لیفٹیننٹ کرنل (ر) حبیب کی  ُپراسرار گمشدگی

سید عاصم محمود  جمعرات 18 جنوری 2018
پچھلے نو ماہ سے لیفٹیننٹ کرنل (ر) حبیب ظاہر کا کچھ اتا پتا نہیں۔ فوٹو: فائل

پچھلے نو ماہ سے لیفٹیننٹ کرنل (ر) حبیب ظاہر کا کچھ اتا پتا نہیں۔ فوٹو: فائل

کچھ عرصہ قبل وطن عزیز میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو سے ملنے اس کی ماں اور بیوی آئی تھیں۔

پاکستانی حکومت نے جذبہ ہمدردی دکھاتے ہوئے انھیں آنے کی اجازت دی۔مگر پاکستانی سکیورٹی اداروں نے حفظ ماتقدم کے تحت خواتین کا لباس کیا تبدیل کرایا کہ بھارت میں یوں شور مچ گیا جیسے قیامت آگئی۔ بھارتی میڈیا پاکستان پر تابڑ توڑ حملے کرنے لگا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ اسے اپنی شاطر حکومت کے شیطانی افعال نظر نہیں آتے۔

مثال کے طور پر ریٹائرڈ پاکستانی لیفٹیننٹ کرنل محمد حبیب ظاہرکا معاملہ ہی دیکھئے۔بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘نے نہایت مکر وفریب سے انھیں اغوا کیا اور اب کسی نامعلوم مقام پر قید کر رکھا ہے۔ انھیں اس لیے پھانسا گیا تاکہ کلبھوشن یادو کی رہائی کے سلسلے میں پاکستانی حکومت سے سودے بازی کی جا سکے۔

یہ 6 اپریل 2017ء کی دوپہر تھی جب لیفٹیننٹ کرنل (ر) محمد حبیب ظاہر سدھارتھ نگر کے گوتم بدھ ہوائی اڈے پر اترے ۔ وہ وہاں ایک برطانوی کمپنی اسٹرٹیجک سولوشنز (Strategic Solutions) کی اعلی قیادت سے ملنے آئے تھے۔ سدھارتھ نگر نیپال کاایک چھوٹا سا شہر ہے۔اس کے قریب ہی لمبینی قصبہ واقع ہے جہاں روایات کی روسے گوتم بدھ پیدا ہوئے تھے۔

لیفٹیننٹ کرنل(ر) ظاہر انسان تھے فرشتہ نہیں‘ اسی واسطے بشری تقاضوں کے باعث دھوکا کھا گئے۔ پھر انہیں جھانسا دینے والوں نے اتنی عیاری و ہوشیاری سے اپنا پلان ترتیب دیا تھا کہ ایک فوجی ہوتے ہوئے بھی وہ سازش کی بو سونگھ نہ سکے۔ ان کی داستان عیاں کرتی ہے کہ ٹارگٹ اغوا کرنے کے لیے خفیہ ایجنسیاں کس قسم کے ہتھکنڈے اختیار کرتی ہیں۔ وہ انسانی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتی اور آخر کار اپنے شکار کو دبوچ لیتی ہیں۔

لیفٹیننٹ کرنل (ر) محمد حبیب ظاہر پاک فوج کے شعبہ آرٹلری (توپ خانے) سے وابستہ تھے۔14 اکتوبر2014کو وہ ریٹائرڈ ہو گئے۔ گھریلو اخراجات بدستور موجود تھے، اسی باعث انہوںنے فیصل آباد کی ا یک مشہور کمپنی میں بہ حیثیت سکیورٹی افسر ملازمت کر لی۔ تاہم ان کی تنخواہ اکثر اخراجات کے مقابلے میںکم پڑ جاتی۔وہ پھر باہر جانے کا سوچنے لگے۔ انہیں یقین تھا کہ غیر ملکی کرنسی میں آمدن معقول ہوگی۔ انہوں نے ملازمت تلاش کرنے والے افراد میں مقبول ویب سائٹ، لنکڈان (LinkedIn) اور اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر اپنے کوائف رکھ دیئے۔

کچھ عرصے بعد اسٹرٹیجک سولو شنز نامی ایک برطانوی کمپنی نے ان سے رابطہ کیا۔ کمپنی کے بقول وہ نجی اداروں سے لے کر سربراہان مملکت تک کو سکیورٹی کی خدمات فراہم کرتی تھی۔ اب اسے اپنے شعبہ سکیورٹی اینڈ انٹیلی جنس کے لیے نائب صدر کی تلاش تھی۔ یہ عہدہ رکھنے والے کا مشاہرہ 8500ڈالر یعنی پاکستانی کرنسی میں تقریباً نو لاکھ روپے تھا۔

یہ معقول تنخواہ تھی اور شاید اسی لیے لیفٹیننٹ کرنل (ر) حبیب ظاہر اس کمپنی کی ملازمت میں دلچسپی لینے لگے۔ انہوں نے پہلے بذریعہ ای میل کمپنی سے رابطہ کیا۔ یقینا انہیں ایسے جوابات موصول ہوئے جن کی بنا پر انھیںیقین ہو گیا کہ یہ کمپنی حقیقی ہے۔ اگر انہیں شک ہوا بھی تو مناسب تنخواہ کی کشش نے اسے پس پشت ڈال دیا۔ بشر ہونے کے ناتے بعض اوقات تجربے کار اور سیانے لوگ بھی غلطی کر جاتے ہیں۔

اسٹرٹیجک سولوشنز حقیقت میں ایک جعلی کمپنی اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کی تخلیق تھی۔ یہ اس لیے قائم کی گئی تاکہ پاک فوج کے ایک سابق افسر کو گھیر گھار کر اپنے قبضے میں لے لیا جائے ۔ را نے پھر اتنی مکاری سے لیفٹیننٹ کرنل (ر) ظاہر کے گرد جال بُنا کہ وہ عالم بے خبری میں اس کے اندر پھنستے چلے گئے۔اسٹرٹیجک سولوشنز کی ویب سائٹ سڈنی ‘ آسٹریلیا میں بنائی گئی جہاں بھارتی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ جبکہ منصوبے کا انت لمبینی علاقے میں کیا گیا جو ایک لحاظ سے بھارتی علاقہ ہی ہے۔ وہاں بھارت کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔

ہوا یہ کہ برطانیہ کے ایک موبائل نمبر 00447451203722 سے مارک تھامپسن نامی را کا ایک ایجنٹ اسٹرٹیجک سولوشنز کا مالک یا سی ای او بن کر ظاہر صاحب سے گفتگو کرتا رہا۔ سہانے سپنے دکھا اور چکنی چپڑی باتیں کر کے اس نے ان کو گھیر لیا۔ آخر کار طے پایا کہ نیپال میں لمبینی کے پُر فضا اور خوبصورت ماحول میں ملاقات کی جائے تاکہ لیفٹیننٹ کرنل (ر) حبیب ظاہر کا انٹرویو ہو سکے۔ یوں وہ اس تاریخی و دلکش مقام کی سیاحت بھی کر سکتے تھے۔ بات معقول تھی‘ اس لیے ظاہر صاحب کو شائبہ تک نہ ہواکہ ان کے اغوا کی بڑی منظم و مضبوط منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔

برطانوی دارالحکومت لندن بھی را کی سرگرمیوں کا گڑھ ہے۔ وہاں بیٹھے مارک تھامپسن نے ظاہر صاحب کو عمان ائیرلائنز کی لاہور۔ مسقط۔کھٹمنڈو پرواز کا بزنس کلاس ریٹرن ٹکٹ بھجوا دیا۔ ظاہر صاحب خو ش ہو گئے کہ معقول غیر ملکی ملازمت حاصل کرنے کا خواب تکمیل کو پہنچنے والا تھا۔5 اپریل کی صبح عمان ایئرلائنز کی پرواز نمبر WY344 سے وہ مسقط روانہ ہوگئے۔ اس دوران بذریعہ موبائل انہوں نے اپنے اہل خانہ سے مسلسل رابطہ رکھا۔ مسقط ہوائی اڈے پر ان کی ملاقات جاوید انصاری نامی آدمی سے ہوئی۔

جاوید انصاری نے انہیں نیپال کی سم دی جس کا نمبر 977981384869 تھا۔ پانچ اپریل کی رات ظاہر صاحب نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو پہنچ گئے۔ وہاں انہیں ایک فائیوسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ ہوٹل میں کمرے کی بکنگ کسی بھارتی خاتون نے کرائی تھی۔چھ اپریل کی صبح لیفٹیننٹ کرنل (ر) محمدحبیب ظاہر بذریعہ ہوائی جہاز سدھارتھ نگر پہنچ گئے۔ وہاں ڈولی رینشل نامی ایک بھارتی شہری نے ان کا استقبال کیا۔ وہ پھر ایک سفید کار میں بیٹھ کر لمبینی روانہ ہوگئے۔ ظاہر صاحب نے دوپہر ایک بجے اپنے ذاتی فون سے اہل خانہ کو پیغام بھجوایا کہ وہ لمبینی پہنچ گئے ہیں۔ یہ آخری پیغام تھا جو ان کی طرف سے موصول ہوا۔

اب پچھلے نو ماہ سے لیفٹیننٹ کرنل (ر) حبیب ظاہر کا کچھ اتا پتا نہیں۔ حکومت نیپال کا کہنا ہے کہ وہ اس کی مملکت میں موجود نہیں جبکہ بھارتی حکومت پاکستان سے تعاون کرنے پر انکار کرچکی۔ بھارتیوں کا دعویٰ ہے کہ چونکہ ظاہر صاحب نیپال میں گمشدہ ہوئے لہٰذا اس معاملے میں ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ خود بھارتی میڈیا کا ایک حصہ یہ کہتا ہے کہ پاکستانی سابق لیفٹیننٹ کرنل کو بھارتی خفیہ ایجنسی را نے اغوا کیا ۔

ان بھارتی ماہرین کے مطابق اغوا شدہ پاکستانی بھارت میں را کے کسی ’’سیف ہاؤس‘‘ یعنی رہائشی علاقے میں واقع خفیہ اڈے میں قید ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ را نے انہیں بھارت۔ نیپال سرحد پر اسمگلنگ اور کالے دھندوں میں ملوث کسی گروہ کے حوالے کردیا ہو تاکہ اس پر کوئی شک نہ کرسکے۔یہ واضح رہے کہ لمبینی میں واقع نیپال اور بھارت کی سرحدی گزرگاہ پر جانچ پڑتال کا کوئی نظام موجود نہیں۔ نیپال سے آنے والے بھارتی باشندے تو محض اپنا شناختی کارڈ دکھا کر اپنے مہمان کو بھی بھارت لاسکتے ہیں۔ لہٰذا را کے ایجنٹ باآسانی ظاہر صاحب کو بھارت لے گئے ہوں گے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی حکومت کلبھوشن یادو کے معاملے میں ’’بارگیننگ چپ‘‘ کے طور پر اغوا شدہ لیفٹیننٹ کرنل (ر) ظاہر کو کب سامنے لاتی ہے۔ بھارتی میڈیا میں یہ خبریں تسلسل کے ساتھ آرہی ہیں کہ ظاہر صاحب ماضی میں پاکستانی خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کے افسر رہے ہیں۔ وہ نیپال میں بھی تعینات رہے اور یہ کہ کلبھوشن یادو کی گرفتاری میں انہوں نے بھی حصہ لیا تھا حالانکہ یہ تمام باتیں لغو اور یاوہ گوئی ہیں۔

سچ یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے عسکری حلقوں میں شروع سے چپقلش اور مقابلہ جاری ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ حریف کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے لہٰذا جب آئی ایس آئی نے بھارتی بحریہ کے افسر کلبھوشن یادو کو پکڑلیا تو بھارتی عسکری حلقے یہ منصوبہ بندی کرنے لگے کہ کوئی پاکستانی فوجی افسر ان کے ہاتھ آجائے۔ را سرتوڑ کوشش کے باوجود حاضر پاکستانی فوجی افسر پر تو ہاتھ نہیں ڈال سکی مگر ایک سابق اعلیٰ اہل کار کو نہایت عیاری سے پھانسنے میں کامیاب ہو گئی۔

اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ شاطر بھارتی حکمران اپنے مذموم مقاصد کی خاطر لیفٹیننٹ کرنل (ر) ظاہر کو استعمال کرسکتے ہیں۔ مگر اب یہ خبر عام ہوچکی کہ ظاہر صاحب اغوا ہوچکے۔ لہٰذا بھارتی حکمران کوئی فرضی بم دھماکا کرکے اس کا الزام پاکستانی لیفٹیننٹ کرنل پر نہیں تھوپ سکتے۔ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ نیپال کے حالیہ پارلیمانی الیکشن میں کمیونسٹ پارٹیوں نے زیادہ نشستیں جیت لی ہیں۔ چناں چہ عنقریب بھارت نواز وزیراعظم، شیربہادر کو مستعفی ہونا پڑے گا۔ خیال ہے کہ کمیونسٹ پارٹی (یونیفائیڈ) کے لیڈر ،کھڑگا پرشاد اولی نئے وزیراعظم منتخب ہوں گے۔

روایتی طور پر نیپال میں بھارت کا اثرورسوخ زیادہ رہا ہے کیونکہ اس مملکت میں 81 فیصد آبادی ہندو ہے۔ تاہم ہندوؤں کی بیشتر تعداد سیاسی و نظریاتی طور پر کمیونسٹ یا سیکولر ہے۔اس حقیقت کا مظہر حالیہ پارلیمانی الیکشن میں سامنے آیا۔یہ الیکشن دو مرحلوں، 26 نومبر اور 7 دسمبر کی صورت مکمل ہوئے۔ اس میں کمیونسٹ پارٹی (یونیفائیڈ) 121 جبکہ دوسری بڑی کمیونسٹ پارٹی (ماؤ) 53 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ کمیونسٹوں کی تیسری پارٹی، فیڈرل سوشلسٹ فورم نے بھی 16 سیٹیں جیت لیں۔ بھارت کی حامی دو جماعتیں میں نیپالی کانگریس 63 جبکہ راشٹریہ جنتا پارٹی 17 نشستیں ہی حاصل کرسکیں۔

یہ سطور قلمبند ہونے تک نیپال میں نیپالی کانگریس کے لیڈر، شیربہادر کی حکومت ہے۔ مگر عنقریب کھڑگا پرشاد حکومت سنبھال لیں گے۔ پاکستان کو امید ہے کہ ان کا دور شروع ہوتے ہی نیپالی حکومت سنجیدگی سے لیفٹیننٹ کرنل (ر) محمد حبیب ظاہر کی گمشدگی کے کیس کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ٹھوس کوششیں کرے گی۔اگر نیپال میں بھارتی خفیہ ایجنسی را سے تعلق رکھنے والے کسی جرائم پیشہ گروہ نے سابق پاکستانی فوجی افسر کو قید کررکھا ہے، تو حکومت تبدیل ہوتے ہی اس کے لیے مشکل ہوجائے گا کہ وہ ظاہر صاحب کو اپنی حراست میں رکھ سکے۔ اگر انہیں بھارت لے جایا جاچکا، تو امید ہے، نیپالی پولیس کی تفتیش سے یہ بات بھی سامنے آجائے گی۔

درحقیقت کھڑگاپرشاد حکومت کا پہلا امتحان یہی ہوگا کہ پتا چلایا جائے، پاکستانی لیفٹیننٹ کرنل (ر) محمد ظاہر پر کیا بیتی۔ وجہ یہ ہے کہ چین کی طرف کھڑگا پرشاد حکومت پر دباؤ ہوگا کہ سابق پاکستانی فوجی کو تلاش کیا جائے۔ فی الوقت شیر بہادر حکومت نے اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی کیونکہ وہ واضح طور پر بھارت کی کٹھ پتلی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ نیپال کو اپنے زیر اثر لانے کے لیے دونوں علاقائی طاقتوں… چین اور بھارت کے مابین زبردست مقابلہ شروع ہوچکا۔ نیپال میں تینوں بڑی کمیونسٹ پارٹیوں کا جھکاؤ چین کی طرف ہے۔ جبکہ نیپالی کانگریس اور راشٹریہ جنتا پارٹی بھارت کو اپنا گرو تسلیم کرتی ہیں۔

یہی وجہ ہے جب جون 2017ء میں شیربہادر نے اقتدار سنبھالا، تو نیپال میں سب سے بڑے ڈیم، بدھی گنگا کی تعمیر کرنے کا ٹھیکہ منسوخ کردیا۔ سابق کمیونسٹ دور میں 1200 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے اس ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ چین کی کمپنی گینروبا گروپ کو دیا گیا تھا۔ منسوخی کے بعد شیربہادر حکومت یہ ٹھیکہ بھارت کی سرکاری کمپنی، این ایچ پی سی لمیٹڈ کو دینے کے لیے اس سے گفت و شنید کرنے لگی۔لیکن الیکشن سے قبل کمیونسٹ لیڈر کھڑگا پرشاد نے اعلان کردیا تھا کہ اگر وہ حکومت میں آئے، تو بدھی گنگا  ڈیم بنانے کا ٹھیکہ دوبارہ چینی کمپنی، گینروبا گروپ کو دے دیں گے۔

یہ یقینی ہے کہ جب تک کھڑگا پرشاد نیپال میں برسراقتدار نہیں آتے، لیفٹیننٹ کرنل (ر) محمد حبیب ظاہر کی گمشدگی سربستہ راز رہے گی۔ غالب امکان ہے کہ تحقیق و تفتیش سے یہی سچائی سامنے آئے گی کہ’’ را‘‘ نے ظاہر صاحب کو اغوا کیا اور اب وہ بھارت کے کسی نامعلوم مقام پر عالم کسمپرسی میں بطور قیدی اپنی زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔