موبائل فون اسمگلرز کی کسٹمز کو دھوکا دینے کی کوشش ناکام

احتشام مفتی  جمعرات 18 جنوری 2018
چالاکی کام نہ آسکی،ابتدائی تحقیقات میں گروہ کے ملوث ہونے کا پتا چلا، کلکٹر اپریزمنٹ ویسٹ۔ فوٹو: سوشل میڈیا

چالاکی کام نہ آسکی،ابتدائی تحقیقات میں گروہ کے ملوث ہونے کا پتا چلا، کلکٹر اپریزمنٹ ویسٹ۔ فوٹو: سوشل میڈیا

 کراچی:  پاکستان کسٹمز نے مس ڈیکلریشن کے ذریعے 60 کروڑ روپے مالیت کے قیمتی امریکی اور کوریا کے برانڈڈ موبائل فونز اور ٹیبلٹ کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ کے ذریعے مزید 3 کنٹینرز روک لیے۔

کلکٹراپریزمنٹ ویسٹ شہناز مقبول نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ چند روز قبل 3درآمدکنندگان کی جانب سے ریفریجریٹر پارٹس، گارمنٹس اور ڈائز کی آڑ میں قیمتی برانڈڈ موبائل فونز، ٹیبلٹس اور موبائل بیٹریاں اسمگل کرنے کی کوشش کی گئی تھی جسے اپریزمنٹ ویسٹ کلکٹریٹ نے ناکام بنا دیاتھا جس کے بعد مذکورہ درآمدکنندگان نے چالاکی کا مظاہر کرتے ہوئے فوری طور پر مذکورہ کنسائمنٹس کو ری ایکسپورٹ کرنے کی اجازت طلب کر لی تھی اور بعدازاں پہلے سے داخل کردہ گڈز ڈکلریشن کے مطابق ریفریجریٹر پارٹس، ڈائز اورگارمنٹس پر مشتمل مزید 3 کنٹینرز پاکستان بھیجے تاکہ یہ ظاہر ہوسکے کہ چند روز قبل پہنچنے والے کنٹینرزکی غلطی سے پاکستان آمد ہوئی جبکہ بعد میں بھیجے جانے والے 3 کنٹینرز گڈز ڈیکلریشن کے مطابق درآمد کرنے تھے۔

شہناز مقبول نے بتایا کہ کسٹمز اپریزمنٹ ویسٹ کلکٹریٹ نے مذکورہ درآمدکنندگان کو نہ ری ایکسپورٹ کی اجازت دی اور نہ ہی جی ڈی سے مطابقت رکھنے والی اشیا پر مشتمل کنسائمنٹ کو کلیئرنس دی، مذکورہ تینوں درآمدکنندہ مشکوک کمپنیوں کا تعلق لاہور سے ہے۔

ایک سوال پر کلکٹراپریزمنٹ ویسٹ نے بتایا کہ موبائل فونزاور ٹیبلٹس کی مس ڈیکلریشن کے ذریعے اسمگلنگ کی کوشش میں وہ عناصر بھی ملوث ہوسکتے ہیں جن کے خلاف حالیہ چند ماہ میں بڑی نوعیت کی کاروائیاں کی گئیں، مذکورہ کیس میں ایک مشکوک شخص سے تحقیقات کی جارہی ہے جس سے ابتدائی تحقیقات میں پتا چلا ہے کہ اسمگلروں کے گروہ کا منظم مافیا اس کیس میں بھی ملوث ہے، گروہ کے سرغنہ کی نشاندہی ہوگئی ہے جس کے خلاف گھیرا تنگ کردیا گیا ہے۔

کلکٹراپریزمنٹ ویسٹ نے بتایا کہ پاکستان کسٹمز نے انسداد اسمگلنگ مہم کے تحت اچھی پروفائل کی حامل درآمدکنندہ کمپنیوں کے کنسائمنٹس کی بھی ایگزامنیشن سخت کردی ہے کیونکہ گزشتہ چند ماہ کے دوران بہترین ساکھ کی حامل کمپنیوں کی جانب سے بھی گرین چینل کا بڑھتا ہوا ناجائز استعمال سامنے آیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔