قاتل رکاوٹیں!!!

شیریں حیدر  اتوار 24 مارچ 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ہر روز کی طرح اس روز بھی چھٹی کا وقت ہوا تو دل ہی دل میں ایک اور دن کے خیریت سے گزر جانے پر شکر ادا کیا اور معمول کی اختتامی مصروفیات چل رہی تھیں کہ کسی بچے کے گر کر زخمی ہونے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، ایسے مواقع پر بہت زیادہ سوچنے کا وقت نہیں ہوتا۔ والدین سے رابطہ کیا تو انھوں نے اجازت دے دی کہ ہم بچے کو ابتدائی طبی امداد دے سکتے ہیں کیوں کہ انھیں پہنچنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔

ایک بڑے اسپتال کی ایمرجنسی میں رابطہ کیا تو علم ہوا کہ اس وقت ہمیں بچے کو خود ہی لے جانا پڑے گا… سو اگلے ہی لمحے اس لہولہان اور چیختے چلاتے بچے کے ساتھ ہم دو تین کا اسٹاف عازم اسپتال ہوا اور اندازہ تھا کہ پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں ہم وہاں پہنچ جائیں گے۔ بچے کے ناک اور منہ سے بہنے والے لہو کو روکنے کی ممکنہ کاوشیں گاڑی میں بھی جاری تھیں۔ایف الیون سے ایف ٹین کا فاصلہ…ا سکولوں کی چھٹی کا وقت اور چپے چپے پر کھمبیوں جیسے اگے ہوئے وہ اسکول اس وقت قاتل رکاوٹیں لگ رہے تھے جن کے آگے اہم ترین تین رویہ سڑک پر بھی گاڑی تو کجا، ایک موٹر سائیکل تک چلانے کی جگہ نہ تھی۔

ان اسکولوں سے بھاگ بھاگ کر سڑک پار کرنے والے وہ ننھے ننھے بچے گویا موت سے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ گاڑی میں بیٹھے ہوئے بچے کی تڑپ سے دل دہلا جا رہا تھا، اس کے سامنے کے دانت بھی لگتا تھا کہ لٹک رہے ہیں، اس کے چہرے کی طرف دیکھا نہ جا رہا تھا اور اس کا کرب دل سے محسوس ہو رہا تھا، ان سب سے بڑھ کر جو درد ہو رہا تھا … وہ اپنی بے بسی کا تھا۔

کاش کوئی ہیلی کاپٹر ہوتا تو یہ سفر لمحوں میں ہو جاتا!!!!

گاڑی کی گرے سیٹوں پر احتیاط کے باوصف لہو کا رنگ نظر آ رہا تھا اور ہم سب کی ہوائیوں اڑنے لگیں۔ اچھے اچھوں کے حواس ایسے مواقع پر ساتھ دے دیتے ہوں گے۔ دل میں کئی طرح کے خیالات آ رہے تھے، وہ ننھا سا بچہ اگر زیادہ خون بہہ جانے کے باعث… ہم میں سے کسی کے ہاتھوں!!! اس سے آگے کچھ سوچا نہ جا رہا تھا اور جی چاہ رہا تھا کہ اس بچے کو لے کر سڑک کے کنارے پر کھڑے ہو کر لوگوں سے راستے کی بھیک مانگی جائے… جو کوئی اس وقت کسی ٹیلی وژن چینل کا کیمرہ میسر ہوتا تو اس کے ذریعے لوگوں کو دکھایا جا سکتا کہ کیا حالت ہے اس ملک میں لا قانونیت کی!!! اس بچے کے وجود سے بہنے والے لہو کا ایک ایک قطرہ اس بات کا حساب مانگتا کہ کیونکر سی ڈی اے کے احکامات کے باوجود اس اہم ترین سڑک پر تین کلومیٹر کی سڑک پر گیارہ اسکول بنے ہوئے ہیں، جن کی کوئی پارکنگ ہے نہ کھیل کے میدان نہ والدین کے لیے کوئی انتظار گاہ اور نہ ہی ان معصوم  بچوں کے لیے سڑک پار کرنے کے لیے کوئی زیبرا کراسنگ!!!

یوں تو ہمارے ہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے مگر اتنی بڑی بڑی کوتاہیوں کا ذمے دار کون ہے؟

کن لوگوں کی سرپرستی میں یہ سب اسکول کھلے اور چل رہے ہیں؟

اگر سی ڈی اے کی حکم عدولی ہو رہی ہے تو کیا سی ڈی اے کا عملہ رقوم بٹور کر ان کی طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے؟۔ایک اس سڑ ک پر ہی کیا موقوف، جہاں بھی چلے جائیں،ا سکول، بیوٹی پارلرز، ٹیوشن اکیڈمیز اور ڈیزائنرز کے کاروبار ہیں۔ کہیں گھروں میں ریسٹورنٹ بھی کھلے ہوئے ہیں اور کہیں غلط قسم کے دھندے بھی چل رہے ہیں۔ اتنا سب کچھ ہو رہا ہے اور ہم سب آنکھیں بند کیے دیکھتے اور احتجاج تک نہیں کرتے۔ جو لوگ ان کاروباروں کو چلا رہے ہیں ان کے پاس تو ضمیر نام کی کوئی چیز غالباً نہیں مگر جو لوگ ان کاروباروںکی سرپرستی کر رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر بے ضمیر اور کھوکھلے انسان ہیں۔

ان میں انسانیت کا عنصر کم ہے، حیوانیت زیادہ کہ جس کی جبلت کے اپنے مفادات ہوتے ہیں!!!کیونکر کسی رہائشی علاقے کا سکون ان لوگوں کو غارت کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے، ان سے ملحقہ گھروں کے سامنے گاڑیوں کے پارک ہونے سے ان لوگوں کو کتنی مشکلات کا سامنا ہو تا ہو گا اور یقینا ان لوگوں کو شکایات بھی ہوں گی، مگر ان شکایات کے سننے کو کان کوئی نہیں…پانچ منٹ کا راستہ طے کرنے میں تیس منٹ سے بھی زائد کا وقت لگا اوراس وقت میں اس بچے کے ساتھ کیا ہوا ہو گا، ہماری تمام کوششوں کے باوجود ہم اس سارے وقت میں اس کا لہو بہنے سے نہ روک سکے تھے۔

اسپتال پہنچتے ہی اس کے والدین سے بھی ملاقات ہو گئی جو ہماری طرف سے پریشان ہو رہے تھے اور اس بات پر ناراض کہ اسکول کی طرف سے کیسی غفلت کا اظہار کیا گیا تھا، انھیں لاکھ صفائیاں دیں مگر یقین کسے… بچے کو فوراً ایمرجنسی میں لے جا کر اس کے زخموں کو صاف کر کے ٹانکے لگائے گئے اور مزید اس کے ٹیسٹ وغیرہ کے لیے اسے بھجوا دیا گیا، اس کے بعد اسے دانتوں کے ڈاکٹر کو دکھانا تھا۔غروب آفتاب کا وقت ہو گیا تھا، اللہ نے ہمیں کسی بڑی پریشانی سے بچا لیا تھا مگر جس سارے مقدمے کو ہمیں بھگتنا پڑا تھا اس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا۔

یہ تو ایک ذاتی تجربہ ہے اور جس کوفت اور پریشانی کا سامنا ہوا، الفاظ غالباً اس کی منظر کشی میں کامیاب نہیں ہو پاتے مگر اس کے بعد سے سوچ رہی تھی کہ ہمارے ملک کا ہر شہری کسی نہ کسی طرف سے خطرے کی زد میں ہے۔ اس کے لیے موت کے کئی سامان ہیں، ایک لہولہان بچے کے ساتھ ہماری بے بسی دیدنی تھی مگر تصور کریں کہ کوئی دل کا مریض ہو اور اسے اسپتال لے جایا جا رہا ہو… کسی عورت کو کسی ایمر جنسی کا سامنا ہو…مگر شاید ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ایسے واقعات ہوتے رہیں، حادثات کا سلسلہ چلتا رہے تو میڈیا کو چٹ پٹی خبریں ملتی رہیں۔

کچھ عرصہ قبل صدر محترم کے لیے روٹ لگا تو لوگ گھنٹوں اپنی اپنی سواریوں میں پھنسے رہے، نتیجہ کیا ہوا کہ ایک رکشے میں بچے کی پیدائش کا واقعہ رونما ہوا، جو کئی روز تک میڈیا میں زندہ رہا اور ہم سب اس خبر کی باز گشت سنتے رہے۔ اس بچے کے لیے (رکشے میں پیدا ہونے کا کارنامہ سر انجام دینے پر) انعام کا اعلان کیا گیا، یہ خبر بھی میڈیا پر ہم نے سنی اور پھر انعامی رقم کا چیک کبھی کیش نہ ہوا، یہ بھی ایک خبر تھی… سو کون ہے جو خبروں کے ایسے مواقع کو ضایع کرے گا۔ ہر روز ایسی سڑکوں سے ہزاروں لوگوں کا گزر ہوتا ہے جو کسی نہ کسی ایسی جگہ پر ہیں جہاں سے وہ اپنا اثر رسوخ استعمال کر کے ایسے غیر قانونی کاروباروں کو رکوا سکتے ہیں۔

ان علاقوں کے مکین پر امن احتجاج کر کے بھی اپنا نقطہ نظرحکومت پر واضح کر سکتے ہیں … عام شہری تو ان مسائل کا شکار ہو کر بھی ان کو صبر کے ساتھ برداشت کرتا ہے… لکھنے والے اپنے قلم کو استعمال کرتے ہیں کہ غالباً پڑھ کر ہی کسی کے کانوں پر جوں رینگ جائے!!! پڑھنے والے سوچ رہے ہوں گے کہ میں کس حکومت کی بات کر رہی ہوں، حکومت ہے کہاں؟ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ آج کا سوال نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے ذہنوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا اس ملک میں کوئی حکومت ہے…اگر ہے تو کیا کر رہی ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔