احتجاجی سیاست اور قیادت کی آزمائش

ایڈیٹوریل  جمعرات 18 جنوری 2018
سیاسی عدم استحکام سے ملکی معیشت، سلامتی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہوگا۔ فوٹو: فائل

سیاسی عدم استحکام سے ملکی معیشت، سلامتی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہوگا۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں اس وقت سیاسی صورتحال روز ایک نیا موڑ اختیارکررہی ہے، نئے الیکشن ہونے میں گو چار، پانچ ماہ کا قلیل عرصہ باقی ہے، لیکن گرمی بازار سیاست دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ ملک بھر میں جلسے ،جلوس، دھواں دھار تقریریں ، الزامات اور جوابی الزامات، دھرنے، احتجاج ، سیاسی ملاقاتیں،نئے اتحادوں کی تشکیل اور متحدہ اپوزیشن کے قیام کی کوششیں بھی جاری ہیں ۔ لاہور میں مال روڈ پر پاکستان عوامی تحریک ’سانحہ ماڈل ٹاؤن‘ کے شہدا کے حوالے سے دھرنا دے رہی ہے۔

اس مرتبہ انھیں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا تعاون بھی حاصل ہے۔دوسری جانب پنجاب حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ دھرنا،احتجاج سازش ہے کوئی جواز نہیں بنتا ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ اگرکسی نے احتجاج کرنا ہے توکرے لیکن قومیں دھرنوں سے نہیں ڈرتیں۔ناجائز دھرنے دینے والوں کو شرم آنی چاہیے۔ یقیناً جمہوریت کا حسن اختلاف رائے ہی میں ہے،کوئی مسئلہ حل نہ ہو پا رہا ہو، تو اس پر احتجاج کرنے کا حق بھی متاثرہ فریق کو حاصل ہوتا ہے۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ متحدہ اپوزیشن کے احتجاج سے تاجر، اسکول کے طلبہ اورعوام سب متاثر ہونگے،احتجاج اوردھرنوں کی وجہ سے عوامی املاک کو نقصان پہنچانے سے گریزکرنا چاہیے،عدالتیں آزاد ہیں بعض قانونی معاملات تو عدالتوں میں بآسانی حل کیے جاسکتے ہیں، چہ جائیکہ انھیں سیاسی طور پر حل کیا جائے۔

دوسری جانب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بغیر قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا ممکن نہیں، سینیٹ انتخابات کوکوئی خطرہ نہیں، یہ انتخابات وقت پر 15 جولائی کو ہونگے، تمام سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ جمہوری نظام چلتا رہے، میں ہی وزیراعظم ہوں اور اختیارات میرے پاس ہی ہیں، سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، یہ کسی کو نہیں معلوم۔ یہی وجہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر افواہوں کا بازار بھی گرم ہے،ایک عام  ووٹر غیریقینی صورتحال اورذہنی خلفشار کا شکار ہے۔

انتخابات سے قبل تین سال کے لیے ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں ۔ متحدہ اپوزیشن کا احتجاج کیا رنگ لاتا ہے، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا ۔ حکومت مدت پوری کرتی ہے یا نہیں، سینیٹ کے الیکشن ہوتے ہیں یا نہیں یہ سب سوالات تشنہ جواب ہیں جو جنم لے رہے ہیں افواہوں کی صورت میں اور افواہیں کب حقیقت کا روپ دھار لیں اس کا کچھ پتا نہیں۔ جمہوریت ایک تسلسل کا نام ہے،اگر سیاست دان نادانستگی میں یا جانتے بوجھتے کوئی ایسا عمل کر بیٹھتے ہیں جس سے حکومت کو اپنی مدت مکمل کرنے سے چند ماہ قبل گھر بھیج دیا جائے، تو یہ جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں سمجھا جائے گا۔

پانچ سالہ مدت پوری ہونے کے بعد الیکشن ہوتے ہیں تو یہ ایک مثبت اور خوش آیند قدم ہوگا، تمام سیاسی جماعتیں بشمول موجودہ حکومتی جماعت عوام کی بڑی عدالت میں جائیں گی اور جو عوام کی عدالت میں سرخرو ہوگا اسی جماعت کے سر پر حکمرانی کا تاج پہنایا جائے گا ۔ اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو تھوڑا صبرکرنا چاہیے، کیونکہ سیاسی عدم استحکام سے ملکی معیشت ، سلامتی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ لاحق ہوگا کیونکہ عالمی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی صدر کے تازہ ترین بیانات کی روشنی میں پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔

’’ڈومور‘‘ کی گردان اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا پروپیگنڈا زورشور سے جاری ہے ، بھارتی آرمی چیف کی واضح دھمکیوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ وقت انتہائی نازک ہے ، سیاسی قیادت کو ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے صورتحال کی نزاکت بھی سمجھنا چاہیے ، یہی ان کی فہم وفراست اور لیڈرشپ کا امتحان ہے جس پر وہ یقیناً پورا اتریں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔