17 جنوری کی تحریک کا مقصد

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 18 جنوری 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

اے پی سی کے اجلاس میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر اتفاق ہوا تھا۔ اس کے تناظر میں طاہر القادری نے 17 جنوری سے تحریک کے آغاز کا اعلان کیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی اس تحریک میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے کا اعلان کیا ۔

اے پی سی میں ویسے تو 40 پارٹیوں کی شرکت کا اعلان کیا گیا تھا لیکن جو پارٹیاں تحریک میں بامعنی طور پر شرکت کرسکتی ہیں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے اور ان میں بھی نظریاتی یکجہتی نہ ہو تو تحریک کا مستقبل مشکوک ہوسکتا ہے۔

عوامی تحریک کے رہنما طاہر القادری منہاج القرآن کے سربراہ ہیں، منہاج القرآن ایک دینی اور انتہائی منظم جماعت ہے، 2014ء کی اسلام آباد دھرنا تحریک میں منہاج القرآن کے کارکنوں نے جن میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی جس پامردی ڈسپلن اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال نہیں مل سکتی۔

تحریک انصاف نے بھی اس دھرنا تحریک میں بھرپور حصہ لیا لیکن منصوبہ بندی کی خامیوں اور تیاری کی کمزوریوں کی وجہ سے یہ تحریک ناکام ہوگئی۔ اس تحریک کے دوران نام نہاد جمہوریت کی حامی جماعتوں نے پارلیمنٹ میں دھرنا تحریک کے خلاف مورچہ لگایا یوں سیاسی طاقت تقسیم ہوکر دھرنا تحریک کی پیٹ میں چھرا گھونپا۔

اس تحریک میں وہ جماعتیں بھی شامل ہیں جو 2014 میں حکومت کی بالواسطہ حمایت کرتی رہیں اور اس بار حکومت کی حمایت میں کوئی قابل ذکر سیاسی یا مذہبی جماعت نظر نہیں آئی۔ 17 جنوری سے ممکنہ طور پر شروع ہونے والی تحریک میں ایسی جماعتیں بھی شامل ہیں جو اس تحریک میں ایک حد سے آگے جانے کے لیے تیار نہیں ان میں پیپلزپارٹی بھی شامل ہے۔

اس حوالے سے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ تحریک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قصاص تک محدود ہوگی یا حکومت کا خاتمہ کرنا اس کا ہدف ہوگا، اگر حکومت کے خاتمے تک یہ تحریک جاری رہے گی تو کیا اس تحریک کا مقصد چہروں کی تبدیلی تک محدود ہوگا یا اس پورے کرپٹ سسٹم کی تبدیلی اس کا اولین مقصد ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کو یہ بتانا بھی ضروری ہوگا کہ تحریک میں شامل جماعتیں موجودہ حکومت کو کیوں ہٹانا چاہتی ہیں۔

موجودہ حکومت کو ہٹانے کی جب تک معقول اور مدلل وجوہات عوام کے سامنے پیش نہیں کی جائے گی عوام پورے عزم کے ساتھ اس تحریک میں شامل نہیں ہوںگے۔ یہ تفصیلات اگر تحریک کے آغاز سے قبل عوام کی خدمت میں پیش کردی جائیں تو اس کا ایک مثبت اثر تحریک پر پڑسکتا تھا، لیکن اب بھی عوام کے سامنے وہ تمام حقائق پیش کیے جائیں جن کا ہم نے اوپر ذکرکیا ہے تو عوام ذہنی تیاری کے ساتھ تحریک میں شامل ہوسکتے ہیں۔

بات صرف موجودہ حکومت کی نہیں بلکہ 70 سال سے اس ملک میں جو حکومتیں برسر اقتدار رہیں ان کا تعلق عوام سے ہمیشہ رسمی ہی رہا عوام کے مسائل حل کرنا ان حکمران جماعتوں کے منشور کا حصہ ہی نہیں رہا کیونکہ یہ حکمران جماعتیں اشرافیہ کی نمایندہ تھیں اور اشرافیہ کے مفادات کی نگہبان ہی رہی تھیں موجودہ حکومت ان ہی اشرافیائی حکمرانیوں کا تسلسل ہے۔

اگرکوئی تحریک عوام دوست جماعتوں کی طرف سے چلائی جاتی ہے تو ایسی جماعتیں تحریک کے آغاز سے قبل ہی عوام کو یہ بتادیتی ہیں کہ اگر وہ برسر اقتدارآگئیں تو وہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام میں کیا کیا اور کس قسم کی مثبت تبدیلیاں لائیںگی۔ اس قسم کی ممکنہ مثبت تبدیلیوں سے پہلے موجودہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام کا مطالبہ ضروری ہے یہ کام بہت طویل ہے، اس لیے اس کالم میں اس کا احاطہ ممکن نہیں، البتہ اس کے چیدہ چیدہ اہم پہلوؤں کا مختصر احاطہ کیا جاسکتا ہے تاکہ اس کے بہتر متبادل کی تصویر واضح ہوسکے۔

ہمارا سیاسی نظام اور جمہوریت ہمیشہ اشرافیائی رہی ہے اس میں عوام کی شمولیت کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں رہا اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ ہمارا جمہوری نظام مکمل طور پر بادشاہی نظام میں بدل چکا ہے۔ سیاست  اور اقتدار پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے اور انتہائی بے شرمی کے ساتھ جمہوریت کے نام پر ولی عہدی نظام عوام کے سروں پر مسلط کیا جا رہا ہے۔

ہمارا سماجی نظام ابھی تک نیم قبائلی، نیم جاگیردارانہ، نیم سرمایہ دارانہ ہے، اس کھچڑی نظام کی وجہ سے ہماری سماجی زندگی ابتری کا شکار ہے۔ ہمارا اقتصادی نظام بھی نیم جاگیردارانہ، نیم سرمایہ دارانہ ہے جس کی وجہ سے ہمارا ملک اقتصادی حوالے سے یکسوئی کے ساتھ پیش رفت نہیں کر پا رہا ہے۔ ہمارے اکابرین نے نظریاتی حوالے سے مستقبل کے لیے کوئی واضح راہ کا تعین نہیں کیا بلکہ تقسیم ہندکی ادھوری تاویلوں کو ملک کی نظریاتی اساس بنانے کی کوشش کی جس کا نتیجہ ایک شدید نظریاتی انتشار کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔

17 جنوری 2018 سے شروع کرنے والی تحریک کے قائدین کو مستقبل کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام کے بارے میں ایک واضح نقشہ عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ یہ تحریک چہروں کی تبدیلی کی روایتی تحریک بن کر نہ رہ جائے۔ اس حوالے سے تحریک کے قائدین کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ ہمارا نظام تعلیم 70 سالہ فرسودہ نظام تعلیم نہیں ہوگا، تعلیم لازمی اور مفت ہوگی جس کی بنیاد جدید علوم سائنس ٹیکنالوجی اور تحقیق پر رکھی جائے گی۔ علاج ہر سطح پر مفت ہوگا اور تعلیم کی طرح صحت کا شعبہ طبقاتی بنیادوں پر استوار نہیں ہوگا۔

ہمارا سماجی نظام ترقی پسندانہ ہوگا۔ قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے تعلیم کی ترقی کا مثبت راستہ اختیار کیا جائے گا۔ ہمارا اقتصادی نظام غیر طبقاتی اور صلاحیتوں کے مطابق ترقی اور معیار زندگی پر استوار ہوگا۔ ہم نے یہاں صرف سماجی سیاسی اور اقتصادی نظام کا ایک خاکہ پیش کیا ہے۔ تحریک چلانے والوں کو اس حوالے سے عوام کے سامنے ایک مربوط نظام پیش کرنا چاہیے۔

اگر ایک جامع سیاسی، سماجی اور اقتصادی پروگرام کے بغیر تحریک چلائی گئی تو یہ تحریک چہروں کی تبدیلی تک محدود ہوکر رہ جائے گی اور موجودہ بد عنوان کہلائے جانے والے نظام کو تبدیل کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ 1968 اور 1977 میں ہمارے محترم سیاست دانوں نے جو بڑی تحریکیں ہوئی تھیں وہ چہروں کی تبدیلی کی تحریکیں اس لیے بن گئی تھیں کہ تحریک چلانے والوں نے تحریک کے مقاصد کا واضح تعین نہیں کیا تھا، اگر یہی غلطی دہرائی گئی تو نتیجہ بھی 1968، 1977 سے مختلف نہیں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔