تماشائے اہل ہوس۔۔۔۔؟

رئیس فاطمہ  اتوار 24 مارچ 2013

کاش میرا اپنا ایک کالم میرے پاس محفوظ ہوتا تو میں اس کا وہ اقتباس ضرور آج کے کالم میں شامل کرتی، جس میں یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ’’جمہوریت کی برکتوں کے سال مکمل ہوتے ہی پہلے سے تیار جہاز جو تمام تر ساز و سامان سے بھرے ہوں گے، وہ بادشاہوں اور ان کی آل اولاد کو لے کر محو پرواز ہو جائیں گے، ان مقامات کی طرف جو ان کے لیے محفوظ ترین ہوں گے۔‘‘

وہ اینکر پرسن، وہ کالم نگار اور ہمارے وہ صحافی حضرات جو جمہوریت کا ڈنکا پیٹنے پر مامور ہیں، انھیں واقعی اس خبر سے خوشی ہوئی ہو گی کہ جمہوریت کا وہ شجر ممنوعہ جو کسی کو نظر نہیں آتا وہ ان کی خبروں، تجزیوں، کالموں کے ذریعے کدو کی طرح نظر آتا ہے اور کبھی اس غبارے کی طرح جسے مصنوعی گیس سے زبردستی پُھلانے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ جمہوریت کی ڈگڈگی بجانے والوں نے اس ڈگڈگی پر ناچنے والوں کو جی بھر کے خوش کیا اور پھر اسے ایک طرف رکھ کر جمہوریت کی برکتیں سمیٹنے میں لگ گئے۔

جمہوری میوزک پر رقص کرنے والوں کو خوش گوار حیرت ہوئی ہوگی جب انھوں نے یہ خبر پڑھی ہوگی کہ ایک سابق وزیر اعظم اپنے خاندان کے تقریباً 26 افراد کے ہمراہ دبئی منتقل ہو رہے ہیں۔ جہاں وہ آرام سے رہیں گے، واقعی انھیں اور ان جیسے تمام لوگوں کو ’’آرام و سکون‘‘ سے رہنے کا حق حاصل ہے۔ پاکستان میں تو یہ ممکن نہیں، یہاں تو روز لاشیں اٹھتی ہیں، کہیں بم پھٹتے ہیں اور کہیں کوئی خودکش اپنے آپ کو تباہ کر کے کئی بے گناہوں کو بھی اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔

یہ بھی کوئی رہنے کی جگہ ہے بھلا؟ ہمارے حکمرانوں نے ان پرانے بادشاہوں کی یاد تازہ کر دی ہے جن کے پاؤں تلے ملازمین کی ایک فوج قالین بچھاتی چلتی تھی اور جب تک جوتا ایجاد نہیں ہوا تھا تب یہی بدنصیب قسمت کے مارے ملازم بادشاہوں کے پیروں کے نیچے درخت کے بڑے بڑے پتے بچھاتے چلتے تھے، تا کہ بادشاہ سلامت کے پاؤں کانٹوں، پتھروں، سنگریزوں اور کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ زمانہ بدل گیا، بے شک بدل گیا، مگر صرف بادشاہوں اور بادشاہ گروں کے لیے، اور خاص کر اس ملک کے شہزادوں اور بادشاہوں کے لیے، جن کے گھوڑے اور کتے عام آدمی سے زیادہ خوش نصیب ہیں، یہ لاشوں پر سیاست کرنے والے اور ووٹ مانگنے والوں کو خدا نے اتنی چھوٹ کیوں دی ہے کہ وہ اپنے اپنے محکموں میں، گاؤں اور گوٹھوں میں فرعون اور ہلاکو بنے بیٹھے ہیں۔ اور ہزاروں بے وقعت انسان ان کے قدموں میں ہمہ وقت جھکے رہتے ہیں اور ان کا کوئی نجات دہندہ نہیں۔

رحمن ملک صاحب اکثر نرالی باتیں کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انھوں نے بڑے طنطنے سے فرمایا ہے کہ ’’میں اپنے جانشین کے لیے ایک پر امن پاکستان چھوڑے جا رہا ہوں‘‘۔ یا خدا! اسے کیا نام دوں؟ ۔۔۔۔ مجھے تو لغت میں ڈھونڈنے سے ان کے لیے کوئی موزوں لفظ نہیں مل رہا۔اب اگر رحمن ملک صاحب کو پاکستان پرامن نظر آتا ہے تو اس میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ شاید پاکستانیوں کا یہی مقدر ہے۔

جمہوریت کی پانچ سالہ برکتوں سے اسمبلی میں کتنے بل منظور ہوئے؟ اور ان پر عمل درآمد ہوا، اور سب چھوڑیئے، صرف خواتین پر تشدد کا بل، ادلے بدلے کی شادی (وٹہ سٹہ) کم عمر بچیوں کی عمر رسیدہ مردوں سے شادی کا بل، یا خواتین پر اعلیٰ تعلیم پر پابندی کے خلاف بل؟ کس پر عمل ہوا؟ لیکن ڈھول باجے کے ساتھ اختتام پذیر ہونے والی حکومت نے اس کہاوت کو سچ کر دکھایا کہ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہی سہی۔ اور اکٹھے سات بلز کی منظوری لے لی جس کے تحت ارکان اسمبلی اور ان کے اہل خانہ تا حیات سرکاری مراعات حاصل کر سکیں گے۔ اور یہ بل کثرت رائے سے فوراً ہی منظور بھی ہو گیا، کیونکہ اس سے عوام کی بھلائی کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اگر تعلق عوام کی بھلائی یا فلاح و بہبود سے ہوتا تو یہ کہیں فائلوں میں دبا ہوتا اور اسے پیش کرنے والے کو احمق کے لقب سے نوازا جاتا۔

کیونکہ فلاحی کام کرنے والوں کا حشر تو پروین رحمٰن کی طرح کا ہوتا ہے۔ اس ملک میں ہر طرف درندے دوڑتے پھر رہے ہیں، ان درندوں کا ساتھ دے رہی ہیں کچھ لومڑیاں، جو ان کا بچا کھچا شکار کھانے کے لیے تیار بیٹھی ہیں۔ اس بل کے تحت جو نوازشیں ارکان اسمبلی کا مقدر بنیں گی ان کی تفصیل بے حد ہوشربا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے عمرو عیار کی زنبیل کا خزانہ ان کے لیے خالی کر دیا گیا ہو۔ میرے خدا! تُو کہاں ہے، کیا پاکستان انھی گدھوں کے لیے بنا تھا جو ہر طرف سے اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ اس بل کی تفصیلات پڑھ کر مجھے دو اور محاورے بھی یاد آ گئے۔ پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں۔ اور دادا جی کی فاتحہ حلوائی کی دکان۔ اتنے پرانے محاورے اور کہاوتیں مجسم ہو کر ہمارے سامنے آن کھڑے ہوئے ہیں۔

ایک بار پھر اکھاڑہ سج گیا ہے۔ پہلوان اکھاڑے کی مٹی چاٹ کر کشتی لڑنے کو تیار ہیں۔ لیکن یہ مٹی جو انھیں دوبارہ اور سہ بارہ اسمبلی میں پہنچا دے۔ اب سیاسی جماعتوں کے تلووں میں ملتی ہے، جس کے عوض ان کی بولی لگ جاتی ہے، اور ٹکٹ مل جاتا ہے۔ بعد میں کامیابی کے بعد وزارت بھی پارٹی ٹکٹ کے لیے دی گئی درخواست کے ساتھ منسلک رقم کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ کیونکہ بقول محترمہ ریس کے گھوڑے الگ ہوتے ہیں اور تانگوں میں جوتنے والے الگ۔ جبھی تو تمام پارٹیوں نے اپنے اپنے اصطبل کے منہ کھول دیئے ہیں۔ ایک پارٹی ٹکٹ نہیں دیتی، طالع آزما اور موقع پرست فوراً اصطبلوں کو دیکھتے ہیں، جہاں زیادہ گھانس نظر آتی ہے وہاں دوڑ لگا دیتے ہیں۔

ڈھٹائی کی پٹی آنکھوں پر باندھ لی ہے اور عوام کو اندھا سمجھ لیا ہے۔ مجھے رحم آتا ہے ان لوگوں پر بے وقوف بن کر، زور زبردستی سے یا کسی وقتی فائدے کی خاطر قطار میں لگ کر ووٹ ڈالتے ہیں۔ میں نے ووٹ صرف 1970ء کے الیکشن میں ڈالا تھا۔ اس کے بعد کالج میں تقرری کے بعد پریذائیڈنگ آفیسر کی حیثیت سے جب الیکشن اور ریفرنڈم کو قریب سے دیکھا تو نفرت ہو گئی اس سسٹم سے۔ ایسا لگتا ہے جیسے صدیوں کا گندہ بدبودار پانی جمع ہے اور ہر الیکشن میں اس پر خوشبودار اسپرے کر کے پھر اسی غلیظ پانی کو اپنا لیا جاتا ہے۔

وہی پرانے نعرے ایک بار پھر گونجنے لگے ہیں۔ اقتدار ملا تو لٹیروں کو سر عام پھانسی دیں گے، لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے، پاکستان سے کرپشن ختم کر دیں گے، یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے۔ گویا اقتدار ملتے ہی الٰہ دین کا چراغ ہاتھ لگ جائے گا۔ اور جب وہ پوچھے گا۔ ’’کیا حکم ہے میرے آقا‘‘؟ تو آقا صاحب فرمائیں گے۔ ’’ہمارے ذاتی خزانے بھر دو، پاکستان کا سارا سونا، ہیرے، جواہرات میری بیوی اور بیٹیوں کو دے دو۔ میرے بیٹوں کو کرپشن کے تالاب کا تیراک بنا دو‘‘۔ اور پھر یہی کچھ ہو گا۔ کرسی کرسی کا کھیل پھر رچایا جائے گا اور لوگ ایک بار پھر دامن پھیلا کر انھیں بد دعائیں دیں گے جنھوں نے اقتدار کی خاطر ملک دو لخت کیا اور لوگوں سے روٹی کپڑا، مکان، ملازمت، بنیادی حقوق اور عزت نفس تک چھین لی۔

اس ملک پر آسیب مسلط ہو گئے ہیں جو صرف تباہی و بربادی لاتے ہیں۔ جاتے جاتے جس طرح ملازمتوں کی بندر بانٹ ہوئی ہے اس نے ایک اور کہاوت زندہ کر دی کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں، اپنوں اپنوں کو دے۔ غربت، افلاس، بے روزگاری دہشت گردی، لوٹ مار، ٹارگٹ کلنگ، بینک ڈکیتیاں، تعلیم کا زوال، جعلی ڈگریوں کی خرید و فروخت، جس اسمبلی میں جعلی ڈگریوں کے حامل اراکین موجود ہیں اس کے اخلاقی زوال کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے۔ کون سا ادارہ تباہ ہونے سے رہ گیا ہے، قومی ایئرلائن، ریلوے، اسکول، کالج ہر شے زوال پذیر ہے لیکن یہاں کسی کو خدا کا خوف نہیں ہے۔

شاید انھیں قیامت کا خوف بھی نہیں ہے۔ کوئی اپنی ذمے داری قبول نہیں کرتا۔ اپنی اپنی باری کے چکر میں اندر ہی اندر ’’دوستیاں‘‘ اور لوگوں کو دکھانے کے لیے فرینڈلی اپوزیشن، پشت پناہی کے لیے غیر ملکی سربراہ جو جب چاہیں کسی کے سر پر بھی ہما بٹھا دیں۔ اتنا ہولناک منظر نامہ اس بدقسمت ملک کا کبھی نہ تھا جیسا کہ اب ہے۔ دکھاوے کے لیے بڑے بڑے اجتماعوں سے ٹیلی فونک خطاب اور بس یہی آئندہ بھی اس ملک کا مقدر رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔