فیضؔ صاحب کے ساتھ جیل میں!

سردار قریشی  بدھ 17 جنوری 2018

سینٹرل جیل سکھرکے پولیٹیکل وارڈ میں روز رات کو جمنے والی ہماری محفل ابھی تھوڑی دیر پہلے ختم ہوئی تھی، سب اپنے اپنے بستر جھاڑکر لیٹ توگئے تھے پر نیند آئے تب نا، وہ تو آتے آتے ہی آتی ہے، سونے کی کوشش ہی کی جاسکتی تھی سو ہم کررہے تھے۔

میرے بسترکے ساتھ ستار بھٹی کا بستر تھا جو ہمارے اخبار میں بطورکمپوزیٹر کام کرتا تھا، لیٹتے ہی خراٹے لینے لگتا تھا، بات کرنے کے لیے اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگانا پڑتا تھا مگر وہ یہ یقین آجانے کے بعد ہی اٹھ کر بیٹھتا تھا کہ صبح کام پر نہیں جانا اور ہم دفتر میں نہیں جیل میں ہیں۔ اس کے ساتھ والے تین بستر چھوڑ کر مجرم لغاری کا بستر تھا جوجھڈو میں کسی اخبارکا نامہ نگار تھا اور 78ء کی تحریک آزادی صحافت میں گرفتاری دیکر ہم سے جیل میں آ ملا تھا، اسے بھی میری طرح نیند نہیں آرہی تھی، اس سے پہلے کہ بتیاں گل ہوں۔

جس کے لیے کچھ ساتھی کافی دیر سے شور مچا رہے تھے وہ اٹھ کر میرے پاس آبیٹھا اور لگا اِدھر اْدھرکی ہانکنے،کہنے کو اس کے پاس کوئی بات جو نہیں ہوتی تھی، میں کہتا یارکوئی بات ہے توکرو ورنہ جاکر سوجاؤ، بور مت کرو اور وہ جھینپ مٹانے کے لیے کہتا سوچ لو جیل میں لمبا عرصہ رہنا ہوگا، تمہاری نوکری تو رہے گی نہیں، میں نے سوچا تھا جھڈو میں اپنی ایک لاری پر تمہیں کنڈکٹر رکھ لوں گا، پر تمہاری بدتمیزی دیکھ کر لگتا ہے مجھے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ میں جانتا تھا کہ وہ آکر بیٹھ جائے تو پھر اٹھنے کا نام نہیں لیتا لہذا مجبوراً اٹھ کر بیٹھ جاتا، سگریٹ سلگاتا تو یقین کرلیتا کہ اب میں اس کو کمپنی دینے میں سنجیدہ ہوں، لیکن جب وہ بات شروع کرتاتو بے ساختہ میری ہنسی چھوٹ جاتی کیونکہ وہ بات ہی ایسی بے سروپا کرتا تھا۔

اْس رات بھی اس نے یہی کیا، پوچھاجیل سے رہا ہونے کے بعد اگر وہ واپس جھڈو جانے کے بجائے کراچی چلے توکیا میں اس کو فیض احمد فیضؔ سے ملوا سکوں گا، میں اسے بتانے ہی لگا تھا کہ وہ کراچی نہیں لاہور میں رہتے ہیں، وہ دن گئے جب لیاری کے علاقے کھڈا مارکیٹ میں واقع عبداللہ ہارون کالج کے پرنسپل ہوا کرتے تھے، لیکن کہتے کہتے رک گیا کیونکہ یہ سن کر موصوف فرماتے کوئی بات نہیں، لاہور چلے چلتے ہیں، تمہارا کرایہ، سگریٹ اور باقی سارا خرچہ بھی میرے ذمے، سو میں نے اسکوگھور کر دیکھتے ہوئے کہا تم شکل سے تو احمق نہیں لگتے پھر ایسی احمقانہ باتیں کیوں کرتے ہو، بولا کیوں میں نے ایسی کونسی احمقانہ بات کردی، میں نے کہا تم بن تو ایسے رہے ہو جیسے واقعی کچھ نہیں جانتے، یہ سن کر وہ پریشان ہوگیا اور پوچھا کیا پتہ نہیں ہے۔

صاف صاف کہو کیا کہنا چاہتے ہو، میں نے کہا جب فیض صاحب ہمارے ساتھ جیل میں موجود ہیں تو ان سے ملنے کہیں جانے کی کیا ضرورت ہے، بس تم انھیں یہ نہیں بتاؤ گے کہ تمہیں ان سے ملوانے میں میرا کوئی کردار ہے، وہ مان گیا تو میں نے ہال کے دوسرے کونے میں بصیر نوید کے بستر کی طرف دیکھا جو جاگ ہی نہیں رہا تھا، آلتی پالتی مارے بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ میں نے مجرم لغاری کو اعتماد میں لینے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا فیض صاحب نے بڑی سختی سے منع کر رکھا ہے کہ انھیں بلاوجہ ڈسٹرب نہ کیا جائے، تم ساتھ چلوگے تو وہ خفا ہوں گے، سو یہیں میرا انتظار کرو، میں جاکر ان کی منت سماجت کرتا ہوں کہ تھوڑی دیر تم سے مل لیں،کہوں گا آپ کا مداح ہے اور بہت دور جھڈو سے آیا ہے، بلکہ کہوں گا کہ اس نے گرفتاری دی ہی آپ سے ملنے کے شوق میں ہے، شاید مان جائیں۔

میں نے جاکر بصیر نوید کو بتایا تو اسے پہلے تو یقین ہی نہ آیا کہ فیض صاحب کا کوئی مداح ایسا بھی ہوسکتا ہے، جس نے کبھی ان کی تصویر بھی نہ دیکھی ہو مگر پھر تھوڑی دیر کے لیے فیض احمد فیض بننے کو تیار ہوگیا، میں بھاگ کر گیا اور مجرم لغاری کو ہاتھ پکڑکر ساتھ لے آیا کہ اچانک اندھیرا ہونے پرکسی کے بستر سے الجھ کرگر نہ پڑے۔اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، فرط جذبات سے آنکھیں بھر آئی تھیں، اس نے روایتی سندھی طریقے سے بصیر نوید کے پاؤں چھوئے اور ہاتھ جوڑ کر سلام کیا، بصیر نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بیٹھنے کے لیے کہااور لگا ادھر اْدھر کی باتیں کرنے، اسے یوں بے تکلفی سے باتیں کرتا دیکھ کر مجرم کو بھی حوصلہ ہوا اور اس نے ہمت کرکے بصیر سے کچھ سنانے کی فرمائش کردی۔

بصیر نے فر فر فیض صاحب کے کئی اشعار سنا دیے، مجرم کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی، پھر جب بصیر نوید کے اشعار کا ذخیرہ ختم ہوگیا تو مجھے اشارہ کرکے اس نے آنکھیں موند لیں، میں نے جھک کر مجرم کے کان میں کہا فیض صاحب مراقبے میں چلے گئے ہیں، شاید آمد ہورہی ہے، اب وہ کوئی بات نہیں کریں گے، اس نے پھر ہاتھ جوڑ کر بصیر کو سلام کیا اور ہم اپنے بستر پر واپس آگئے، بیچارہ دیر تک میرا احسان مانتا رہا کہ میں نے اس کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو پوری کردی۔ میں نے اس سے ایک بارپھر وعدہ لیا کہ وہ فیض صاحب سے اپنی ملاقات کا ذکر کسی سے نہیں کرے گا، اس نے نہ صرف وعدہ کیا پر اسے نبھایا بھی، تحریک ختم ہوئی اور جیل سے نکل کر ہم سب ایک دوسرے سے بچھڑ گئے، باہم کوئی رابطہ نہ رہا۔

دو سال گزر گئے، مجرم لغاری جیل کی یادوں میں تو محفوظ تھا لیکن اعصاب پر سوار نہیں تھا، ایڈیٹر کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد میری مصروفیات بھی بہت بڑھ گئی تھیں، جھڈو میں ہمارا نامہ نگار کوئی خبر دینے کے لیے فون کرتا اور نیوز روم کا نمبر نہ ملنے پر میرے نمبر پرآتا تو اس سے بات ہوجایا کرتی، ایسی صورت میں مجرم کو سلام بھجوانا میں کبھی نہیں بھولتا تھا، اس کے ذریعے مجھے اس کے جوابی سلام بھی مل جایا کرتے تھے ۔

ایک دن اس وقت میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب ڈاک سے مجرم لغاری کا خط موصول ہوا جس میں اس نے مجھے وہ ساری گالیاں دینے کے بعد جو تب تک دنیا میں ایجاد ہوئی تھیں لکھا تھا کہ میں کیا سمجھتا تھا کہ اسے پتہ نہیں چلے گا، اس نے خط میں بصیر نوید کو بھی کئی موٹی موٹی گالیوں سے نوازنے کے بعد پوچھا تھا کہ وہ آدمی تھا کون، وہ اسے نہیں چھوڑے گا۔ ’’بتاؤ، میں اس کے پاؤں چھو رہا ہوں اور وہ کمینہ منع بھی نہیں کر رہا۔‘‘ لیکن خط کے آخر میں یہ پڑھ کر مجھے مجرم لغاری پر بڑا پیار آیا کہ اب اگر تمہاری نوکری چلی جائے تو کنڈکٹر بننے جھڈو مت آنا، میں نے اپنی لاری بیچ دی ہے۔

اس نے اچھی اداکاری کرنے پر مجھے داد بھی دی تھی اور لکھا تھا کہ کراچی آیا تو مجھ سے ضرور ملنے آئے گا۔ وہ خود تو نہیں آیا لیکن ایک دن اچانک ہمیں اس کے گزر جانے کی خبر ملی، مجھے کتنا دکھ ہوا بیان نہیں کرسکتا، بچوں کی طرح معصوم اور سادہ لوح مجرم لغاری سندھی زبان کا بہت اچھا شاعر بھی تھا۔ کسی نے بتایا تھا کہ اس کی جھڈو میں نہ صرف لاری (بس) چلتی تھی بلکہ وہ کچھ زرعی زمین کا مالک بھی تھا، نامہ نگار تو تھا ہی جھڈو پریس کلب کا صدر بھی رہ چکا تھا۔ خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں! بصیر نوید سے ملے بھی مدت ہوئی، آخری بار تب دیدار نصیب ہوئے تھے جب موصوف لیاری ایکسپریس وے کے متاثرین کی آبادکاری کی تحریک چلا رہے تھے اور پریس کلب پر مظاہرہ کرنے تشریف لائے تھے، آج کل کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں کچھ نہیں معلوم، جہاں بھی ہوں اللہ انھیں خوش اور آباد رکھے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔