سلطانی ٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ : عوام کے حق رائے دہی اور جمہوریت کا تاریخی و عالمی سفر

انوار فطرت  اتوار 24 مارچ 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

جمہوریت کا ذکر کیا جائے تو پولنگ اسٹیشن اور ووٹنگ کا عمل خواہی نہ خواہی تصور میں اجاگر ہو جاتا ہے، اسی طرح ووٹنگ کی بات ہو تو دراصل جمہوریت ہمارا موضوع سخن بنتی ہے یعنی یہ دونوں چولی دامن کا سا رشتہ رکھتے ہیں۔

جمہوریت کے بارے میں اکثر یہ ہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ جدید دور کی دین ہے تاہم جب ہم عہد رفتہ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں دور بہت ہی دور تک محسوس ہوتا ہے کہ جمہوریت قدیم ادوار میں بھی موجود رہی ہے ہر چند اس کی صورت اک ذرا مختلف رہی ہے لیکن بہ ہرحال قدیم ادوار اس سے محروم نہیں رہے۔ عام طور پر جمہوریت کی قریب ترین قدامت چھے سو برس قبل مسیح بتائی جاتی ہے، درحقیقت اس سے بھی قدیم ہے البتہ ایتھنز اور اسپارتا اس کی بہت واضح مثالیں اور نمونے پیش کرتے ہیں۔

قدیم تر عہد کے قبائلی سماج میں بھی جمہوریت کی ابتدائی شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ جب انسان نے پتھر کے اوزاروں سے کام لینا اور بستیاں بسانا شروع کیں تو دریاؤں کے قریب جو بستیاں بسیں وہاں کی زمینیں زیادہ زرخیز ہوتی تھیں، یہ لوگ اُن قبائل کی نسبت زیادہ خوش حال ہوا کرتے تھے جو دشت و صحرا میں سرگرداں رہتے تھے۔ صحرائی قبیلے بستیوں پر حملہ کرکے ان کی اجناس وغیرہ چھین لیا کرتے، اکثر ان کے علاقوں پر قابض ہو کر اصل باشندوں کو غلام بھی بنا لیا کرتے۔ ان سے بچنے کے لیے یہ ترکیب نکالی گئی کہ قبیلے میں سے ایک تنومند، شہ زور یا زیرک فرد کو منتخب کرلیاجاتا جو ایسی صورت احوال میں قبیلے کو بچانے کی تدبیر کر سکے، اس منتخب فرد کو بعض اختیارات سونپ دیے جاتے تھے جن کے تحت وہ اپنے ساتھ دوسرے نوجوان ملا کر جنگ کی صورت میں اپنے قبیلے کا دفاع کرتا۔ قبیلہ ایسے حالات کے دوران اپنے منتخب رہ نما کے ان احکامات کا پابند ہوتا تھا جن کا اسے انھوں نے خود اختیار دیا ہوتا تھا۔ یہ محدود اور سادہ ترین جمہوریت کی ایک شکل تھی۔ ہر چند یہ صورت بعد میں ملکیت کی علت لگنے کے بعد آمریت اور بادشاہت کی صورت اختیار کر گئی لیکن بہ ہرحال یہ انتخاب کی ایک ابتدائی صورت ہے۔

جمہوریت کی ایک تفہیم یوں بھی کی جاتی ہے کہ یہ ایک سیاسی عمل ہے جس میں سماج کے تمام ارکان مروجہ سیاسی قوت میں حصے دار ہوتے ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ بابلی تہذیب سے بہت پہلے میسوپوٹامیا (آج کے عراق) کے سمیری رزمیے گل گامش (Gilgamash) کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد کا میسوپوٹامیا ابتدائی جمہوریت کی ایک شکل ہے، اس میں حکومت کے تمام تر اختیارات عوام کے پاس ہیں جب کہ قومی ہیرو گل گامش ہے، طرز حکومت بہت سادہ ہے۔ سمیری بادشاہان کوئی بھی ضروری قدم اٹھانے سے قبل مرد شہریوں سے اجازت لینے کے پابند ہوتے تھے، مطلق العنان ہرگز نہیں تھے۔ ہر بڑی شہری ریاست (City state) میں ’’بزرگ شہریوں کی کونسل‘‘ ہوتی تھی اس کے علاوہ ایسے نوجوانوں کی بھی ایک کونسل ہوا کرتی تھی جس میں آزاد اور صاحبِ اسلحہ شہریوں کو شامل کیا جاتا تھا، یہ لوگ حتمی سیاسی مقتدرہ سمجھے جاتے تھے اور ہر ضروری اقدام، جیسے جنگ وغیرہ، کے لیے ان کی اجازت درکار ہوتی تھی۔ یہ لوگ ریاست کا سربراہ یک زبان ہو کر نعرہ بلند کرکے یا ہاتھ کھڑا کرکے منتخب کرتے تھے۔ دوسری صورت یہ ہوتی تھی کہ ’’بزرگوں کی کونسل‘‘ شہریوں سے ان کی آراء لے کر اکثریت کی بنیاد پر سربراہی عطا کرتی تھی۔

ایک دعوے کے مطابق برصغیر پاک و ہند میں بھی جمہوری حکومتوں کی مثالیں چھٹی صدی قبل مسیح ہی میں موجود تھیں، سکندر یونانی کی ہندوستان آمد کے کوئی دو صدیاں بعد ایک یونانی مورخ ڈی او ڈورس اطلاع دیتا ہے کہ ہندوستان میں آزاد اور جمہوری ریاستیں موجود تھیں۔ سنس کرت میں ایک لفظ ہے ’’سانگھا‘‘، جو گروہ یا برادری کا مفہوم رکھتا ہے، بدھ مت میں مرد بھکشوؤں اور پجارنوں کی مجلس سمجھ لیجے، اسی طرح ایک اور لفظ ’’گانا‘‘ ہے، یہ بھی تقریباً سانگھا ہی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

یہ مجلس اپنا ایک لیڈر چنتی تھی جسے راجا پکارا جاتا تھا، باقی مجلس اس کی اسمبلی ہوتی تھی جس کے اجلاس بلاناغہ ہوتے تھے۔ ان اجلاسوں میں ریاست کے فیصلوں پر بحث کی جاتی تھی اور اس میں کوئی بھی آزاد مرد شریک ہوسکتا تھا۔ اس مجلس کو مالیاتی اور عدلیاتی اختیارات حاصل ہوتے تھے، فیصلے اکثریت کی بنیاد پر کیے جاتے۔

ریاست کا بادشاہ بھی یہ ہی اسمبلی چنتی تھی، انتخاب البتہ کشتری اشرافیہ ہی سے کیا جاتا۔ بھارت کی ایک قدیم ریاست لچھاوی (صدر مقام ویشالی) کو دنیا کی پہلی ری پبلک قرار دیا جاتا ہے، اس کی مقتدرہ کے ارکان کی تعداد اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سات ہزار 77 راجوں پر مشتمل تھی۔ دوسری طرف گوتم بدھ کے پیروکاروں میں شاکیہ بودھوں کی بھی اسمبلیاں ہوتی تھیں جن میں ہر ذات اور مذہب کے افراد شریک ہوتے تھے۔ برصغیر کے شہرۂِ آفاق مفکر چانَکیا کی قدیم تصنیف ’’ارتھ شاستر‘‘ میں ایک باب ایسا بھی ہے جس میں بادشاہ کو وہ حیلے حربے بتاتاہے جن کے ذریعے ’’سانگھوں‘‘ اور ’’گانوں‘‘ کو پَٹایا جا سکتا تھا بہ ہرحال ہندومت میں ذات پات کے اٹوٹ نظام کے باعث جمہوریت کا تصور دشوار ہے۔

یورپ میںجمہوریت کا ذکر کیا جائے تو سب سے پہلے اسپارتا سامنے آتا ہے۔

اسپارتا: یونان پرانے وقتوں میں کوئی لگا بندھا ملک نہیں تھا بل کہ آزاد ریاستوں کا ایک مجموعی نام تھا۔ اکثر ریاستیں اشرافیہ کے شورائی نظام پر مشتمل تھیں، ایسی ہی ایک ریاست اسپارتا (درست تلفظ) تھی جس کا موازنہ ایتھنزی جمہوریت سے کیا جاتا ہے تاہم اسپارتا والے ایتھنز کے برعکس نجی دولت والی شرط کو رد کرتے تھے۔ اس ریاست میں سیاسی یا اقتداری قوت چار اداروں میں منقسم تھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کے دو بادشاہ ہوتے تھے، دوسرا ادارہ جیروسیا یعنی ’’مجلسِ بزرگاں‘‘ تھا، جس میں دونوں بادشاہ شامل تھے، تیسرا ادارہ ایفور (Ephors) یعنی نمائندگان پر مشتمل تھا جو دونوں بادشاہوں پر کڑی نظر رکھتا اور چوتھا ادارہ اپیلا (Apella) تھا جسے اسمبلی کہیے۔

دونوں بادشاہ حکومت کے سربراہ ہوتے تھے۔ ایک ملک پر دو بادشاہ، ایک میان میں دو تلواریں نہ سما سکنے کے تصور کے منافی تھا تاہم اس سے یہ ہوتا تھا کہ دونوں میں سے کوئی ایک بھی طاقت کو مرتکز نہیں کر پاتا تھا۔ دونوں بادشاہ جیروسیا (Gerousia) کے تعاون سے عدلیاتی ذمے داریاں نباہتے۔ جیروسیا کی رکنیت کے لیے عمر 60 یا اس سے زیادہ ہونا ضروری تھی اور یہ ادارے کے تامرگ رکن ہوا کرتے تھے۔ ان کا باقاعدہ انتخاب ہوا کرتا تھا البتہ تعلق ان کا دولت مند گھرانوں سے ہونا لازمی تھا تاکہ ان کو خریدا نہ جاسکے۔ یہ اسپارتا کے سیاسی سماج میں بہت قوت کا حامل ادارہ تھا۔ اس نظام میں سب سے زیادہ عوامی ادارہ اپیلا یعنی اسمبلی تھا، اس کے 30 سال عمر سے اوپر کے ارکان، مجلس بزرگاں اور ایفور کے پانچ ارکان کا انتخاب کرتے تھے اور ان تمام اداروں کے فیصلوں کو منظور یا رد کرنے کا اختیار رکھتے تھے۔ ایفور کے ارکان کو دونوں بادشاہوں میں سے کسی ایک یا دونوں کو معزول کرنے کا اختیار بھی تھا۔ انھیں عمر بھر میں ایک بار صرف ایک سال کے لیے منتخب کیا جاتا تھا۔ ایفورز، خارجہ پالیسی، تعلیم اور فوج کا معیار برقرار رکھنے کے ذمے دار تھے۔ ارسطو کے مطابق ایفور یعنی مجلس نمائندگان ریاست اسپارتا کا کلیدی ادارہ تھا کیوں کہ اس کے ارکان اکثر معمولی اور بعض اوقات انتہائی پس ماندہ طبقات سے آتے تھے۔

اسپارتا کے اس جمہوری نظام کا خالق لائی کرگس (Lycurgus) تھا۔ اس کا خیال اسے ہیلَتوں (Helots) کی بغاوت کے نتیجے میں آیا۔ ہیلَت غلام تھے، ان لوگوں نے ایک بار بغاوت کرکے اسپارتا کی چولیں ہلا ڈالی تھیں۔ لائی کرگس نے اس صورت حال کے اعادہ سے ریاست کو بچانے کے لیے عسکری معاشرے کی بنیاد رکھی جس کے باعث یہ ریاست منفرد حیثیت کی حامل ہوگئی۔ اس نے اس کی بنیاد تین خصوصیات، ’’مساوات، ہمہ وقت عسکری تیاری اور کفایت شعاری‘‘ پر رکھی۔

لائی کرگس کی اصلاحات باقاعدہ ضبطِ تحریر میں لائی گئیں۔ اس مجموعے کو گریٹ ریٹرا (Great Rhetra) کا نام دیا جاتا ہے اور یہ دنیا کا اولیں تحریری دستور بھی قرار پاتا ہے۔ ان اصلاحات کے باعث اسپارتا صدیوں تک سپرپاور بنا رہا۔ ’’مساوات‘‘ والی خصوصیت پر سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا تھا۔ ان کے تعلیمی اداروں میں مرتبہ و حیثیت کی تمیز کے بغیر تعلیم دی جاتی تھی۔ اسپارتا کے مداحین میں ہیرودوتس اور زینوفون جیسے مورخین اور افلاطون اور ارسطو جیسے فلاسفہ شامل ہیں۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اسپارتا کے سماج میں عورت کو مرد کے مساوی حیثیت حاصل تھی، وہ وراثت میں برابر کا حق رکھتی تھی، جائداد کی مالک بن سکتی تھی اور تعلیم بھی حاصل کر سکتی تھی۔ شہریوں کو اپنے بادشاہوں پر کھلے عام تنقید کا حق حاصل تھا، یہ ہی نہیں بل کہ انھیں کسی بھی وقت معزول کیا جاسکتاتھا، دیس نکالا بھی دیاجاسکتاتھا۔

ناقدین اسپارتا کے اس نظام سے تلاش بسیار کے بعد یہ ہی ایک خامی برآمد کر پائے یہاں فرد کو شتر بے مہار بننے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ نظام صدیوں تک چلا کیا تاہم جب ایران کے ساتھ جنگوں میں فتوحات حاصل ہوئیں تو سونے، چاندی اور جواہرات کی فراوانی ہو گئی، جس کے ساتھ کم زوریاں بہ ہرحال در آتی ہیں، اُدھر ہم سائے میں ایتھنز والے فرماں روا بھی ایران سے جنگوں کے بعد ایران کے ہی ہجامنشی شاہوں کی روش پر چل نکلے اور اپنے جغرافیے کو بڑھانے کے درپے ہو گئے۔ دونوں کے درمیان برتری کی دوڑ شروع ہوگئی، اسے تاریخ میں پیلوپونیشین جنگ (Peloponition) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس میں اسپارتا فاتح تو رہا لیکن ادھ موا ہو کر رہ گیا اور 371 قبل مسیح میں لیوکترا کی جنگ میں تھیبیوں (Thebes) سے مار کھا گیا، رہا سہا بھرکس مقدونیہ کے شاہ فیلقوس نے نکال دیا۔

ایتھنز:
ایتھنز کو جمہوریت یا حق رائے دہی کی جائے پیدائش قرار دیا جاتا ہے۔ جب تاریخ سے جمہوریت کی مثال دینے کی ضرورت پڑتی ہے تو پہلے ایتھنز کا نام لیا جاتا ہے۔ ساتویں صدی قبل مسیح میں مطلق العنان بادشاہوں کی چیرہ دستیاں اور استیصال اوجِ کمال پر پہنچ گیا تھا، چند لوگوں نے عوام کو غلام بنا رکھا تھا، یونان بھر کے عواممیں نفرت اور غصہ پھیلا ہوا تھا، کئی ریاستوں میں بغاوتیں ہوئیں، امیر و غریب کا فرق آسمان و زمین ہو چلا تھا۔

ایسے میں ایک دانش ور سولون (Solon) نے آگے بڑھ کر حالات کو درست کرنے کا بیڑا اٹھایا، وہ غنائی شاعری بھی کرتا تھا بعد میں قانون ساز بنا۔ پلوتارک اسے اپنے عہد کا عبقری قرار دیتا ہے، اس نے غریب عوام کے مسائل حل کرنے اور انھیں مطمئن کرنے کی کام یاب کوشش کی۔ اس نے ریاست کو چار جائدادی طبقات میں تقسیم کیا، انھیں مختلف حقوق اور ذمے داریاں سونپیں۔ اس نے اسمبلی (Ecclesia) بنوائی جس میں ہر شہری ووٹ دینے کا حق رکھتا تھا۔ یہ اسمبلی خود مختار ہوتی تھی قانون سازی کا حق رکھتی تھی اور فرمان بھی جاری کر سکتی تھی، افسروں کا انتخاب کرنے اور عدالت کے اہم فیصلوں کے خلاف اپیل سننے کا استحقاق بھی اسی کے پاس تھا۔ اس نے 400 کونسلیں قائم کرائیں جن میں ریاست کے غریب ترین طبقات کو ایک سال کے لیے شمولیت کی اجازت تھی۔

یہ کونسلیں (Boule) اسمبلی کو مواد فراہم کرتی تھیں جن پر قانون سازی ہوتی تھی۔ اعلیٰ عہدے جیسے میجسٹریٹ بہ ہرحال ریاست کے اول اور دوسرے نمبر کے دولت مند طبقات کے لیے مخصوص تھے۔ ریٹائر ہو جانے والے میجسٹریٹ آرکون کہلاتے تھے اور کوہ آریز کونسل کے رکن کر مقدس ہوجاتے تھے۔ یہ کونسل ایک طرح سے کورٹ آف اپیل ہوتی تھی۔ قانون کے تحت ایک ایتھنزی کا دوسرے ایتھنزیوں کو غلام بنانا جرم تھا، سیاسی مراعات اعلیٰ نسبی کے بجائے فرد کی پیداواری صلاحیت و اہمیت پر دی جاتیں۔

یہ دانش ور اشرافیہ میں آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیوںکہ ایک تو اس نے اشرافیہ کو نہیں ستایا، دوسرے یہ کہ اس کے مرتبہ قوانین کو بہت جلد اور آسانی کے ساتھ چھوڑا اور توڑا گیا۔
روم:
رومن ری پبلک کا نمونہ بھی کئی صدیوں تک سیاسی مفکرین کو متاثر کرتا رہاہے۔ کہا جاتا ہے کہ آج کا جدید اسلوب نمائندگی یونانی سے زیادہ رومی نقل ہے۔ روم، اطالیہ میں تیرہ صدیاں قبل مسیح میں ایک شہری ریاست تھی جس پر بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ 510 قبل مسیح میں ریاست میں سماجی انتشار اور بیرونی خطرات بڑھ گئے تو مقامی اشرافیہ نے لوشیئس جونیئس بروٹس کی قیادت میں ایکا کرکے بادشاہ تارکوئی تس سپربس کو چلتاکیا۔

اس کے بعد جب بالادست اور زیردست طبقوں میں اختلافات بہت بڑھ گئے تو 454 قبل مسیح میں رومن سینیٹ نے ایک تین رکنی کمیشن یونان بھیجا تاکہ وہ سولون اور دیگر قانون سازوں کے طریقۂ کار کا مطالعہ و مشاہدہ کرے۔ عوام کا مطالبہ تھا کہ قوانین دوامی اور لادینی ہوں اور انھیں تحریری شکل دی جائے۔ کمیشن نے واپس آکر بارہ اصول وضع کیے، جنہیں رومی قوانین کہا جاتا ہے۔

اس میں عام شہری کو ووٹ دینے اور مملکت کے عہدوں کے لیے انتخاب لڑنے کا حق دیا گیا تھا۔ روم میں عام شہری کو Plebe کہا جاتا تھا، لفظ Plebiscite اسی سے لیا گیا ہے، جس کا مفہوم ہے رائے دہندگان کا براہِ راست ووٹ دینے کا حق۔ اس آئین میں سینیٹ اشرافیہ اور اسمبلی عوامی نمائندوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ کونسلوں (عوامی نمائندوں) کو سول اور فوج کے معاملات طے کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ کونسل ہی رومی فوج کی کمان کرتے تھے، سینیٹ اور اسمبلیوں کی صدارت کرتے تھے۔ شاہی ادارہ دو کونسلوں کے ہاتھ میں ہوتت تھا۔ سینیٹ آئین و قوانین کی منظوری دیتا تھا اور میجسٹریٹ کو ہدایات جاری کرتا تھا جنہیں میجسٹریٹ کسی طور رد کرنے کا حق نہیں رکھتا تھا۔

جدید جمہوریتیں کسی نہ کسی صورت بہت قدیم زمانوں کی نقل ہیں۔ ہر ثقافت نے کسی نہ کسی عہد میں اپنی قیادتیں منتخب کرنے کا سلسلہ اپنائے رکھا ہے۔ عوامی اسمبلیاں ٹرائے کی جنگ (Iliad) اور اوڈے سس کی مہمات (Odyssey) سے پہلے بھی موجود تھیں۔ معروف مورخ جیک ویدرفورڈ کا دعویٰ ہے کہ امریکی (USA) آئین اور جمہوریت اصل امریکی باشندوں کے مختلف قبیلوں کے اصولوں سے ماخوذ ہے۔ مورخ کا کہنا ہے کہ ایسی جمہوریت سن 1000 سے 1450 تک موجود رہی ہے اور شمالی امریکا کی جمہوریت نے ان ہی سے راہ نمائی لی ہے۔

جمہوریت کا جدید دور:
فرانس: میں 1792 میں پہلی بار جو کنونشن اسمبلی منتخب ہوئی، اسے 25 اور 25 سال سے زیادہ عمر کے مردوں نے منتخب کیا تھا بعد میں 82 برس تک فرانس بادشاہوں اور پونا پارٹ حکومتوں کا شکار رہا اور سیاسی ابتری غالب رہی۔ 1875 میں ایک آئینی قانون کے تحت مردوں کو ووٹ دینے کا حق ملا۔

سوئزر لینڈ: جب جدید وفاقی ریاست بنا تو 1848 میں آئین بنا اور مردوں کو رائے دہی کا حق دیا گیا۔
آسٹریلیا: میں 1857 اور 1858 میں بالترتیب وکٹوریہ کالونی اور نیو سائوتھ ویلز کالونی کی پارلیمان نے اس حق کو تسلیم کیا۔
یونان: میں 1862 میں شاہ اوٹو کی معزولی کے بعد یونیورسل سفریج صرف مردوں کو ملا۔
نیوزی لینڈ: میں 1893 میں بالغ عورتوں اور مردوں دونوں کو یہ حق دیا گیا۔

جنوبی آسٹریلیا: نے بہ طور برطانوی کالونی، 1894 میں دونوں صنفوں کو ووٹ دینے اور لینے کا حق دیا۔
آسٹریلیا کی دولت مشترکہ: آسٹریلیا نے 1901 میں وفاقی شکل اختیار کی اور 1902 میں وفاقی پارلیمان نے دونوں صنفوں کو یہ حق دیا۔
فن لینڈ: روسی سلطنت کا حصہ تھا۔ یہاں کی خود مختار گرینڈ پرنسی پیلیٹی نے 1906 میں دونوں صنفوں کو یہ حق دیا اور 1907 کے انتخابات میں پہلی بار یہاں خواتین بھی پارلیمان میں پہنچیں۔ یاد رہے کہ فن لینڈ 1917 میں آزاد ہوا تھا۔

اسی طرح ارجنٹائن میں 1912، ناروے میں 1913، ڈنمارک میں 1915 استونیا میں 1917، جرمنی، آسٹریا، چیکوسلواکیا، ہنگری، پولینڈ اور سوویت یونین میں 1918 میں، آذر بائیجان، آرمینیا، جارجیا، لٹویا، لگزم برگ، نیدر لینڈز اور سویڈن میں 1919، لیتھوانیا اور آئرلینڈ میں 1922، نیو فائونڈ لینڈ میں 1925میں، یو کے میں 1928میں، سری لنکا (سابق سیلون) میں 1931 میں، برازیل میں 1932میں، تھائی لینڈ اور اسپین میں 1933 میں، ترکی میں 1934 میں، برما میں 1935میں، فلپائن میں 1937 میں، لبنان میں 1943میں، فرانس اور جمیکا میں 1944 میں، بلغاریہ، جاپان اور اٹلی میں 1945 میں، میکسیکو اور تائیوان میں 1947 میں، (اقوام متحدہ نے 1948 میں مساویانہ حق رائے دہی کی شق حقوق انسانی کے ڈیکلریشن میں شامل کی) اسرائیل، جنوبی کوریا اور بلجیئم نے 1948 میں، چلی نے 1949 میں، بھارت نے 1950 میں، گھانا نے1951 میں، بولیویا اور یونان نے 1952 میں، انڈونیشیا اور ملیشیا نے 1955 میں، کولمبیا اور پاکستان نے 1956 میں، کینیڈا نے 1960 میں، ایران نے 1963 میں، افغانستان نے 1964میں حق رائے دیا۔ پاکستان میں 1956سے پہلے بھی عوام ووٹ ڈالتے تھے لیکن آئینی طور پر اُن کا یہ حق پہلی بار 1956 میں تسلیم کیا گیا۔

امریکا (USA) میں یہ حق پہلے سے موجود تھا تاہم افریقی امریکیوں کو یہ حق دینے کے لیے 1870 میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے دیا گیا جب کہ 1920 میں خواتین کو اہل قرار دے دیا گیا، اس کے باوجود بعض ریاستوں میں کالوں کو پول ٹیکس، ناخواندگی اور افسر شاہانہ حیلے بہانے کرکے اس حق سے محروم رکھا جاتا رہا بہ ہرحال 1965 میں پورے یو ایس اے میں یہ حق رنگ داروں کو مل ہی گیا۔ رفتہ رفتہ 2008 تک یہ حق پرتگال، یورپی یونین، پرو، زمبابوے، جنوبی افریقا، تائیوان، بحرین، عمان، سعوی عرب، قطر، کویت اور بھوٹان تک میں بالگ حقِ رائے دہی یا ووٹ کا حق تسلیم کر لیاگیا۔ ان میں متعدد ممالک میں مردوں کوووٹ دینے کا حق پہلے سے حاصل تھا بعد میں خواتین کو بھی ملا۔ بہت سے مسلمان ممالک ایسے ہیں جن میں یہ حق صرف بلدیاتی انتخابات کے لیے دیا گیا ہے۔ سعودی عرب میں 2005 سے بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں تاہم وہاں فی الحال صرف مرد ہی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔

جمہوریت کی ازسرنو اٹھان:
جمہوریت کا جدید دور سولہویں صدی میں یورپ سے شروع ہوتا ہے جب پولینڈ اور پولینڈ لیتھوانیا کی دولتِ مشترکہ میں ’’گولڈن لیبرٹی‘‘ یا سنہری آزادی دی گئی۔ اس کے تحت ایک ’’اشرافیہ جمہوریت نما‘‘ قائم کی گئی اس میں دولت مشترکہ کی اشرافیہ نے، جو 10 فی صد تھی، بادشاہ کا انتخاب کیا تھا۔

سترہویں صدی (1640-50) میں برطانیہ میں خانہ جنگی کے دوران سیاسی پارٹی کے قیام کا تصور پیدا ہوا۔ اسی دوران ’’دی موڈریٹ‘‘ کے نام سے ایک اخبار بھی جاری کیا گیا، ٹوری پارٹی اور وِگز اسی دور کی یادگار ہیں۔

1620 کے مے فلاور کم پیکٹ (Mayflower campact) کا معاہدہ نے بھی جمہوریت کو فروغ دیا۔ یہ معاہدہ انگلستان سے امریکا نقل مکانی کرنے والے افراد نے آپس میں طے کیا تھا، ’’مے فلاور‘‘ اس بحری جہاز کا نام تھا جس پر وہ سوار تھے، اس معاہدے پر دست خط کرنے والوں نے نئی سرزمین پر حکومت قائم کرنے اور اسے اکثریتی بنیادوں پر چلانے کا عہد کیا تھا۔

1680 میں ولیم پن نے پنسلوانیا حکومت کے لیے جمہوریت کے مشابہ کچھ اصول وضع کیے تھے جس میں نمائندہ قانون ساز ادارے کے قیام اور شہریوں کو آزادیاں دینے پر زور دیا گیا تھا۔
1789 میں جزیرہ کورسیکا نے آزادی کا اعلان کرکے کورسیکی ری پبلک قائم کی، اس کے سربراہ پاسکل پائولی نے آئین تیار کیا جس میں عورتوں کا ووٹ کا حق بھی تسلیم کیا گیاتھا۔

اٹھارہویں صدی میں براعظم امریکا میں جمہوری لہر چلی۔ 1776 میں ورجینیا اعلامیۂ حقوق لکھا گیا۔ یونائیٹڈ اسٹیٹس کا آئین 1778 میں لکھا گیا 1791 میں ریاست ہائے متحدہ کا بل آف رائٹس منظور کیا گیا۔ 1790 کی دہائی میں پہلا جماعتی نظام متعارف کیا گیا جس میں مقامی سیاسی پارٹیوں کی تشکیل، پارٹی اختیارات، امیدواروں کے چنائو وغیرہ کے اصول طے کیے گئے۔ 1780 میں سماجی تحریکوں (Social movements) کے کے دوران لفظ ’’ڈیموکریسی‘‘ بہت استعمال ہوا، تب تک یورپ میں ڈیموکریسی کے لفظ کو انارکی (Anarchy) کے ہم معنی قرار دیاجاتا تھا۔

1789-99 فرانسیسی انقلاب کا دورانیہ ہے جس میں بادشاہت کے خلاف شدید نفرت سامنے آئی۔ 26 اگست 1789 کو مرد شہریوں کے حقوق کا اعلامیہ جاری کیا گیا۔ ستمبر 1792 میں نیشنل کنونشن کے انتخاب کے لیے مردوں کے آفاقی حق رائے دہی کا اعلان کیا گیا، اسی کنونشن میں 4 فروری 1794 میں فرانس اور اس کی نوآبادیوں میں بلاامتیاز رنگ و مذہب مردوں کی غلامی ختم کرنے کا اعلان کیاگیا۔ 1791 میں ہیٹی میں غلاموں نے کام یاب بغاوت کی اور ایک آزاد ریپبلک بنائی۔

یو کے میں 1807 میں غلاموں کی تجارت پر پابندی عائد ہوئی، 1832 میں ریفارم ایکٹ کے تحت ان شہری علاقوں کو بھی نمائندگی اور رائے دہی کا حق دیا گیا جو پہلے اس سے محروم تھے۔
دوسرے انقلاب فرانس (1848) کے نتیجے میں ایک بار پھر مردوں کو آفاقی حق رائے دہی دیا گیا جو اس سے پہلے نپولین بونابارٹ نے ختم کر دیا تھا۔ اس سے متاثر ہو کر ڈنمارک نیدرلینڈز اور دوسرے یورپی ملکوں میں جمہوری آئین بنائے گئے۔

جمہوریت کے فروغ میں عظیم جنگوں کا کردار:
بیسویں صدی دو عظیم جنگوں کے سانحات سے دوچار ہوئی تاہم اس سے یورپ میں جمہوریت کو فروغ ملا۔ ہر چند اس دوران دنیا میں 1930 کی دہائی کا گریٹ ڈیپریشن بھی آیا جس کے نتیجے میں لاطینی امریکا اور یورپ کے بعض ممالک آمریت کی لپیٹ میں آئے تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی یورپ میں جمہوریت بہت مقبول ہوئی۔
جاپان 1920 کی دہائی میں تائے شو کے عہد میں جمہوریت کی طرف بڑھا۔ جنگِ عظیم دوئم کے بعد وہاں 1946 میں نیا آئین سامنے لایا گیا جس میں انتخابات اور ووٹنگ کا اصول اپنایا گیا۔ دوسری عالمی جنگ یورپ کے لیے ہلاکت خیز رہی تاہم یورپ سے باہر نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کاآغاز کر گئی۔

اکیسویں صدی کی جمہوریت
اکیسویں صدی کمپیوٹر کے عہد میں آئی ہے لہٰذا اس عہد کے تقاضے مختلف ہیں، یہ نئے رجحانات ساتھ لائی ہے۔ ایک نئی طرح کی جمہوریت سامنے آ رہی ہے جسے ڈیلِب ریٹو ڈیموکریسی (Deliberative democracy) یا ڈس کسیو ڈیموکریسی (Discussive democracy) کا نام دیا جا رہا ہے اس کا تاحال کوئی اچھا سا اردو ترجمہ سامنے نہیں آیا شاید فکری یا مفکرانہ جمہوریت مناسب ہو، لسانیات کے ماہرین متوجہ ہوں۔ اس میں متفقہ فیصلہ سازی اور اکثریت کا اصول مروجہ جمہوریت سے من و عن لیا گیا ہے تاہم یہ طریقہ تھوڑا پیچیدہ ہے اور صرف ووٹنگ پر انحصار نہیں کرتا۔

یہ اصطلاح جوزف ایم بیسٹ نے 1980 میں متعارف کرائی تھی۔ اس طرز کی جمہوریت میں محض ترجیحات پر ووٹ نہیں دیا جاتا، کسی فیصلے کو مکمل جمہوری بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس پر ثقہ قسم کا بحث و مباحثہ کیا جائے، غور و خوض کیا جائے۔ ثقہ یا مسلمہ بحث مباحثہ ایسے فیصلہ سازوں کے درمیان ہونا چاہیے جو غیرمتوازن سیاسی طاقت کا شکار نہ ہوں۔ غیرمتوازن سے مراد یہ کہ طرفین دولت اور مفادات کے دبائو سے پاک ہوں۔ پروفیسر جیمز نے اس کے اصول وضع کرنے پر 15 سال صرف کیے ہیں۔ وہ اس طرح کے بحث مباحثے اور غور و فکر کے لیے پانچ بنیادی خصوصیات بتاتے ہیں۔

ایک یہ کہ بحث میں حصہ لینے والوں کو موضوعِ زیر بحث سے متعلق درست اور مکمل کوائف فراہم کیے جائیں، دوسری یہ کہ موضوع کے مختلف پہلوئوں کا تقابل، معاون شواہد پر کیا جائے، تیسری یہ کہ موضوع وہ زیر بحث لایا جائے جس کے تمام اہم پہلو دست یاب ہوں اور عوام کی مرضی بھی ہو، چوتھی یہ کہ بحث کے شرکاء باضمیر و مخلص ہوں اور تمام دلائل کو وزن دیتے ہوں اور پانچویں یہ کہ دلائل کی بنیاد محض خیالات پر نہیں بل کہ شواہد پر رکھی جائے۔

خفیہ رائے دہی
1850 کی دہائی میں آسٹریلیا میں خفیہ بیلٹ کا طریقہ متعارف کرایاگیا۔ 1872 میں یو کے اور 1892 میں یو ایس اے میں بھی خفیہ بیلٹ کا طریقہ اپنایا گیا، 1853 میں جنوبی افریقہ کے کیپ پروونس میں کالوں نے ووٹ ڈالے، 1870 میں یو ایس اے میں 15 ویں ترمیم منظور کی گئی جس کے تحت رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر ووٹ کا حق دیا گیا۔ 1879 اور 80 میں یو کے جدید سیاسی دور میں داخل ہوا۔ 1893 میں نیوزی لینڈ نے خواتین کو بھی ووٹ کا حق دے کر اس باب میں اولیت حاصل کر لی۔

خفیہ طریقہ رائے دہی یا سیکرٹ بیلٹ کے نظام نے جمہوریت کے فروغ میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس سے پہلے ووٹ دینے کا وکٹورین میتھڈ اور آسٹریلین میتھڈ استعمال ہوتا تھا تاہم ان دونوں طریقوں میں پتا چل جاتا تھا کہ کس ووٹر نے کس امیدوار کو ووٹ دیا۔ اس سے جمہوریت کی روح مجروح ہوتی تھی اور بعض اوقات ووٹر خوف، لالچ یا تعلقات کے باعث آزادی سے اپنا حق استعمال نہیں کر سکتا تھا۔

آفاقی حق رائے دہی (Universal sufrage)
یہ اصول آفاقی بالغ حق رائے دہی یا عمومی حق رائے دہی بھی کہلاتا ہے۔ اس اصول کے تحت ہر بالغ شہری کو ووٹ دینے کا حق دیا جاتا ہے بعض حالات و مقامات پر غلاموں کو بھی اس کا مستحق قرار دیا جاتا تھا۔ اس کے تحت حکومت کسی معاملے پر شہریوں سے آراء طلب کرتی ہے اور آراء دینے والوں میں نسل، صنف، مذہب، دولت یا سماجی رتبے کی قدغن نہیں لگائی جاتی۔ سب سے پہلے 1792 میں فرانس میں بالغ مردوں کا حق رائے دہی تسلیم کیا گیا اس کے ساتھ ہی سوئزر لینڈ میں بھی اس پر 1848 سے عمل درآمد شروع ہوا۔

جرمن شہنشاہیت نے اسے 1871 میں تسلیم کر لیا تاہم نیوزی لینڈ دنیا کا سب سے پہلا ایسا ملک قرار پاتا ہے جس نے اس تصور کو 1893 میں بلاامتیازِ صنف اپنایا یعنی وہاں خواتین کو بھی ووٹ کا حق دیا گیا۔ اس تصور نے فرانس سے باہر ملکوں کو بھی متاثر کیا اور اس کے سامنے آنے کے کوئی دو دہائی کے اندر اکثر مغربی ملکوں نے اسے اپنا لیا البتہ خود فرانس میں عورتوں کو یہ حق 1945 میں، اٹلی میں 1946 میں بلیجیئم میں 1948 میں اور سوئزر لینڈ میں 1971 میں دیا گیا۔

اس سے قبل جدید جمہوریتوں میں ووٹ دینے کا حق صرف صاحب جائداد اور دولت مند طبقات کو دیا جاتا تھا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ووٹ ڈالنے کا حق صرف اقلیت کو ہوتا تھا اور اقلیت میں بھی عورتوں کا شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ بعض ممالک میں مذہب کی قید بھی عائد کی جاتی تھی۔ انیسویں صدی میں آفاقی حق رائے دہی کے سلسلے میں تحریکیں چلائی گئیں، اُسی صدی کے آخر میں آزاد خیالوں اور سماجی جمہوریت پسندوں نے خاص طور پر شمالی یورپ میں ایکا کر لیا، مساوی و عمومی حق رائے دہی کا نعرہ بلند کیا اور ووٹ ڈالنے کے لیے جائداد کا مالک ہونے کی پابندی ختم کرنے پر زور دیا جب کہ بیسویں صدی میں یہ حق عورتوں کو بھی دینے کے لیے جدوجہد کی گئی۔

بعض ایسے ممالک بھی تھے جہاں ووٹ کا حق دیا تو گیا لیکن اس میں نسلی قدغنیں برقرار رکھی گئیں، جیسے جنوبی افریقہ میں ووٹ ڈالنے کا حق صرف گوروں کے پاس تھا جو 1994 میں عظیم رہ نما نیلسن منڈیلا اور ان کی پارٹی کی جدوجہد کے نتیجے میں ختم ہوا۔

تاریخی طور پر خواتین کا حق رائے دہی تسلیم کرنے والا پہلا ملک یوں تو نیوزی لینڈ ہی کو قرار دیا جاتا ہے لیکن اس سے پہلے 1755 میں کورسیکا (ایک فرانسیسی جزیرہ) میں خواتین کو یہ حق دے دیا گیا تھا البتہ صرف ڈیڑھ دہائی بعد (1769) میں واپس لے لیا گیا۔ امریکا میں عورتوں کا یہ حق نیو جرسی میں 1776 میں تسلیم کیا گیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہاں اس سے قبل ’’باشندہ‘‘ صرف مرد ہی کہلاتا تھا۔ 1861 کے دوسرے نصف میں جنوبی آسٹریلیا نے بھی عورتوں کو ووٹنگ کا حق دے دیا اور اس کے بعد متعدد ملکوں نے اسے اپنایا۔ نیوزی لینڈ کے 1893 کے عام انتخابات سے چند ہفتے پہلے عورتوں کا یہ حق تسلیم کرکے ان سے ووٹ ڈلوائے گئے جب کہ جنوبی آسٹریلیا میں 1894 میں صرف ووٹ ہی نہیں، انتخابات لڑنے کی بھی اجازت دے دی گئی۔

پرتگال کا کیس اس حوالے سے دل چسپ ہے کہ وہاں 1911 میں کیرولینا بیتریز اینجیلو پہلی اور واحد خاتون تھی جسے اس سال ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ یہ خاتون حقوقِ نسواں کی علم بردار تھی اور اس نے اس عہد میں خواتین کی ایک انجمن بھی ’’ایسوسی شیا جائودی پروپاگاندافے می نستا‘‘ کے نام سے بنائی تھی۔

ترکی میں خواتین کو سٹی کونسلوں کے انتخابات میں ووٹ دینے کا حق فرانس، اٹلی اور سوئزر لینڈ جیسے ملکوں سے بہت پہلے 1930 ہی میں دے دیا گیا تھا بل کہ 1934 میں انھیں انتخاب لڑنے کا حق بھی دے دیا گیا۔

بچوں کا ووٹنگ کا حق (Demeny voting)
2007 میں وارن سی سینڈرس نے بچوں کو بھی حق رائے دہی دینے کی وکالت کی۔ اس اصول کے تحت والدین کو اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے پراکسی ووٹ (Proxy vote) دینے کا ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے لیکن وہ بچوں کو مجبور نہیں کر سکیں گے کہ وہ کسی خاص پارٹی کو ووٹ ڈالیں۔ سینڈرس نے اس کا نام معروف ڈیموگرافر پال ڈیمنی کے نام سے منسوب کیا جس نے یہ تصور 1986 میں پیش کیا تھا۔ ڈیمنی چاہتا تھا کہ سیاسی نظام کو مضبوط کرنے کی تربیت بالغ ہونے سے پہلے ہی دی جانی چاہیے۔

وہ چوں کہ ڈیموگرافر بھی تھی لہٰذا اس کی نظر میں ایسے ممالک تھے جہاں بچوں کی شرحِ پیدائش کم ہے تاہم تاریخی حوالے سے یہ صحیح نہیں کہ یہ تصور سب سے پہلے ڈیمنی نے دیا ان سے بہت پہلے یہ تصور فرانس میں 1920 کی دہائی میں سامنے آیا تھا اور وہاں کی قومی اسمبلی نے اسے منظور بھی کر لیا تھا جب کہ جرمنی میں 1910 میں یہ تصور زیرِبحث رہا۔ یہ تصور ابھی عملی صورت اختیار نہیں کرپایا البتہ 1970 اور 1980 کی دہائیوں میں قانون دانوں اور سیاسی سائنس کے ماہرین اس پر بحث مباحثہ کرتے رہے۔

جرمن پارلیمان میں پہلے 2003 اور پھر 2008 میں اس پر ووٹنگ بھی ہوئی تاہم ارکان نے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔ جاپان میں بوڑھوں کی تعداد غالباً دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے لہٰذا وہاں بھی اس تصور پر تحقیق و بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ ہنگری کی مخلوط مقتدرہ بھی اس سلسلے کی حمایت کرتی ہے تاہم ابھی کوئی واضح فیصلہ نہیں ہو پایا۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کا کنونشن برائے حقوقِ اطفال، بچوں کو شہری اور سیاسی حقوق دینے پر زور دیتا ہے۔ اس حوالے سے جاپانیوں کا استدلال یہ ہے کہ بچوں کوووٹ کا حق دینے سے ’’بزرگوں کے راج‘‘ (Gerontocracy) کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ ایک اور دل چسپ استدلال یہ ہے کہ بڑی عمروں کے لوگوں کی منتخب حکومتیں یا وہ خود قرضے لے لیتے ہیں جو اگلی نسلوں کو ادا کرنے پڑتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔