اہم گزارش

کشور زہرا  جمعرات 18 جنوری 2018

ریاست کے معاشرتی نظام کے توازن کو برقرار رکھنے والے ترازوکا کانٹا اسی ملک کا بنایا ہوا قانون ہوتا ہے، جو اس میں بسنے والوں کوانصاف فر اہم کرتا ہے اور ملنے والے حقوق کی فراہمی جو قانون کے اطلا ق یا نفاذکی مرہون منت ہوتی ہے جب کہ انصاف کا حصول ہر خاص وعام شہری کا بنیادی حق ہے جس میں کسی بھی قسم کی کمی بیشی عدم توازن کا سبب بن جاتی ہے۔

ملک کی مو جودہ صورتحال جس عدم توازن کا شکار ہے وہ کسی وضاحت کی طلبگار نہیں، اس مملکت خدا داد کے پلڑے میں حکومت بھی ہے، ریاست بھی، ادار ے بھی اور قانون بھی، لیکن قانون جو ان پلڑوں کو متوازی ر کھتا ہے، اس کے نفاذ اوراطلاق کا شدید فقدان ہے۔

حالات اجتہاد کے متقاضی ہیں۔ قانون میں ’اجتہاد ‘کی گنجا ئش بھی ہے لیکن ذہنوں میں لچک نہیں جس کی وجہ سے صورتحال بے ہنگم شکل اختیارکرچکی ہے جنھیں منصفی کی ذمے داری ملی وہ اسپتالوں کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے ان کے دوروں پر مجبور، جن کی ذمے داری سرحدوں کی حفاظت وہ ملک کی سالمیت جیسے فریضے کے ساتھ ساتھ غلط حکمت عملی سے پیدا ہوجانے والے اندرونی خلفشارکو سمیٹتے نظرآرہے ہیں اورجن کی ذمے داری قانون سازی ہے وہ قانون کی کتابوں میں ان دفعات کی تلاش میں سرگرداں ہیںجو بحران کے لیے نسخہ کیمیاء ثابت ہوسکیں اورنہ ہوسکیں تو ترمیمات کے ذریعے حقوق سے محروم شہریو ں کے لیے بہتری کا کوئی راستہ نکال سکیں، لیکن یہ سب کچھ کیسے ممکن ہے؟

جب سوچ اور فکر میں لچک نہیں تو پھریہ بیل کیسے منڈھے چڑھے۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ بیل منڈھے چڑھے یا نہ بھی چڑھے لوگ فیضیاب نہ بھی ہوسکیں لیکن انھیں یہ بات معلوم ضرور ہوکہ ان سے ووٹ لے کر جانے والے ان کی بہتر ی کے لیے کوشاں ہیں، بیشک گڑ نہ کھا سکیں پرگڑکی اس ڈلی کودیکھ تو سکیں۔

میں اب یہ کہنے پر بھی مجبور ہوں کہ قانون سازی کا اطلاق اگر لاحاصل ہو تو پھر اس میں وہ عمل جس کی مذہب میں ہدایت بھی کی ہے اور اجازت بھی دی ہے جسے اجتہادکہتے ہیں تو پھر اس کا دامن پکڑکرضروری ترمیمات کو انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔

معاشر ے کی درستگی کے لیے اہم ترین بات یہ ہے کہ انسانوں کو ان کا بنیادی اورجائزحق انصا ف کی صورت میں ان کی دہلیز پہ مل جائے اور اسی سوچ کو مدنظر ر کھتے ہوئے گزشتہ کئی برسوں سے ترمیمات کی کوششں کی جاتی رہی ہیں جو آج کی گھڑی تک بے سود نظرآرہی ہے۔ جب کہ موجودہ پارلیمنٹ اپنی جمہوری و آئینی مدت کی تکمیل کے آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جہاں تک اس کی قانون سازی کا تعلق ہے تواب تک پہلے پارلیمارنی سال سے آخری پانچویں پارلیمارنی سال یعنی 27 جون 2013ء سے 12  جنوری 2018ء تک صرف 147 بل و ترمیمات برائے قانون قومی اسمبلی نے پاس کیے ہیں جن میں سادہ اکثریت سے پاس ہونے والے بلوں کی تعداد زیادہ ہے جب کہ پرائیوٹ ممبرز ڈے پر اسمبلی میں پہلے پارلیمارنی سال سے آخری پارلیمارنی سال یعنی 21 نومبر 2017ء تک 182 نجی حیثیت میں ممبران نے بل پیش کیے ہیں جس میں میرے بل اور ترمیمات بھی شامل ہیں۔

اب چند گزارشات آئینی ترمیمی بل اور اعلیٰ عدالتوں کے علاقائی بینچ کی توسیع کے حوالے سے اپنا نکتہ نظر بحیثیت ایک ر کن قو می اسمبلی پیش کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔ میری جما عت نے عوام کی رہنمائی اور پارلیمان میں قانون سازی کے لیے جوذمے داری مجھے دی اس تناظر میں گزشتہ چند سال سے ملک کے چاروں صوبوں میں جانے اور عوام کے بنیادی مسائل لوگوں کی زبانی جاننے کا موقع ملا۔ عام طور پر تو لوگ مہنگائی، صحت، تعلیم، پانی، بجلی،گیس، سڑکو ں نادرا اور بیروزگاری کے مسائل وغیرہ پر اپنی شکایت کرتے ہوئے پائے گئے، جب کہ ان کے برعکس ایسے افراد کی گزارشا ت بھی سامنے آئیں جو تعلیم یافتہ تھے۔

جن میں ڈاکٹر، وکیل، انجینئیر، کاروباری حضرات اور ماہرین تعلیم کے علاوہ سماجی طور پرکام کرنے والے افراد بھی شامل تھے اور ایک بڑی تعداد عوام کی ایسی بھی تھی جو براہ راست انصاف کے لیے اعلیٰ عدالتو ں سے رابطہ رکھے ہوئے تھی۔ لہذا ان کی شکایت یا گزارشات روزمرہ معمول کے بنیادی مسائل سے بالکل علیحدہ ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ صوبوں میں اعلیٰ عدلیہ یعنی ہائی کورٹ تو صوبے کے دا رالحکومت میں ہوتی ہے جب کہ ان کی بینچ کسی کسی ڈسٹرکٹ میں رکھی گئی ہیں، جب کہ دور دراز علا قوں کے رہنے والے مقدمات کے لیے سیکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے و ہاں پہنچتے ہیں، مقدمات کے اخراجات کے ساتھ لوگوں کوکرائے کی مد میں اوردیگر خرچے بھی اٹھانا پڑتے ہیں، دور ہونے کی وجہ سے ساتھ جانیوالوں کو اپنے روزگار سے چھٹی بھی کرنا پڑتی ہے اور ایک سے زیادہ لوگ جو یقینا ہمدرد ہی ہوتے ہیں وہ بھی رہنمائی یا ضرورت کے لیے ہمراہ جاتے ہیں خاص طور پر بوڑھے یا بیمار افراد یا کوئی خاتون اگر ہو تو ان کے ساتھ سفر کے لیے کوئی نہ کوئی ضرور ساتھ ہوتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ اگر مقدمہ نہ چلے تو وہ تاریخ ضایع ہو جاتی ہے جس کا نقصان سراسر سائلین کو ہوتا ہے۔

اسی پس منظرکو سامنے رکھتے ہوئے میں نے آئین کے آرٹیکل 198 کی ذیلی شق (3  ) میں ایک اضافی ترمیم قومی اسمبلی کے ایوان میں پیش کی جس کی رو سے عدالت عالیہ لاہور، عدالت عالیہ سندھ، عدالت عالیہ پشاور اورعدالت عالیہ بلوچستان کے بینچ صوبے کی ہر ڈویژن کے ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں ہوں گے۔ یہ بینچ صوبائی حکومت کی جانب سے متعلقہ عدالت عالیہ کے چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت سے قائم کردہ بینچو ں کے علاوہ ہوں گے، جیسا کہ علاقے کی آبادی اوردیگرعوامل کو مدنظر  رکھتے ہوئے وقتا فوقتا صوبائی حکومت مناسب سمجھے۔‘‘

بل کی اس ترمیم کے لیے زیادہ بہتر تو یہ ہی تھا کہ اسے پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا جاتا اور اس کے بعد بحث ہوتی تاکہ دیگر ارا کین کا نکتہ نظر بھی سامنے آتا جاتا یا اورکوئی تجویزآجاتی لیکن سابقہ وزیرقانو ن نے روایتی طریقہ کار اپناتے ہوئے بل کی اس اصلاحاتی ترمیم کو صرف اس لیے ردکردیاکہ یہ حزب اختلا ف کے رکن کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔ وزیر موصوف یہ با ت اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے کہ انصاف وقت اور دہلیز پہ نہ ملنے کے سبب معاشر ے میں کس قدرگمبھیر پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں اور اصلاحات چنانچہ ناگزیرہو چکی ہیں۔

وہ یہ بات بھی جانتے تھے کہ انصاف کے تقاضوں سے بہتر طورپر نبرد آزما ہونا ہر جمہوری حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے جیسا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستورکے آرٹیکل میں قرار دیا گیا ہے کہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو ایک دوسر ے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا اور قانون کی حکمرانی کو صرف اس وقت یقینی بنایا جا سکتا ہے جب مشکلات کے بغیرگھرکی دہلیز پر انصاف کی فراہمی ممکن ہو۔ 1973 ء میں اسلامی جمہوریہ پا کستان کے دستور کی منظوری اور نفاذ کے بعد، دستور (اٹھارویں ترمیم 2010  (ایکٹ نمبر 10 بابت 2010ء) کے ذریعے عدالت عالیہ پشاور، عدالت عالیہ بلوچستان منگورہ اور تربت کے مقامات پر صرف 2  بینچوں کا اضافہ کیا گیا۔

تاہم سال1973 ء سے صوبہ سندھ اور پنجاب کی آبادی میں کئی گنا اضافہ واقع ہوا ہے جب کہ دونوں صوبو ں بالخصوص پنجاب کے مختلف حصوں سے عدالت عالیہ کی نئی بینچوں کے قیام کے مطالبات بھی سامنے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ وکلاء برادری نے مختلف شہروں اور ڈویژنل ہیڈکوارٹر میں عدالت عالیہ کے بینچوں کے قیام کے لیے احتجاج بھی کیا ہے اور ہر ایک سیاسی جماعت نے اپنے انتخابی منشور میں عدل وانصاف تک بہتر رسائی اور جلد دینے کے وعدے کیے ہیں مگر معمول کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ میں منتخب ہوکر آنے والی جماعتوں کی اکثریت نے ایسے اقدامات سے بہترطور پر نبرد آزما ہونے کے ضمن میں کوئی قد م نہیں اٹھایا۔

مختلف محکموں کی الگ الگ عدالتیں موجود ہیں جوکام بھی کررہی ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اگرکسی فرد یا ادارے کے ساتھ کوئی نا انصافی ہوجائے تو اس کو بھی معمول کی عدالتوں میں معاوضے کی طلبی یا اپنے نقصان کے ازالے کے لیے جانا پڑتا ہے۔ لہذا اس ضرورت کو سمجھتے ہوئے ہم نے آئین کے آرٹیکل 212 کے تحت علیحدہ سے معاوضے کی طلبی یا نقصان کے ازالے والی عدالت کا بل بھی متعارف کروایا۔ یہ بل اسمبلی کی قانونی کارروائیو ں کے مراحل طے کررہا ہے۔

پارلیمنٹ کے تقدس اورتوقیرکو قائم رکھنے میں سب کو اپنا اپنا کردارادا کرنا ہوگا،کیونکہ عوا م کے مسائل اور مشکلات دورکرنے کے لیے یہ ہی سہل اور جائز راستہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔