کو ہستان دیر… ایک تعارف

سعد اللہ جان برق  بدھ 17 جنوری 2018
barq@email.com

[email protected]

دیر، سوات ، چترال بلکہ سارے شمالی علاقہ جات کو ہم محاورتاً نہیں بلکہ واقعتا ایک ’’ عجیب و غریب ‘‘ خطہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ جتنا ہی یہ علاقہ ’’ عجیب ‘‘ ہے اتنا ہی غریب بھی ہے۔ یہ کیا کم عجوبہ ہے کہ سرزمین تو جنت نظیر ہے لیکن اس کے باشندوں کی قسمت جہنم نظیر ہوتی ہے، جن سرزمینوں کے مناظر سرسبزی اور خوبصورتی دیکھ کر ہم عش عش کرتے ہیں، اس کے اصل باشندوں کو شاید یہ پتہ بھی نہیں کہ ہمارے ارد گرد جنت کے مناظر موجود ہیں کیونکہ پیدا ہوتے ہی وہ پیٹ میں بھوک کا جہنم دہکتا ہوا پاتے ہیں جو اس درجہ شدید ہوتا ہے کہ ان کو نہ یہ فرصت ہوتی ہے نہ احساس کہ ہم کہاں رہ رہے ہیں اور ہمارے اردگرد جنت زار گل و گلزار کھلے ہوئے ہیں بلکہ اگر کوئی اس کا احساس کر بھی لے تو اور زیادہ دکھی ہوتا ہے کہ کاش اس گل و گلزار کی جگہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسی ملز اور فیکٹریاں ہوتیں ،کوئلے کی کانیں ہوتیں، عربستان کے ریگستان اور صحرا ہوتے۔ ایک پشتو کہاوت کے مطابق خوبصورتی سے آنکھیں بھرتی ہیں، پیٹ نہیں اور حسن کو کوئی روٹی کے ساتھ نہیں کھا سکتا ۔

چنانچہ جن مناظر اور خوبصورتی کو شہروں لوگ دیکھنے آتے ہیں ، وہ  انھیں دیکھ کر وہاںکے لوگوں کی خوش قسمتی پر رشک کرتے ہیں اور خودان مناظر کے باشندے ان سیاحوںکی ’’ بد قسمتیوں‘‘ کو ترستے ہیں، اسی لیے تو علامہ اقبال نے کہا ہے کہ

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ہو دیکھنا تو دیدۂ دل و اکرے کوئی

ہو دیکھنے کا شوق تو آنکھوں کو بند کر

ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی

وہ مشہور و معروف لطیفہ یا المیہ توآپ نے سنا ہی ہوگا کہ کوہستان کا ایک نوجوان کراچی میں ایک صاحب کے بوٹوں پر پالش کر رہا تھا، اس کا چہرہ لباس اور ہاتھ سیاہ  تھے۔ صاحب نے یونہی پوچھا، تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ لڑکا بولا ،کوہستان کا؟ صاحب نے وہ خوبصورت علاقے دیکھ رکھے تھے۔ تعجب سے بولے، بڑے احمق ہو تم جب اتنا ہی ذلیل کام کرنا تھا تو اپنے علاقے میں کرتے اتنی دور آکر پالش جیسا گھٹیا کام کررہے ہو۔ لڑکا بولا، صاحب میں وہاں یہی کام کیسے کر سکتا ہوں جہاں کسی کے پیروں میں جوتے ہوتے ہی نہیں توکیا پالش کرائیں گے ؟

کوہستان کی بات آگئی ہے تو دیر ، سوات ، چترال ، ہزارہ کے اپنے اپنے کوہستان ہیں۔نیچے نسبتاً کم کوہستانوں میں تو تھوڑی بہت زمین ہموار بھی مل جاتی ہے جو پندرہ فیصد ان لوگوں کی ملکیت ہے  جن کے اجداد نے نہ جانے کون سے ’’ ثواب ‘‘ کیے تھے باقی پچاسی فیصد لوگ وہ ہیں جو اپنے اجداد کے کردہ ناکردہ گناہوں کا عذاب جھیل رہے ہیں، ان کو چھت کے لیے بھی زمین میسر نہیں ہے۔ ایک سیدھی سادی اور پیٹ بھری سوچ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ لوگ جن کا وہاں کچھ بھی نہیں ہے یہاں سے بھاگ کیوں نہیں لیتے تو بھاگنا اور کیا ہوتا ہے کہ گلزاروں مرغزاریوں اور سبزہ زاروں کا جنتی موسم چھوڑ کر دور دراز کے میدانوں اور ریگستانوں میں مرتے رہتے ہیں ۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ انسان اپنی جنم بھومی سے جو جذباتی وابستگی رکھتا ہے وہ بھی بڑی طاقتور ہوتی ہے۔ پشتو میں کہاوت ہے کہ انسان بچپن میں جس زمین کی ’’ مٹی‘‘ کھالیتا ہے وہ اسے کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اگر چھوڑ بھی دے تو پھر بھی بھلا نہیں پاتا ، اس کی یاد اور کشش اس کے خون میں گردش کرتی اور چٹکیاں لیتی رہتی ہے ۔

اس وقت ہمارے سامنے ایک کتاب پڑی ہوئی ہے جو دیر کوہستان کے ایک نوجوان لکھاری ڈاکٹر حضرت بلال کی لکھی ہوئی ہے ۔کتاب کا عنوان ویسے تو ’’ کوہستان دیر ‘‘ ہے لیکن اس میں پوری کو ہستانی سرزمین کی تفصیل آگئی ہے، وہاں کے علاقوں قابل ذکر مقامات قبائل، زبانوں، روایات اور تاریخ کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں، ساتھ ہی ساتھ وہاں کے مسائل کی بھی ۔ ابتدا میں علامہ اقبال کے دو شعر دیے گئے ہیں۔

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی

رومی بدلے شامی بدلے بدلا ہندوستان

تو بھی اے فرزند کہتاں اپنی خود ی پہچان

دوسرا شعر اس لحاظ سے اور زیادہ موثر ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر حضرت بلال نے خود اس پر عمل کرکے دکھایاہے کیونکہ موصوف کی عمر اس وقت تقریباً 37سال ہے اور اس میں اس نے نہ صرف کئی مضامین میں ماسٹر ڈگری کی ہے، ایم اے ایجوکیشن، ایم اے پولیٹیکل سائنس کے علاوہ اسلامیات میں پی ایچ ڈی بھی کر چکے ہیں ساتھ ہی ہومیو ڈاکٹر بھی ہے ۔

کوہستان کا خطہ ڈیرہ اسماعیل سے شروع ہو کر چترال تک دراز ہے، اس میں پھر مختلف الگ الگ قبائل، الگ الگ ناموں اور زبانوں کے بولنے والے ہیں۔ ڈاکٹر حضرت بلال کا تعلق ’’ گاؤری ‘‘ قبائل سے ہے جو زیادہ تر دیر اور سوات میں رہتے ہیں لیکن اگر اس نام گاوری کا ہم تجزیہ کریں حالانکہ ڈاکٹر صاحب نے یہ نہیں لکھا ہے لیکن گاؤری وہی ’’ گوری ‘‘ ہے جو معرب شکل میں غوری یا ’’ غری ‘‘ کہلاتے ہیں اور یہ کسی قوم نسل یا زبان تک محدود نہیں بلکہ ’’ غر ‘‘ یا پہاڑ کا نام ہے۔

پورا مطلب ہوا پہاڑی یا یا بقول علامہ اقبال کوہستانی ، گوری گاؤری گورائی گورایا سب اسی ’’غر‘‘ سے نسبت رکھتے ہیں جس کی ہندی شکل گریا گری ہے جو پہاڑ کے لیے بولا جاتا ہے، جیسے نیل گری بھیل گر ھون گری ’’ ھن گری‘‘ یہ ’’ گر ‘‘ کا لفظ آگے چل کر مشرقی یورپ میں گراڈیا غراد میں بھی بدل گیا ہے چونکہ غریا نما کا  بنیادی مفہوم ’’ گھر ‘‘ کا ہے اس لیے سامی یا عربی میں جاکر یہ قر ، قرار قریہ ، قر ا ہوگیا ہے مطلب یہ کہ کوہستانی یا غری اصل میں ایک ہی ہیں لیکن مختلف وادیوں میں الگ الگ رہ کر ان میں پھر دوسری تقسیمیں اور شناختیں بھی اپنائی گئی ہیں ۔

صرف آخر یہ کہ جس طرح بقول علامہ اقبال ’’مرد کوہستانی ‘‘ اہمیت کا حامل ہے اسی طرح کوہستانی اور بھی بہت ساری دولتوں سے مالا مال ہے اگر صرف ایک پہاڑی سے ’’ زمرد‘‘ نکل سکتا ہے تو لامحدود پہاڑوں میں بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے ۔ اور اس کے لیے ہم ایک روایتی اور پامال فقرہ استعمال کر سکتے ہیں کہ ان کوہستانوں کو کھوجنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن زمینی حقائق کا کہنا ہے کہ ’’ کس کو کہہ رہے ہو‘‘؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔