جرائم کاری کی نفسیات

شبنم گل  جمعرات 18 جنوری 2018
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

اس ملک کی تاریخ اذیت ناک واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ یہ سانحے، روح کو بری طرح سے جھنجھوڑ کے رکھ دیتے ہیں۔ سیالکوٹ کے بھائیوں منیب اور مغیث کا سفاکانہ قتل، سرفراز شاہ کے گڑگڑانے اور زندگی کی بھیک مانگنے کے باوجود رینجرز کا اسے سرعام گولی ماردینا، غیر عقلی ہجوم کا غلط فہمی کی بنا پر مشال خان کو جان سے ماردینا یا پھر بچوں کے خلاف غیر انسانی رویے، با شعور لوگوں کو ذہنی طور پر منتشر کرکے رکھ دیتے ہیں۔

زینب کے المناک قتل پر کون سی آنکھ ہے جو اشکبار نہیں  ہوئی اس ملک میں لا تعداد بچے ہر سال درندگی کا شکار ہوتے ہیں۔ بہت سارے ایسے معاملات قانونی چارہ جوئی سے محروم رہتے ہیں۔ بچوں کے حوالے سے بڑھتے جرائم تشویشناک نوعیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق لاہور، فیصل آباد، گجرانولہ، قصور اور راولپنڈی کے شہروں میں 2017ء میں سات سو پچاس شکایتیں تھانوں میں درج کروائی گئیں۔ سال بھر میں 12.736 بچے اغوا ہوئے۔

یورپ میں بھی بچوں کے خلاف مختلف جرائم ہوتے ہیں بعض اوقات ایک ہی قاتل بیک وقت مختلف وارداتیں کرتا ہے جسے سیریل کلر  کہاجاتا ہے یہ لفظ 1970ء میں Robert Ressler نے ایجاد کیا تھا۔ FBI کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں 1950ء سے لے کر چار سو سیریل کلر مختلف وارداتوں میں پولیس کو مطلوب رہے۔

ہالی وڈ نے اس موضوع پر فلمیں بنائی ہیں جن میں The Silence of the Lambs،Psycho،Bud Land ودیگر فلمیں شامل ہیں۔ جرائم کاری کی نفسیات ایک ایسا موضوع ہے جس میں جرائم پیشہ لوگوں پر تفصیل سے کام کیا جاتا ہے۔ ان کی سوچ، ارادے، عزائم اور رد عمل کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جاتا ہے تاکہ معاملے کی تہہ تک آسانی سے پہنچا جاسکے۔

جرم کے پیچھے کئی سماجی و نفسیاتی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ جن کا جائزہ لینا بے حد ضروری سمجھا جاتا ہے خاص طور پر جنسی اذیت پسندی کے واقعات کے پیچھے مجرموں کی شدید ذہنی بیماریاں پوشیدہ ہوتی ہیں ایسے لوگ اکثر بچپن یا جوانی میں شدید تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔ تنہائی کی وجہ سے یہ لوگ تصورات کی دنیا مین پناہ لیتے ہیں۔ بعض اوقات تخریبی سوچوں پر مبنی تصورات، جرائم کا پیش خیمہ بنتے ہیں۔

شدید قسم کے جرائم میں ملوث لوگ بچپن میں خود تشدد کا شکار ہوتے ہیں، محبت و اپنائیت کی کمی ان کے دل کو مزید سخت کردیتی ہے۔ کرمنل تھیوری میں یہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ جرم کیوں اور کیسے سرزد ہوتے ہیں یا کس قسم کی صورتحال میں فرد جرم کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے جس کے بعد ایسی حکمت عملی جوڑی جاتی ہے۔

جو مزید جرائم کا راستہ روک سکے  اور جرائم پیشہ لوگوں کو نارمل زندگی میں واپس آنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔انیسویں صدی میں اطالوی ڈاکٹر اور دانشورCesare Lombroso نے کرمنل انتھروپولوجی پر کام کیا اس نے جرائم کی سائنسی وضاحت کی اور اس نے 1876ء میں اس کا کام Criminal Man کی صورت میں شایع ہوا۔ اس کا کہناتھا کہ جرائم پیشہ لوگوں کی جسمانی ساخت الگ ہوتی ہیں جیسے کشادہ جبڑا، گالوں کی ہڈیاں پھیلی ہوئیں۔ سوجے ہوئے ہونٹ وغیرہ اس ضمن میں یہ نشاندہی کی گئی کہ مجرم پیشہ لوگوں کے بازو، ناک اور ماتھا رواجی خدو خال سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔

ڈاکٹر لومبروسو کے مطابق مجرم میں موروثی طور پر اثر پایاجاتا ہے اور اسے چہرے کے خدو خال سے پہچانا جاسکتا ہے اس نے چور، قاتل اور جنسی زیادتی کرنے والوں کے خدوخال کی نشاندہی کی گو کہ بعد میں ڈاکٹر لومبروسو کی تھیوری جرم کی طبعی وجوہات کو مسترد کرتے ہوئے سماجی وجوہات کو جرائم کا پیش خیمہ سمجھا گیا مگر آج جدید دور میں ان نظریوں کو منطقی بنیاد پر دیکھا جارہاہے اور یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ذہنی امراض، جرائم کے پس منظر میں پائے جاتے ہیں۔ خاص طور پر وہ مجرم جو بار بار ایک ہی قسم کے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔

ہمارے ملک میں کرمنل اتھرویولوجی یا کرمنل سائیکولوجی کی اہمیت کو نہیں سمجھا گیا اور نہ ہی کرمنل سائیکولوجسٹ نظر آتے ہیں جن کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے۔ خاص طور پر نفسیات کی اہم شاخ Forensic Psychology ہے جو نفسیات اور قانون کا مجموعہ کہلاتی ہے۔

امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن نے 2001ء میں نفسیات اور قانون کے مابین نفسیات کا ایک جدید اور کار آمد رخ متعارف کروایا ہے نفسیات کی اس شاخ کی 1879ء میں نفسیات دان Wilhelm Wundy نے بنیاد ڈالی تھی۔ جس میں جرائم پر نفسیات اور سائنسی بنیادوں پر تحقیق کی جاتی ہے اور ایسے سوالنامے و مشاہداتی عنصر شامل ہوتے ہیں جو جرم کی جڑ تک پہنچاکر دم لیتے ہیں اس شعبے کے نفسیاتی ماہرین پولیس کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

کرمنل سائیکولوجسٹ کی ایک الگ فیلڈ ہے، مگر ہمارے ملک میں مجرمانہ نفسیات پر کچھ خاص کام نہیں ہوا۔ کچھ عرصے سے کرمنالاجی کا مضمون یونی ورسٹی میں پڑھایاجاتا ہے مگر پولیس کے شعبے کو جدید علوم سے فائدہ اٹھانے کے لیے نفسیات کے شعبے سے مدد لینے پڑے گی۔

آج کل بچوں کے خلاف جرائم کی نئی لہر تشویشناک ہے وہ معاشرہ جو ذہنی طور پر منتشر اور دنگے فساد کی طرف زیادہ مائل ہو بچوں کی تربیت میں ہمیشہ ناکام رہتا ہے کیونکہ بچے کل وقتی ذمے داری ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے اخبار میں خبر شایع ہوئی کہ ایک بد نصیب والدہ چار چھوٹے بچوں کو گھر میں چھوڑ کر خریداری کے لیے گئیں تو پیچھے چاروں بچے پانی کے ٹینک میں ڈوب گئے۔

اول تو یہ بات طے کرلینی چاہیے کہ بچے فقط والدین کی ذمے داری ہیں۔ جس میں تمام خاندان کا بھرپور حصہ ہونا چاہیے بچوں کی ذمے داری نوکروں، ڈرائیور حضرات یا اسکول پر ڈالنے سے پہلے والدین اچھی طرح تسلی کرلیں کہ وہ اپنے بچوں کو صحیح ہاتھوں میں دے رہے ہیں کہ نہیں۔ بچوں کا اخلاقی بگاڑ یا لا علمی، والدین کی ذاتی غفلت کا نتیجہ ہوتی ہے اس کے بعد اسکول، معاشرے و ریاست کی ذمے داری شامل ہوجاتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایک حادثے سے سبق حاصل کرنے کے بجائے ہم دوسرے المیے کے منتظر رہتے ہیں۔

معاشرتی زندگی میں ذاتی ذمے داری کا بہت بڑا خلا پایاجاتا ہے لوگ ارد گرد کے ماحول سے بے خبر رہتے ہیں اور مجرم بھی سنگین وارداتیں کرکے سلیمانی ٹوپی پہن کر غائب ہوجاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔