میاں صاحب کشتی جلا نہیں، بنا رہے ہیں

اقبال خورشید  جمعرات 18 جنوری 2018

دل گرفتہ ہوں، رنجیدہ ہوں، مگر حقیقت یہی ہے کہ چند روز بعدہم زینب کوبھول جائیں گے۔

خبروں کے شور میں، وقت کی دوڑ میں اب سانحوں کی عمر تھوڑی ہوگئی ہے۔ کچھ دیر یہ المیے ذہن میں ڈولتے پھرتے ہیں، چبھتے ہیں، پھرکمزور پڑ جاتے ہیں، ضروری غیرضروری ہنگاموں میں، نئے بحرانوں میں گم ہوجاتے ہیں۔

جس پل یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، دہشتگردی اورانتہاپسندی کے خاتمے کے لیے نئے بیانیے کی بازگشت ہے۔ بیانیہ، جس کے مطابق ملکی دستورکی بالادستی کویقینی بنایاجائے گا، موجودہ قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالاجائے گا، نفاذ شریعت کے نام پر تخریب کاری، دہشتگردی اورخود کش حملے حرام قرار پائیں گے،حکومت اور سیکیورٹی اہلکاروںکو کافر قرار دے کر کارروائی کا شرعی جواز گھڑنا بغاوت ٹھہرے گا۔

آپ کے مانند میں بھی یہ باتیں پہلے سن چکا ہوں اور آپ کی طرح میرے ذہن میں بھی یہ سوال کلبلاتا ہے کہ ماضی میں اختیار کردہ بیانیوں میں کیا کمی رہ گئی تھی کہ نئے بیانیے کی ضرورت پڑگئی؟ مگر یہ سوچ کر چپ ہوں کہ اس قومی بیانیہ پر مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب سمیت 1800 جید علما نے دستخط کیے ہیں۔ نیت پر یوں بھی شک نہیں۔البتہ دست بستہ عرض ہے، یہ اعلان نہیں، ایکشن ہے، جو کسی بھی بیانیہ کو حقیقت کا روپ دیتا ہے۔

ایکشن، جو زینب اور ان بارہ بدنصیب بچیوں کو انصاف دلاسکتا ہے، جنھیں گزشتہ ایک برس میں قصور میں قتل کیا گیا۔ یہ عائشہ سے شروع ہونے والی دردناک کہانی ہے، جس کی لاش ملنے کے ٹھیک ایک برس بعد ہمیں زینب کی لاش ملی، جو بولتی ہے، سوال کرتی ہے، مگر ہم گونگے ہیں۔

مگر بھاری دل کے ساتھ پھرکہنا چاہوں گا، چند روز بعد ہم زینب کوبھول جائیں گے۔

زینب کا لرزہ خیز قتل بھلانے کا ایک سبب طاہر القادری کا وہ احتجاج بنے گا، جس میں اپوزیشن کی بڑی جماعتیں شامل ہیں، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی، زرداری خان اختلافا ت کے باوجود اس پلیٹ فورم پر اکٹھی ہیں۔ مقصد واضح ہے، پنجاب حکومت کا خاتمہ۔ اور ایسا بے سبب نہیں، گو بلوچستان میں آنے والی تبدیلی سے شریفوں کے مخالفین نے، چاہے ان کا تعلق کسی طبقے سے ہو،ایک بڑا مقصد حاصل کر لیا، سینیٹ میں ن لیگ جس کامیابی کا خیال باندھے بیٹھی تھی، اس پر ضرب لگی، مگر یہ پنجاب ہے، جہاں ن لیگ کا شیرازہ بکھیرے بغیر مرکز تک رسائی کی کوشش، گو ناکام کوشش تو نہیں کہلائے گی کہ یہ ممکن توہے، مگر یہ کوشش پر خطر ضرور ہے۔

17 تاریخ کو لاہور کے مال روڈ سے اس احتجاج کا آغاز ہوا، جس کا جواز ماڈل ٹاؤن کے شہدا ہیں۔ یہ پہلا قدم ہے، جلد مزید اقدامات ہوں گے۔مزید شہدا کی تلاش ہے۔ شہباز شریف جو پاناما سے محفوظ رہے اور حدیبیہ پیپر کیس سے بچ نکلے، ان کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں۔ البتہ ان کے حامیوں کو اطمینان رہے کہ مخالفین کی تمام تر خواہشات کے برعکس، وہ مستقبل میں بھی ایک قوت کے طور پر رہیں گے۔یوں بھی، خادم خادم ہوتا ہے، چاہے عہدے پر ہو یا بنا عہدے کے۔

کیا مسئلہ میاں صاحب اوراُن کے تلخ سوالات ہیں؟جی نہیں۔ وہ کشتیاں جلانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ یہ معاملہ سوالات ہی تک محدود ہے، اقدامات تک نہیں جائے گا۔سیاسی دانشور جو میاں صاحب کو جمہوریت کی علامت بنانے پر تلے ہیں، وہ عوام پر نہیں، توکم از کم میاں صاحب ہی پر رحم کریں۔ بے شک ان کا ووٹ بینک تگڑا ہے،مگر چاہے وہ جلا وطن ہو جائیں،چاہے گرفتار کر لیے جائیں، ان کا ووٹر سڑکوں پر نہیں نکلے گا۔

ن لیگی ووٹر جیالا نہیں اور ن لیگی وزیر اعظم بھی جیالا وزیر اعظم نہیں ہوتا۔ لاکھ شاکی ہو، مگر اتنا تلخ اور بے احتیاط کبھی نہیں ہوتاکہ ’’ریاست کے اندر ریاست‘‘ یا ’’اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘ جیسے بیانات داغتا پھرے۔ میاں صاحب نے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اور ’’تمھیں کیا ہے بھئی‘‘ جیسے ہلکے پھلکے نعرے چنے، جو ٹویٹر ٹرینڈ بھی بنتے ہیں اور سننے والوں کو لطف بھی دیتے ہیں۔

میاں صاحب کشتی بنا رہے ہیں۔ ان کا مخاطب ان کا ووٹر ہے۔ وہ اپنے حامیوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی، بڑا ظلم ہوا، انھیں بہ جنبش قلم فارغ کردیا گیا، اور آج وہ اپنی بیٹی کے ساتھ پیشیاں بھگت رہا ہے۔مجھے کہنے دیجیے، میاں صاحب کسی اسٹیک ہولڈر سے جنگ نہیں چاہتے، یہاں تک کہ اس عدلیہ سے بھی نہیں، جس نے اُنھیں نااہل قرار دیا۔وہ ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھا رہے ہیں۔ آخرانھیں دو محاذ سنبھالنے ہیں، ایک بیرونی، جہاں وہ دیگر اسٹیک ہولڈز اور عمران خان سے برسرپیکار ہیں، اور دوسرا اندرونی، جہاں انھیں خود کو متعلقہ رکھتے ہوئے ایک ایسا جانشین چننا ہے، جو ان کے ووٹ بینک کو بھی محفوظ رکھے، اور ان کے ورثے کو بھی۔

میاں صاحب کسے اپنا جانشین سمجھتے ہیں؟ یقینی طور پر یہ مریم نواز ہیں، جنھوں نے پارٹی کے لیے چند مشکلات ضرور پیدا کیں، مگر اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا بھی اظہار کیا، اوراہلیت ثابت کی۔البتہ فی الحال مریم نواز کے لیے ماحول سازگار نہیں۔اسی لیے، بڑے انتظار کے بعد، میاں شہباز شریف کو نامزد کیے جانے کی خبراچھلی ہے۔اچھا،اسے آپ میاں صاحب کی مجبوری کے بجائے مہارت گردانیں۔ آنے والا محاذ مشکل بھی ہے، اور بنجر بھی۔عمران خان کی باری آئے بنا اب بات آگے نہیں بڑھے گی۔

چاہے اس باری کا دورانیہ فقط تین سال ہو، چاہے خان خود وزیر اعظم نہ بنے، مگر اب اس کے بغیرمعاملہ آگے بڑھنا مشکل ہے(یہ ساری مشق لاحاصل ثابت نہیں ہوگی!)خود ہی سوچیے، اگر ن لیگ الیکشن جیت گئی، تب بھی یہ یہی عدلیہ ہوگی، یہی کیسز ہوں گے، یہی طاقت کا ڈیڈلاک ہوگا۔توصاحب، ایسے میں شہباز شریف ہی بہتر انتخاب، جویہ جنگ لڑنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں، اور توانائی بھی۔اور جب 2023ء کے انتخابات آئیں گے، تب ن لیگ اقتدار کی سمت پیش قدمی کے لیے پوری طرح تیار ہوگی اور تب جانشین کا فیصلہ بہتر انداز میں کیا جاسکے گا۔

بس، شرط یہ ہے کہ آنے والے ایک برس میں، مسلسل جنم لیتی مشکلات کے باوجود، ن لیگ خود کو متحد رکھے۔ اور ن لیگ ایسا کر سکتی ہے۔ سیاسی جماعت کو ختم کرناکٹھن۔ سیاست داں کا وجود مٹانا دشوار۔ یہاں تک کہ جس کا وجود مٹا دیا جائے، وہ بھی اپنی قبر سے حکمرانی کرتا ہے۔

شریف خاندان کچھ عرصے بعد مشکلات سے نکل آئے گا، شاید کیسز بھی ختم ہوجائیں، شاید وہ بھی دھرنوں کی راہ پر چل پڑے، شاید وہ بھی لاڈلا ہوجائے۔آخر شریف خان کا مفاد بھی اِسی سسٹم سے وابستہ ہے، جو 70 سال سے عوام کا خون چوس ہے۔ یہی سسٹم چند برس بعد انھیں پھر اقتدار میں لائے گا، جیسے ماضی میں لاتا رہا ہے، ن لیگ اور پی پی دونوں کو، باری باری!

تو میاں صاحب کو اڑ جائیں، بھڑ جائیں، لڑجائیں جیسے مشورے دے کرگمراہ کرنے سے باز رہیں۔ وہ ایک سمجھ دار کاروباری آدمی ہیں۔کشتی جلانے میں نہیں،کشتی بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ انتظارکرنے کو تیار ہیں، ماضی کے برعکس اس بار توان کی حکومت پانچ سال بھی پورے کر رہی ہے، تو وہ کیوں ایسے پرخطر مشوروں پر کان دھریں گے!

اور جہاں تک زینب کا تعلق ہے۔۔۔۔وہ کون ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔