چابہار بندرگاہ کی آڑ میں خفیہ بھارتی منصوبہ

سید عاصم محمود  جمعرات 18 جنوری 2018
اس خطے میں صرف افغانستان ایسا ملک ہے جس سے بھارت کی باہمی تجارت کا حجم چین سے زیادہ ہے۔ فوٹو : فائل

اس خطے میں صرف افغانستان ایسا ملک ہے جس سے بھارت کی باہمی تجارت کا حجم چین سے زیادہ ہے۔ فوٹو : فائل

ماہرین عسکریات کہتے ہیں،طالبان کی مدد کرنے کا الزام تو بہانہ ہے،امریکی حکمران طبقے نے پاکستان پر عسکری  پابندیاں اس لیے لگائیں کہ خطے میں جاری گریٹ گیم میں مہرے تبدیل ہو چکے۔

اب پاکستان اس ٹیم میں شامل ہو رہا ہے جس کے سرخیل چین اور روس ہیں جبکہ بھارت ایشیا میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی بن چکا۔اس گریٹ گیم کا ایک مظہرچابھار بندرگاہ بھی ہے۔

جرمن آمر‘ ایڈولف ہٹلر کے نظریات کو مقبول عام بنانے میں اس کے ایک وزیر‘ جوزف گوئبلز کا بڑا ہاتھ تھا۔ یہ پست قامت شخص نہایت ذہین اور تیز وطرار تھا۔ اس گوئبلز کا مشہور قول ہے: ’’اگر جھوٹ تواتر سے بولا جائے‘  تو لوگ اسے سچ سمجھنے لگتے ہیں۔‘‘ یہ قول بھارتی حکمران طبقے پر صادق آتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل ایران میں بھارت کی تعمیر کردہ چابھار بندرگاہ کا افتتاح ہوا۔ اسی موقع پر بھارتی حکمرانوں نے اپنے عوام اور دنیا والوں کے سامنے یہ شور مچائے رکھا کہ یہ بندرگاہ معاشی و تجارتی طور پر بھارت کے لیے نہایت مفید ہے۔ اس کے ذریعے وسط ایشیائی ممالک کو مشرق وسطی تک بآسانی رسائی مل جائے گی۔ نیز بھارت اور وسط ایشیائی ملکوں کے مابین تجارت میں بھی اضافہ ہو گا۔بھارت کے حکمرانوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے بھارتی میڈیا نے چابھار بندرگاہ کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔ اسے تزویراتی وجغرافیائی طور پر ’’گیم چینجر‘‘ کہا گیا۔ یہ دعویٰ بھی ہواکہ پاکستان میں چین جو گوادر بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے‘ چابھار کھلنے سے اب اس کی اہمیت بہت کم ہو چکی۔

حقیقت یہ ہے کہ چابھار بندرگاہ اتنی اہم نہیں جتنا کہ بھارتی حکمران پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔اس کی آڑ میں بھارتی حکمران افغانستان تک بلا روک ٹوک رسائی چاہتے ہیں۔مقصد یہ ہے کہ افغان سرزمین پر قدم جما کر پاکستان کو کمزور بنانے کی سازشیں کی جائیں۔ایک مدعا یہ بھی تھا کہ اس ایرانی بندرگاہ کی تعمیر پر بھاری سرمایہ لگا کر دنیا والوں کو دکھایا جائے کہ اب بھارت بھی ایک سپر پاور کے طور پہ ابھر رہا ہے۔ اسی لیے بھارتی حکمران طبقے نے یہ جانتے بوجھتے بھی کہ چابھار بندرگاہ کی تعمیر خسارے کا سودا ہے‘ اس منصوبے پر اربوں روپے خرچ کر دیئے ۔ یہ رقم کروڑوں غریب ومسکین بھارتیوں کی حالت زارسدھارنے پر خرچ کی جاتی‘ تو کیا زیادہ بہتر نہ تھا؟ خواہشات و مفادات کے اسیر حکمران ہی ملک و قوم کو تباہ اور زوال پذیر کرنے کا سب سے بڑا سبب بنتے ہیں۔

اس سچائی کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ بھارت نے صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے،چین کو نیچا دکھانے‘ اس کا مقابلہ کرنے اور پاکستانی بندرگاہ گوادر کی اہمیت کم کرنے   کے لیے چابھار پورٹ کی تعمیر میں دلچسپی لی اور اس پر اربوں روپے خرچ کر دیئے۔ حقیقتاً بھارت کو اس ایرانی بندرگاہ سے خاص فائدہ نہیں ہو گا۔ اعداد و شمار اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

قبل ازیں بتایا گیا کہ چابھار بندرگاہ کے ذریعے بقول بھارتی حکومت کے بھارت افغانستان ‘ وسط ایشیائی ممالک اور روس تک رسائی چاہتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ چابھار پورٹ یہ مقصد پورا کرتا ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اور درج بالا علاقوں کی باہمی تجارت کا حجم کیا ہے؟ کیا وہ اتنا زیادہ ہے کہ چابھار پورٹ پر خرچ کر دہ رقم سے بھارت کو فائدہ ہو گا؟ اور کیا اس نئی بندرگاہ سے بھارت اور وسط ایشیائی ممالک کے مابین باہمی تجارت بڑھ پائے گی؟

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سترہ سال قبل یعنی 2001ء میں چین وسط ایشیائی ممالک بشمول افغانستان کو تقریباً 50 کروڑ ڈالر مالیت کا سامان بجھواتا تھا ۔جبکہ بھارت بھی 10 کروڑ ڈالر کا سامان انہی علاقوں کو بھجوا رہا تھا۔ آج چین اور ان علاقوں کی باہمی تجارت ’’32 ارب ڈالر‘‘ سے زائد ہو چکی۔

چین درج بالا ممالک کو ہر سال 19 ارب ڈالر کا سامان برآمد کرتا ہے۔ جبکہ انہی ملکوں سے 13 ارب ڈالر کا سامان منگواتا ہے۔ قازقستان ‘ کرغستان‘ ترکمانستان ‘ ازبکستان اور تاجکستان اس کے بڑے تجارتی ساتھی ہیں۔ چین افغانستان کو 43کروڑ ڈالر کا سامان بھجواتا اور صرف ساڑھے چار کروڑ ڈالر کا افغان مال منگواتا ہے۔بھارت اور وسط ایشیائی ممالک کی باہمی تجارت کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں‘ تو وہ بالکل مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان کی رو سے بھارت اور وسط ایشیائی ممالک کی باہمی تجارت کاحجم صرف ’’سوا چار ارب ڈالر‘‘ ہے… یعنی چین اور وسط ایشیائی ممالک کی باہمی تجارت سے کئی گنا کم !بھارت ان ممالک کو 3 ارب 14 کروڑ ڈالر کا مال بھجواتا  جبکہ 1 ارب 24 کروڑ ڈالر کا سامان درآمد کرتا ہے۔

اس خطے میں صرف افغانستان ایسا ملک ہے جس سے بھارت کی باہمی تجارت کا حجم چین سے زیادہ ہے۔ بھارت افغانستان کو 47 کروڑ زائد رقم کا سا مان بھجواتا ا ور 28 کروڑ ڈالر کا منگواتا ہے۔گویا ان دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم 75 کروڑ ڈالر ہے۔ بھارتی حکومت ایران اور افغانستان میں بندرگاہ، ریل پٹڑیوں اور سڑکوں کی تعمیر پر یہ دعویٰ کرکے اربوں روپے خرچ کررہی ہے کہ اس طرح نہ صرف وسط ایشیائی ممالک سے بھارت کی باہمی تجارت میں اضافہ ہوگا بلکہ درج بالا ممالک اور روس کو بھی بحرہند تک رسائی مل جائے گی۔ یہ دونوں دعویٰ کیا حقائق پر مبنی ہیں؟

چین اس لیے گوادر بندرگاہ تعمیر کررہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ سے تیل منگواتا ہے۔ گوادر بندرگاہ کے راستے اسے یہ تیل منگوانا سستا پڑے گا۔مزید براں اسے ایک متبادل راستے کی بھی تلاش ہے کیونکہ بحیرہ جنوبی چین میں چین اور امریکا کے تصادم کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ افریقی ممالک سے بھی چین کی باہمی تجارت بڑھ رہی ہے لہٰذا گوادر بندرگاہ افریقہ جانے کے لیے بھی چینی جہازوں کے کام آئے گی۔

وسط ایشیائی ممالک تیل و گیس کی دولت سے مالا مال ہیں۔ یہ ذرائع ایندھن پانے کے لیے انہیں مشرق وسطیٰ جانے کی ضرورت نہیں۔ اسی لیے پانچوں وسط ایشیائی ممالک کے اہم تجارتی ساتھیوں میں چین، روس اور قریبی یورپی ممالک مثلاً جرمنی، اٹلی، فرانس، ترکی وغیرہ شامل ہیں۔ایک بھی عرب ملک ان کا اہم تجارتی ساتھی نہیں۔ گویا وسط ایشیائی ممالک کو چابھار بندرگاہ استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ البتہ فعال ہونے کے بعد وہ کبھی کبھار اسے استعمال کرلیں گے۔

درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ بھارتی حکمرانوں کا یہ پہلا دعویٰ بالکل بودا ہے کہ چابھار بندرگاہ کی تعمیر سے وسط ایشیائی ممالک اپنا سامان تجارت اس کے راستے بیرون ملک بھجوانے لگیں گے۔ ان ممالک کی بیشتر تجارت روس، چین اور یورپی ممالک کے ساتھ ہوتی ہے۔ چین اور روس تو پڑوسی ہیں، یورپی ممالک کی طرف وہ روس اور ترکی کے راستے اپنا مال بھجوا دیتے ہیں۔

اب آئیے بھارتی حکمرانوں کے دوسرے دعویٰ کی طرف۔ اس میں شک نہیں کہ بھارت وسطی ایشیا میں اپنا اثرو رسوخ پھیلانے کی بھر پور کوششیں کررہا ہے۔ وہ شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن بھی بن چکا جس میں پاکستان بھی شامل ہو گیا ہے۔ لیکن حقائق سے آشکارا ہے کہ وسط ایشیائی ممالک میں روس اور چین کا اثرورسوخ بہت زیادہ ہے۔ یہ دونوں سپرپاور ایک حد تک تو بھارت کو وسط ایشیا میں پر پھیلانے کی اجازت دے سکتی ہیں، لیکن بھارتی حکمران اس خطّے میں کبھی اتنی بڑی طاقت نہیں بن سکتے کہ معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پر معاملات پہ اثر انداز ہوسکیں۔

وسط ایشیائی ممالک میں روس اور چین کے اثرورسوخ کی وجہ سے بھارت ان ملکوں کے ساتھ باہمی تجارت میں اضافہ نہیں کرسکا۔ چناں چہ بھارتی حکمران ایران اور افغانستان میں ذرائع آمدورفت کا انفراسٹرکچر کھڑا کرلیں، تب بھی وسط ایشیائی ممالک اور بھارت کی باہمی تجارت کا حجم چین اور روس کے حجم جتنا کبھی نہیں ہوسکتا۔ وجہ یہی ہے کہ وسط ایشیائی ممالک کے لیے بھارت کی نسبت روس، چین اور قریبی یورپی ممالک سے تجارت کرنا آسان اور نسبتاً سستا عمل ہے۔ جو شے انہیں چین اور روس سے بالفرض ایک ڈالر میں مل رہی ہے، وہ سوا ایک ڈالر میں بھارت سے کیوں منگوائیں؟ (دور ہونے کے باعث بھارت سے مال منگوانے کا خرچ بڑھ جاتا ہے)

مندرج بالا حقائق سے ظاہر ہے کہ بھارتی حکمرانوں نے صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے اور اپنی انا کو تسکین دینے کی خاطر چابھار بندرگاہ اور ایران و افغانستان میں ریل پٹڑیوں اور سڑکوں کی تعمیر پر اربوں روپے جھونک دیئے۔ یوں وہ دنیا والوں کو دکھانا چاہتے ہیں کہ بھارت بھی ایک ابھرتی سپرپاور ہے اور طاقت و حیثیت میں کسی طرح دیگر طاقتوں خصوصاً چین سے کمتر نہیں۔ لیکن کیا بھارتی برہمن حکمران طبقے کو یہ ’’شوبھا‘‘ دیتا ہے کہ وہ اپنے عوام سے حاصل کردہ ٹیکسوں کی رقم ایسے فضول اور بے معنی منصوبوں پر ضائع کردیں۔ بھارتی میڈیا کو بھی حکمران طبقے نے خرید رکھا ہے ورنہ وہ یہ سوال ضرور اٹھاتا۔

صورت حال سے واضح ہے،چابھار بندرگاہ سے بھارت کو صرف یہ فائدہ ہوگا کہ وہ افغانستان تک رسائی پالے۔ لیکن افغانستان تو معاشی طور پر کمزور سا ملک ہے۔ درست کہ وہاں معدنیات موجود ہیں مگر ان کی کانوں پر چین اور امریکا نے نظریں جمائی ہوئی ہیں۔ ویسے بھی بھارتی کمپنیاں ایسے جدید ترین آلات، تجربہ اور وسائل نہیں رکھتیں کہ دشوار گزار پہاڑی مقامات میں کانیں کھود کر معدنیات نکال سکیں۔

بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ بھارتی حکمرانوں نے چابھار سے لے کر کابل تک سارے تام جھام پر اربوں روپے صرف اس لیے لگادیئے تاکہ افغان دارالحکومت تک پہنچا جاسکے۔ یہ نکتہ بہ حیثیت پاکستانی ہمیں چوکنا دیتا ہے۔ یہ عیاں کرتا ہے کہ بھارت پاکستان کا گھیراؤ کرکے اس کے خلاف سازشیں کرنا چاہتا ہے۔ بھارت اور افغانستان کی باہمی تجارت تو صرف 75 کروڑ ڈالر حجم رکھتی ہے۔ بھارت کی مجموعی  تجارت میں اس تجارت کا حصہ آٹے میں نمک برابر ہے۔ یہ سچائی عیاں کرتی ہے کہ چابھار بندرگاہ اور ایران و افغانستان میں ریل پٹڑیوں اور سڑکوں کی تعمیر کی آڑ میں چانکیائی فلسفے پر عمل پیرا بھارتی حکمران طبقہ کوئی خفیہ گیم کھیل رہا ہے۔حد یہ ہے کہ چابھار بندرگاہ کے راستے بھارتی حکومت نے مفت اور وہ بھی گھٹیاگندم افغانستان بھجوا دی تاکہ اپنے عوام کو یہ دھوکا دیا جا سکے کہ اس سارے منصوبے پہ لگے اربوں روپے ضائع نہیں گئے۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں یہ سراغ لگا چکیں کہ افغانستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی، را سرگرم عمل ہے۔ را پاکستان دشمن قوتوں خصوصاً تحریک طالبان پاکستان میں شامل تنظیموں اور بلوچ قوم پرستوں کو مالی امداد دے اور لاجسٹک سہولیات فراہم کررہی ہے تاکہ وہ مملکت خداداد کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچاسکیں۔ اس سلسلے میں را کو افغان خفیہ ایجنسیوں کا تعاون بھی حاصل ہے۔

جب بھارتی حکومت کا چابھار اور ایرانی بلوچستان میں عمل دخل بڑھا، تو را کے خفیہ ایجنٹ تاجروں اور عام شہریوں کے بھیس میں وہاں بھی پہنچ گئے۔ انہی میں کلبھوشن یا دو بھی شامل تھا جسے پاکستانی خفیہ ایجنسیاں بڑی مہارت سے گرفتار کرنے میں کامیاب رہیں۔ اس نے انکشاف کیا کہ وہ بلوچستان اور سندھ میں سرگرم عمل پاکستان دشمن افراد کو ہر ممکن مدد پہنچا رہا تھا۔

ماضی میں براہ راست رسائی نہ ہونے کے سبب بھارت کا افغانستان میں اثرورسوخ بہت کم تھا۔ مگر جب امریکیوں نے افغان سرزمین پر قبضہ کیا، تو بھارتی بھی مدد کے بہانے افغانستان پہنچ گئے۔ آج امریکی آشیرباد سے اس کی کٹھ پتلی افغان حکومت اور بھارت دوستی کی پینگوں پر جھول رہے ہیں۔ بھارتی حکمران طبقہ افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کا سنہرا موقع کھونا نہیں چاہتا۔ اسی لیے وہ تجارت کرنے کی آڑ لے کر ایران اور افغانستان میں آمدورفت آسان بنانے کے لیے اپنے خرچ پر بندرگاہ،ریل پٹریاں،سڑکیں تعمیر کررہا ہے۔ مقصد یہی ہے کہ مشرق اور مغرب، دونوں طرف سے پاکستان کو گھیرے میں لے سکے۔

پاکستان کی مقتدر طاقتوں کو تجارت کی آڑ لے کر انجام پانے والے اس بھارتی گیم پلان پر گہری نظر رکھنا ہوگی۔ ایران کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف کبھی استعمال نہیں ہوسکتی۔ لیکن چانکیہ کا پیروکار بھارتی حکمران طبقہ پوشیدہ طور پر ایران اور افغانستان کی سرزمین استعمال کرکے پاکستان کو ہر ممکن نقصان پہنچاسکتا ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقے ایسا منصوبہ ترتیب دیں جو تجارت کے روپ میں وقوع پذیر ہوتے بھارتی منصوبے کے عزائم خاک میں ملا دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔