رزقِ حلال کے حصول کی تاکید

علامہ سیّد محمود احمد رضوی  جمعـء 19 جنوری 2018
معاملات کو دین کے دوسرے شعبوں کے مقابل یہ خاص امتیاز بھی حاصل ہے۔ فوٹو : فائل

معاملات کو دین کے دوسرے شعبوں کے مقابل یہ خاص امتیاز بھی حاصل ہے۔ فوٹو : فائل

رزق کے متعلق سب سے پہلے اسلام نے اپنے پیروکاروں کو خوب اچھی طرح یقین دلایا ہے کہ دنیا اور اس کی تمام اشیاء کا مالک ایک اللہ ہے۔ یہ مال و دولت حقیقت میں صرف خدا کا ہے۔

رزق کی کشایش اور تنگی خدا کے ہاتھ میں اور اس کی حکمت ہیں۔ دولت مند انسان یہ سمجھتا ہے کہ مجھ ہی میں کوئی ایسی بات ہے یا مجھے ایسا ہنر اور طریقہ معلوم ہے، جس سے یہ ساری دولت میرے چاروں طرف سمٹی چلی آرہی ہے۔ لیکن دینی تعلیم کے علاوہ دنیا کے واقعات پر گہری نظر اس یقین کو مٹانے کے لیے کافی ہے۔

کلام اللہ میں ہے، مفہوم : ’’ اور زمین میں کوئی چلنے والا نہیں، مگر یہ کہ اس کی روزی خدا کے ذمیّ ہے۔‘‘ (سورہ ہود )

’’ اسی کے ہاتھ میں ہیں، آسمانوں اور زمین کی کنجیاں وہ جس کے لیے چاہتا ہے رزق پھیلا دیتا ہے اور جس کے لیے چاہے ناپ دیتا ہے۔ وہ ہر چیز کی خبر رکھتا ہے۔‘‘(سورہ شوریٰ )

مفہوم: ’’ زمین اور آسمان کے خزانے اسی کے ہیں۔ خدا ہی کا ہے جو کچھ آسمان میں ہے اور زمین میں ہے۔ آسمان وزمین کی ملکیت اور بادشاہی اسی ایک اللہ کی ہے۔‘‘

قرآن مجید نے ان کو بار بار بیان کرکے مسلمانوں کی رگ و پے میں یہ اسی لیے رچایا، تاکہ ان میں فیاضی، مال سے ایثار، شکر، قناعت پسندی اور بے طمعی کے جوہر پیدا ہوجائیں۔

روزی کمانا دراصل انسانی زندگی کی ضروریات سے ہے اور شرعا ًو عقلاً ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنی زندگی کی ضروریات کی تکمیل اور اصلاح کے لیے حصول رزق کی کوشش کرے، خواہ وہ تجارت و زراعت کی شکل میں ہو یا ملازمت کی صورت میں۔ قرآن مجید میں اللہ فرماتا ہے۔

مفہوم: ’’ زمین کی تمام چیزیں اللہ نے تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔ ‘‘

سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، مفہوم: ’’ اپنے رب کا فضل اور خوش نودی تلاش کرتے رہو۔‘‘

مفہوم : ’’ زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔‘‘ (سورہ جمعہ)

قرآن پاک کے محاورے میں ’’ خدا کا فضل تلاش کرنے‘‘ سے مقصود تجارت اور روزی کا کمانا ہوتا ہے۔ معلوم ہُوا کہ حصول رزق کی تلاش کرنا رازقِ کائنات کا فضل ہے اور یہ زمین اس کے لیے بہ منزلہ میدان کے ہے اور اس میدان کی تمام اشیاء انسان کے نفع کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔ لہٰذا ضروری ہوا کہ ایسے قواعد و ضوابط مقرر کردیے جائیں جن کے ماتحت فضل ِ الٰہی کی تلاش کی جائے۔ کیوں کہ رزق اور اس کے حصول کے لیے اگر کوئی قاعدہ اور ضابط نہ ہو اور اسے بے قید چھوڑ دیا جائے تو ظاہر ہے کہ اس طرح عدل اور ظلم، امانت اور خیانت، پاک اور ناپاک، جائز اور ناجائز کی تمیز اُٹھ جائے گی اور یہ نظام انسانی کی تباہی و بربادی کا باعث ہوگی۔

اسلام سے قبل دنیا کی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔ جس کے جی میں جو آتا اور جیسے آتا کماتا تھا۔ حتیٰ کہ ظلم و جور سے کمائی ہوئی دولت پر فخر کیا جاتا تھا۔ اسلام آیا تو اس نے حصول رزق کے حدود مقرر کیے، جائز، ناجائز اور حلال و حرام کی تفریق پیدا کی۔ پاک روزی ڈھونڈنے اور اسی سے ضروریات ِ زندگی کو پورا کرنے کی تاکید فرمائی۔ انسان کا اپنے رب کے ساتھ بندگی اور نیاز مندی کا تعلق ہے، اور اس تعلق کا اہم تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے بندے رزق حلال کی کوشش کریں اور ذرایع آمدنی کی صحت و پاکی کا خیال رکھیں، کیوں کہ رزق کے سلسلے میں پاکی و صحت سے صرف نظر کرلینا اصول بندگی کے بھی خلاف ہے۔

آج کل کے بہت سے اچھے خاصے دین دار حلقوں میں بھی معاملات یعنی خرید و فروخت، امانت، قرض، نوکری اور مزدوری کی اصلاح کا اتنا اہتمام نہیں جتنا کہ ہونا چاہیے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت لوگ جن کی حالت ِ نماز، روزہ وغیرہ عبادات کے لحاظ سے کچھ غنیمت بھی ہے، کاروبار ان کے بھی پاک نہیں ہیں۔ حالاں کہ کاروبار کی پاکی اور معاملات کی صحت کے شعبے کی اہمیت کا یہ عالم ہے۔

اس کا تعلق بہ یک وقت اللہ کے حق سے بھی ہے اور بندوں کے حقوق سے بھی، نماز، روزہ، وغیرہ عبادات اگرچہ ارکانِ دین ہیں اور اس حیثیت سے ایمان کے بعد انہیں کا درجہ ہے مگر کوئی شخص ان میں کوتاہی کرتا ہے تو صرف خدا کا مجرم ہوتا ہے۔

پھر اگر سچے دل سے توبہ و استغفار کی جائے تو بارگاہ خداوندی سے اس جرم کی معافی ہی کی امید ہے۔ لیکن اگر لین دین میں خیانت واقع ہوجائے اور حصول رزق کے لیے ناجائز ذرائع کو اختیار کیا جائے تو اس طرح اللہ عز و جل کی نافرمانی بھی ہوگی اور کسی نہ کسی بندے کی حق تلفی بھی اور یہ بات دُہرا جرم قرار پائے گی۔ رہا یہ خیال جیسے اللہ کے کرم سے معافی کی اُمید ہی ہے تو قیامت کے دن جس بندے کی حق تلفی ہوئی ہے اس سے بھی معافی حاصل کرلی جائے گی، تو اگرچہ اس کا امکان ضرور ہے مگر کون کہہ سکتا ہے جو بندے ہم جیسے کم حوصلہ ہیں وہ قیامت کے دن ضرور ہی معاف کر دیں گے۔ پھر اگر وہ معاف نہ کریں تو ۔۔۔۔ ؟

معاملات کو دین کے دوسرے شعبوں کے مقابل یہ خاص امتیاز بھی حاصل ہے۔ اس میں اپنی ذاتی منفعت و مصلحت اور اپنی خواہش نفس کی اور اللہ عز و جل کے احکام کی کش مکش بہ نسبت دوسرے تمام شعبوں سے زیادہ رہتی ہے۔ نفس کی خواہش عموماً یہ ہی ہوتی کہ جھوٹ سچ اور جائز ناجائز کا لحاظ کیے بغیر جیسا موقع ہو اور جس طرح بھی نفع کی زیادہ اُمید ہو کر گزرا جائے۔

یہ اشیائے خوردنی میں ملاوٹ، دھوکا، فریب حتیٰ کہ بچوں کے استعمال کی معمولی دوائیوں تک کی بوتلوں پر جعلی لیبل لگا کر فروخت کرنا یہ سب خواہش نفس ہی کے محرکات ہیں اور اللہ کا دین یہ کہتا ہے کہ نفع کم یا ہو زیادہ، تجارت میں فائدہ ہو یا نقصان، جھوٹ، فریب اور دھوکے کے ذریعے حصول رزق حرام و ممنوع ہے۔ لہٰذا بندے کی بندگی، اور فرماں برداری کا سب سے زیادہ سخت امتحان معاملات و معاشرت کے احکامات میں ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ دینی و اُخروی فلاح و فوز انہیں کا حصہ ہے جو اپنی خواہش نفس پر قابو رکھتے ہیں اور نفس کی بڑی سے بڑی تحریک انہیں جادۂ حق سے منحرف نہیں کرتی ہے۔ لہٰذا جب تک انسان اپنی حرص و طمع کو روک کر حصول رزق کے جائز طریقے اختیار نہیں کرے گا وہ کام یابی حاصل نہیں کرسکتا، خواہ یہ کام یابی دین کی ہو یا دنیا کی۔

اسلام نے حصول رزق سے متعلق عدل و انصاف پر مبنی جو اصول مقر ر کیا ہے وہ ایک ایسی مرکزی حیثیت کا ہے کہ جس کو پیش نظر رکھ کر ہم یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ حصول رزق کے ذرایع میں سے کون سا ذریعہ حلال اور جائز ہے اور کون سا حرام اور ناجائز ہے۔

سورۂ نساء میں فرمایا۔ مفہوم: ’’ اے ایمان والو تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ لیکن یہ کہ لین دین ہو آپس کی خوشی سے۔‘‘

یہ آیت لین دین کے متعلق ایک اصولی حیثیت رکھتی ہے اور اس نے لین دین کے ان طریقوں کو جو ایمان داری کے خلاف ہیں اور جن کی کوئی حد نہیں ہے ایک لفظ باطل سے بیان کردیا یعنی کسی کی چیز خواہ وہ دھوکا و فریب ، ظلم و جور سے لی جائے یا چوری اور غصب، رشوت اور خیانت اور سُود کے ذریعے حاصل کی جائے غرض یہ کہ جس ناجائز طریقے سے بھی دوسرے کا مال لیا جائے اس آیت کے عموم و اطلاق کے اندر داخل ہے۔

پھر ا س سلسلے میں اسلام کی تکمیلی تعلیم کا یہ عالم ہے کہ اس نے ان نازک ناجائز معاملات اور وسیلوں کی بھی جنہیں عام طور پر باطل نہیں سمجھا جاتا یا انہیں بہت ہی کم درجے کا جرم خیال کیا جاتا ہے نشان دہی کی ہے اور ان کی دینی و دنیوی بُرائیوں کی تشہیر کرکے ان کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے اور اپنے پیروکاروں کو ان سے بچنے کی تاکید کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔