گے جن کے دل بدلے ہوئے ہوں گے تو حالات بھی بدلیں گے اور یقینا بدلیں گے شرط یہ ہے کہ ہم دل بدلنے کو تیار ہوں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔