نظریات کا تنازعہ، کون جیتے گا؟

مزمل سہروردی  جمعرات 18 جنوری 2018
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان میں جمہوریت نہیں ہے۔ جمہوریت کی علمبردار اور ملک میں جمہوریت کے لیے کوشاں سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اندر کی آمریت نے کہیں نہ کہیں ملک میں آمریت کے لیے بھی راہ ہموار کی ہے۔

سیاسی جماعتوں کے اندر کی آمریت ان کی اچھی کوشش کو بھی برا بنا دیتی ہے۔ لیکن سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی۔ شخصی اور خاندانی آمریت کا شکار سیاسی جماعتیں اسی ایک وجہ سے اسٹبلشمنٹ سے ہار جاتی ہیں۔ فرد واحد کے مفادات کا تحفظ جمہوریت کے لیے کوششوں کو بھی گندا کر دیتی ہیں۔ یہ سوچ ہی غیر جمہوری ہے کہ سیاسی جماعت کا ووٹ بینک سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ کسی فرد واحد کی ملکیت ہے۔ فقط اسی ایک سوچ کی وجہ سے نظریاتی سیاست کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے۔

سیاسی جماعتوں کے اندر موجود آمریت کی وجہ سے سیاسی جماعتوں میں کوئی نظام اور کوئی سسٹم موجود نہیں ہے۔ مشاورت اور ٹکٹوں کی تقسیم کا کوئی فورم نہیں۔ کارکنان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں۔قیادت سے اختلاف بغاوت کے زمرے میں آتا ہے جس کے بعد پارٹی میں بقا ناممکن ہے۔ اگر پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنے اندر آمریت ختم کرکے جمہوریت قائم کر لیں۔ فیصلوں کا اختیار فرد واحد سے ختم ہو جائے تو  مضبوط سے مضبوط اسٹبلشمنٹ بھی پاکستان میں جمہوریت کا بستر گول نہیں کر سکے گی۔ جمہوریت کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی کسی کو جرات نہیں ہو گی۔

آج کل مسلم لیگ (ن) میں سنیٹر پرویز رشید اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان اختلاف اس بات کی عمدہ مثال ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں ہے۔ دونوں رہنماؤں کا اختلاف نظریاتی ہے۔ ایک طرف چوہدری نثار علی خان اسٹبلشمنٹ کے حمایتی ہیں دوسری طرف پرویز رشید اینٹی اسٹبلشمنٹ ہیں۔ یہ سوچ اور نظریہ کا اختلاف ہے۔ چوہدری نثار علی خان نواز شریف کی مزاحتمی سیاست کے خلاف ہیں۔ ان کے خیال میں مسلم لیگ (ن) کو اداروں کے خلاف مزاحمتی سیاست نہیں کرنی چاہیے۔

دوسری طرف پرویز رشید کا موقف ہے کہ اداروں نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو غلط نا اہل کیا ہے۔ ہمیں اپنے ووٹر کو سمجھانا ہو گا کہ ہمارے ساتھ اداروں نے زیادتی کی ہے۔ اس لیے مزاحمت تو کرنی ہو گی ورنہ مسلم لیگ (ن) اپنی بقا اور ووٹ بینک کھو دے گی۔ سوچ اور نظریہ کے اس اختلاف کو طے کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) میں کوئی پلیٹ فارم نہیں ہے اس لیے تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے۔

اختلاف رائے میںریڈ لائن کو عبور نہیں کرنا چاہیے۔  پارٹی کے اندر بات کرنے کے بجائے میڈیا میں بات کرنی شروع کر دی گئی ہے۔ چوہدری صاحب اختلاف کو میڈیا میں لے آئے ہیں۔ اس لیے یہ تاثر پیدا ہوا کہ ایسا کرنا پارٹی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

دوسری طرف پرویز رشید جوبات کہہ رہے ہیں یہ ان کی سوچ نئی نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی اس سوچ کے لیے زندگی میں بہت بڑی قیمتیں ادا کی ہیں ۔ لیکن انھوں نے اپنی سوچ نہیں بدلی۔ وہ آج اینٹی اسٹبلشمنٹ نہیں ہیں۔ وہ ہمیشہ سے اینٹی اسٹبلشمنٹ ہیں۔ ان کی سوچ کو ان کی پارٹی کے اندر بھی انقلابی کہا جاتا رہا ہے۔ وہ کبھی اسٹبلشمنٹ کے پسندیدہ نہیں رہے ہیں۔ وہ بارہ اکتوبر 1999کو بھی اسٹبلشمنٹ کے خلاف تھے۔ وہ ضیاء الحق کے مارشل لا کے وقت بھی اسٹبلشمنٹ کے خلاف تھے۔ وہ آج بھی اسٹبلشمنٹ کے خلاف ہیں۔ انھوں نے کبھی کسی دور میں بھی اسٹبلشمنٹ سے کوئی فائدہ نہیں لیا ہے۔ وہ ضیاالحق کے دور میں گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے لیکن انھوں نے اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت نہیں کی۔ بارہ اکتوبر کے موقع پر بھی ان سے زیادتی ہوئی لیکن انھوں نے مفاہمت نہیں کی۔ اس لیے ان کے جو نظریات آج ہیں وہ نئے نہیں ہیں۔ انھوں نے اپنے نظریات پر ثابت قدمی بھی دکھائی ہے اور اس کی ایک قیمت بھی ادا کی ہے۔ جو کم نہیں ہے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر پرویز رشید اتنے ہی انقلابی ہیں تو وہ ن لیگ میں تب کیوں رہے جب ن لیگ اسٹبلشمنٹ سے تعاون کر رہی تھی۔ اس کا ایک سادہ جواب تو یہ ہے کہ پرویز رشید کی ثابت قدمی نے آج نواز شریف کو بھی اینٹی اسٹبلشمنٹ کر دیاہے۔ وہ اپنی بات کرتے رہے اور آج ایک دن ان کی بات مانی گئی ہے۔ کئی سال تک ن لیگ نے پرویز رشید کی بات نہیں مانی اور اسٹبلشمنٹ سے تعاون کیا گیا۔

جواب میں پرویز رشید نے بغاوت نہیں کی۔ پارٹی کے خلاف انٹرویو نہیں دئے۔ پارٹی کے اندر اختلاف کیا۔ کل جب نواز شریف چوہدری نثار علی خان کی مان رہے تھے تو ٹھیک تھا، آج نہیں مان رہے تو غلط۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا۔ دونوں کے اختلاف کی کہانی زبان زد عام ہو گئی ہے۔ ایسے کیسے چلے گا۔ کیا نواز شریف خاموش رہیں گے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ نواز شریف کس کے ساتھ ہیں۔ کس کو نواز شریف کا آشیر باد حاصل ہے۔ نواز شریف پرویز رشید کے ساتھ ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ شہباز شریف کہاں کھڑے ہیں۔ ان کی چوہدری نثار علی خان سے دوستی اور ہمدردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ لیکن وہ خاموش ہیں۔ ان کی خاموشی سے سوال پیدا ہو رہا ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔

ایک بات تو طے ہے کہ وہ کھلے عام چوہدری نثار علی خان کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کی پرویز رشید سے دوستی بھی کم نہیں ہے۔لیکن وہ کدھر ہیں۔ ویسے تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی درمیان میں کھڑے ہیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے جہاں چوہدری نثار علی خان سے تعلق مانا ہے وہاں پرویز رشید سے دوستی سے بھی انکار نہیں کیا ہے۔ جس سے لگ رہا ہے کہ دونوں کی لڑائی نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو ایک مشکل میں بھی پھنسا دیا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان یہ پہلی دفعہ ناراض نہیں ہوئے ہیں۔ بلکہ پرویز رشید کے مطابق پارٹی قیادت ان کی روز روز کی ناراضگی سے تنگ آچکی ہے۔ اب طے ہو گیا ہے کہ اب انھیں منایا نہیںجائے گا۔ کافی دفعہ منایا جا چکا ہے۔ ہماری بھی بات نہیں مانی جاتی ہم تو ناراض نہیں ہوتے۔بات نہ مانے جانا بھی جمہوریت ہے اور اس پرناراض ہو جانا غیر جمہوری ہے۔ مریم نواز بھی ن لیگ میں ایک نیا فیکٹر ہیں۔

خبر تو یہی ہے کہ مریم نواز کی ہمدردیاں مکمل طور پر پرویز رشید کے ساتھ ہیں۔ ن لیگ کی ایک بڑی لابی پہلے ہی چوہدری نثار علی خان کے خلاف ہے۔ ان کی ہمدردیاں بھی پرویز رشید کے ساتھ ہیں۔ ان کے مطابق تو پرویز رشید نے بگل بجا دیا ہے۔

وفاقی وزیر رانا تنویر چوہدری نثار علی خان کے حمایتی رہے ہیں ۔ ماضی میں جب پیپلزپارٹی نے چوہدری نثار علی خان کو ٹارگٹ کیا تھا تو وہ چوہدری نثار علی خان کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے لیکن اب وہ بھی خاموش ہیں۔ شائد وہ بھی ہوا کا رخ سمجھ گئے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے چوہدری نثار علی خان کی واپسی کی بہت کوشش کی ہے۔ نواز شریف کی پہلی دفعہ لندن سے واپسی کے بعد خواجہ سعد رفیق نے ان کی واپسی کی کوشش کی لیکن وہ بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ شائد اب وہ بھی پرویز رشید کے ساتھ ہیں۔ ان کی خاموشی تو یہی بتا رہی ہے۔

کیا چوہدری نثار علی خان کو اگلے انتخابات میں ن لیگ کا ٹکٹ مل جائے گا۔یہ سوال ہی ساری صورتحال بیان کر رہا ہے۔ کہاں چوہدری نثار علی خان خود ٹکٹوں کی تقسیم کرتے تھے ۔ کہاں ان کی اپنی ٹکٹ خطرہ میں ہے۔ کہاں لوگ ان سے ٹکٹ مانگتے تھے۔ کہاں یہ سوال ہے کہ کیا وہ شیر کے بغیر جیت سکتے ہیں۔ وہ بھی ن لیگ میں اب جاوید ہاشمی بنتے جا رہے ہیں۔ یہی سیاست ہے۔ یہی اس کا حسن ہے۔ باقی سب کہانی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔