جرائم؛ ملکی منظرنامہ اور قومی رویے

مبین مرزا  اتوار 21 جنوری 2018

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

زینب قتل کیس—!
روح لرزہ دینے والا ایک اور واقعہ۔ بربریت، سفاکی اور وحشیانہ پن کی ایک اور اندوہ ناک مثال۔ معاشرے میں انسانی روپ میں گھومتے وحشی جانوروں کی درندگی کا ایک اور الم ناک قصہ۔ پھولوں جیسے اجلے اور فرشتوں جیسے معصوم بچوں کی پامالی کی ایک اور روح فرسا سچی کہانی۔ ثناء خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟ انصاف کے لیے آوازیں اٹھتی ہیں۔

ظلم اور سفاکی کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے۔ نعرے لگتے ہیں۔ شور مچتا ہے۔ مجرم کی سزا اور مظلوم کے ساتھ انصاف کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ عوام کے ساتھ کچھ اہلِ سیاست اور اہلِ اقتدار بھی آملتے ہیں۔ غم و غصے کی یہ فصل دیدنی ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز اس دکھ کو پوری طرح بیان کر رہے ہیں۔ کرنا بھی چاہیے، مسئلہ ہی ایسا ہے۔

بلاشبہ مسئلہ تو ایسا ہی ہے اور اس کا ردِعمل ایسا ہی ہونا چاہیے تھا، لیکن کیا اس سب کا کوئی نتیجہ نکلے گا؟ کیا مجرم پکڑے جائیں گے؟ اگر پکڑے گئے تو کیا انھیں قرار واقعی سزا دی جائے گی؟ کیا مظلوم کو انصاف دیا جائے گا؟ یہ سارے سوال بے جا نہیں ہیں۔ ان کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ یہ پہلا سانحہ نہیں ہے۔ صرف گذشتہ دو سال سامنے رکھ لیجیے تو ایسے درجن بھر سے زائد واقعات ملتے ہیں اور اسی شہر قصور میں ملتے ہیں۔

ہر واقعہ اپنی جگہ لرزہ خیز اور اندوہ ناک ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ جو انسانوں کی غلامی اور خریدوفروخت کے بدترین دور کی یاد تازہ کر دیتا ہے، وہ ہے جس میں کتنے ہی معصوم بچے ایک ہی گھرانے کے افراد کے ہاتھوں جبر و استحصال اور جنسی تشدد کا شکار ہوئے۔ یوں تو ان میں درندگی کا ہر واقعہ پورے معاشرے، پوری قوم کے لیے ذلت کا باعث اور جوہری طاقت رکھنے والی قوم کی عزت کا جنازہ نکالنے کے لیے کافی تھے، لیکن اس گھرانے کے جنسی مریض افراد کا فعل بہت ہی بھیانک تھا۔ انھوں نے جنسی ہوس کے ان واقعات کی فلم بلندی بھی کی۔ مگر کیوں؟ اس لیے کہ بعدازاں ان مناظر سے لطف اندوز ہوا جاسکے یا پھر اس لیے کہ ان فلمز کو وہ مظلوم افراد اور ان کے خاندانوں پر دباؤ اور استحصال کا ذریعہ بنا سکیں۔ خدا کی پناہ۔ یہ سب دیکھ کر تو شیطان بھی شرماتا ہوگا۔

ویسے تو حقیقت یہ ہے کہ لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو جیسی نام ور اور مقتدر شخصیات کے قاتل آج تک پکڑے گئے اور نہ ہی کیفر کردار تک پہنچے ہیں تو بھلا کسی اور کے لیے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ اب رہ گیا شہر قصور کا مسئلہ تو سچ یہ ہے کہ اس بستی کو اگر آج کوئی بھوت نگری یا آسیبی شہر کہے تو غلط نہیں ہوگا۔ یوں لگتا ہے جیسے اس شہر میں کوئی عفریت آبسے ہیں جو تھوڑے تھوڑے دن بعد کچی کلیوں جیسے معصوم بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔

غلاظت اور درندگی کا کھیل کھیلتے ہیں۔ اس بار زینب کے قتل پر زیادہ ردِعمل سامنے آیا اور زیادہ شور ہوا ہے، ہونا بھی چاہیے تھا۔ اس لیے کہ اس سے پہلے جو احتجاج کیا گیا، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ جب بھی آواز اٹھائی گئی تو یہ تأثر ضرور دیا گیا کہ اسے سن لیا گیا ہے، لیکن سب بے فائدہ رہا۔ چناںچہ اس بار ردِعمل اور احتجاج کو دیکھ کر یہ سوال کیا جارہا ہے جو غلط نہیں ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟

اس شور کا پہلا حاصل یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف ظلم کا شکار ہونے والے خاندان سے تعزیت کے لیے پہنچے۔ واقعے پر دلی افسوس کا اظہار کیا۔ فوری اقدامات کی یقین دہانی کرائی۔ واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنا دی گئی۔ علاقہ پولیس کو خصوصی احکامات جاری کر دیے گئے۔ ایف آئی آر پر ہنگامی نوعیت کی کارروائی کا آغاز ہوچکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق تین افراد حراست میں بھی لیے جاچکے ہیں، جن پر جرم سے تعلق کا شبہ کیا جا رہا ہے۔ باقی باتیں تفتیش کے آئندہ مراحل میں طے ہوں گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب اصولی اور فوری طور پر یہی کچھ کر سکتے تھے، سو ہو کر چکے۔

اب سوال یہ ہے کہ جو کچھ انھوں نے کیا ہے، کیا اس پر مظلوم خاندان، بلکہ پورے معاشرے کو مطمئن ہو جانا چاہیے؟ ہرگز نہیں۔ اس لیے کہ جب تک اصل مجرم پکڑا نہیں جاتا اور اسے قانون کے مطابق سزا نہیں ہوجاتی، ان اقدامات کو نتیجہ خیز نہیں کہا جاسکتا۔ اس ضمن میں یاد رکھنے کی بات ایک اور بھی ہے، یہی سارے اقدامات اس کیس میں بھی کیے گئے تھے جو بچوں کے ساتھ جنسی تشدد اور اس گھناؤنے پن کی وڈیو فلمز کے حوالے سے بنایا گیا تھا۔

وزیراعلیٰ نے علاقے کا دورہ کیا تھا۔ متاثرین سے ملے تھے۔ تحقیقاتی کمیٹی بھی بنائی گئی تھی، اور فوری تفتیش کے احکامات بھی جاری ہوئے تھے۔ یہ سب کچھ ہوا تھا، لیکن نتیجہ صفر سے آگے نظر نہیں آتا، دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اب تو اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ مقدمہ اصل میں سیاسی دشمنی کی وجہ سے بنایا گیا تھا، یعنی اس کی کوئی حقیقی اور واقعاتی بنیاد نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ مقدمہ سیاسی دشمنی کے نتیجے میں بنایا گیا یا پھر مجرموں کو سیاسی ریلیف کی آڑ میں بری ہونے کا موقع فراہم کیا جارہا ہے۔

بات صرف اس ایک قتل کے مقدمے کی نہیں ہے۔ ہمارے یہاں ایسے بلاشبہ ہزاروں کیس ہیں جن میں سیاسی بنیاد پر شبہ پیدا کیا گیا اور اس کا پورا پورا فائدہ مجرم کو پہنچا۔ عوام کے حافظے میں ماضیِ قریب کی ایک اور مثال تازہ ہے۔ یہ شاہ زیب قتل کا کیس ہے۔ ابتدا میں اس مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل تھیں جو بعد میں درخورِ اعتنا نہیں سمجھی گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت تمام ملزمان کی ضمانت ہوگئی۔ شاہ رخ جتوئی کی رہائی پر سینئر وزیروں کے خوشی کے اظہار اور مبارک بادی ردِعمل کو دیکھ کر کیا یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اگر قاتل اور مقتول کے خاندانوں میں صلح ہوئی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے۔

اب سول سوسائٹی کی طرف سے اپیل دائر کی گئی ہے کہ ہائی کورٹ نے دہشت گردی کی دفعات خارج کرکے اس مقدمے کو کم زور اور قاتل کو مضبوط بنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس اپیل کو قابلِ سماعت گردانتے ہوئے وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں کو حکم دیا ہے کہ ملزمان کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جائے۔ قاتل کے دفاع کا مقدمہ سینیٹر لطیف کھوسہ اور بابر اعوان جیسے وکلا لڑ رہے ہیں۔ سینیٹر صاحب کا اپنے مؤکل کے حق میں یہ خیال ہے کہ فریقین کے مابین صلح ہوچکی ہے، اس لیے ایسی کسی اپیل کی سماعت کی ضرورت ہی نہیں ہے، جب کہ بابر اعوان کہتے ہیں کہ جن لوگوں کا اس سے تعلق نہیں، وہ درخواست دائر نہیں کرسکتے۔

ان کے نزدیک گویا سول سوسائٹی تھرڈ پارٹی ہے، وہ ایسے کسی مقدمے کا حصہ نہیں بن سکتی۔ اس کے لیے وہ شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہیں کہ عدالت نے اس مقدمے میں تھرڈ پارٹی کی درخواست قابلِ سماعت گردانتے ہوئے حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے کے امکانات بڑھا دیے ہیں۔ لطیف کھوسہ اور بابر اعوان جیسے وکلا کے اس قسم کے دلائل سے عوام کو کم سے کم ایک بات بہ آسانی اور واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں، وہ یہ کہ ہمارے یہاں عدالتی دلائل سے، اخلاقی قدروں، ضمیر کی پکار اور انسانی سچائی سے کیا سروکار رہ گیا ہے۔

عدالتی نظام میں دو چیزیں بڑی بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ ایک قانون کی تشریح اور دوسرے مقدمے کے حق میں نظیر کی فراہمی۔ اچھا وکیل صرف وہ شخص نہیں ہوتا جو قانون کو اچھی طرح پڑھتا اور سمجھتا ہو، بلکہ وہ جو ایسی تخلیقی صلاحیت بھی رکھتا ہو کہ تعبیر و تشریح سے مطلوبہ نکات پیدا کرسکے اور مقدمے کا بنیادی زاویہ اور قاتل و مقتول کی پوزیشن بدل کر رکھ دے۔ شاہ زیب قتل کیس میں اس کا مشاہدہ بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔ اس ایک نظیر کی بنیاد پر آپ ایک دو نہیں، سیکڑوں ہزاروں مقدمات کی صورتِ حال کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

ایک انگریزی مقولے کے مطابق انصاف میں تاخیر انصاف کی نفی کا درجہ رکھتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تاخیر دراصل ناانصافی کے مترادف ہوتی ہے۔ ٹھیک بات ہے، لیکن پچھلے دنوں آپ نے چیف جسٹس صاحب کا بیان بھی پڑھا یا پھر سنا ہوگا کہ سماج میں جرائم، عدالتوں میں دائر مقدمات اور ججوں کی تعداد کا تناسب نکالا جائے تو ایک جج کے حصے میں بیس ہزار سے زائد مقدمات آتے ہیں۔ اس سے ہم عدلیہ کے مسائل اور عدالتوں کی صورتِ حال ہی کا اندازہ نہیں لگا سکتے، بلکہ یہ بھی دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں جرائم کا تناسب کیا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ ساتھ ہی یہ بھی کہ ہماری حکومتوں اور بیورو کریسی کو اپنے عوام کو عدل کی فراہمی سے کتنی دل چسپی ہے۔

اب عدل کی فراہمی کی بات آئی ہے تو آپ کو معزول وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے وہ بیانات بھی یاد آگئے ہوں گے جن میں انھوں نے اظہار کیا کہ انصاف کے حصول کے لیے انھیں کتنی مشکلات کا سامنا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھیں پہلی بار اندازہ ہوا کہ وکیلوں کی فیس کتنی ہوتی ہے اور اس کو ادا کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ وکلا کا طریقِ کار کیا ہوتا ہے۔ ان سب مسائل کو دیکھتے ہوئے وہ نظامِ عدل کو درست یا بہتر بنانے کے خواہش مند ہیں۔ عدالتی نظام کیسے بہتر ہوسکتا ہے، اس کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے اور کیا وہ اقدامات نوازشریف دوبارہ اقتدار میں آئے بغیر کر سکتے ہیں؟ ان باتوں اور سوالوں سے ساب

ق وزیراعظم کی خواہشِ اقتدار کا اظہار ہوتا ہے یا نہیں، یہ سب ایک الگ موضوع کا حصہ ہے۔ البتہ اس گفتگو سے یہ بات ضرور واضح ہو جاتی ہے کہ عدالتی نظام کے مسائل سابق وزیراعظم کے لیے اس قدر پریشان کن ہوسکتے ہیں تو پھر عوام کے لیے کس درجہ تکلیف دہ، بلکہ اذیت ناک ہوں گے۔ اور یہ کہ ہماری حکومتوں اور اشرافیہ نے اس سلسلے میں اب تک کس رویے کا اظہار کیا ہے۔

دوسری طرف چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار بھی اپنے گھر کو منظم کرنے پر کمربستہ نظر آتے ہیں۔ کمرۂ عدالت میں یا تقریبات میں وہ جو گفتگو کر رہے ہیں، وہی نہیں ان کے سوموٹو اقدامات بھی بتارہے ہیں کہ وہ محض نیک خواہش کا اظہار نہیں کر رہے، بلکہ جو کچھ عملاً ان سے ممکن ہے، وہ اس سے گریز نہیں کریں گے۔ لیکن اب اس کا کیا کیجیے کہ یہاں تو پینے کا پانی، ٹریفک کا نظام اور سیوریج کے مسائل سے لے کر غذا، صحت، تعلیم، معاشیات، انتظامات، منصوبہ جات اور اداروں کے باہمی تعلقات تک ہر شعبہ اصلاح طلب ہے۔ ظاہر ہے، یہ سب کام چیف جسٹس (بلکہ پوری عدلیہ) کے بس کے نہیں ہیں۔ کسی بھی ملک کے استحکام اور قومی ترقی کے لیے مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ تینوں ادارے بنیادی ستونوں کی حیثیت رکھتے ہیں، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان جیسے حالات سے دوچار ملک کے لیے تو فوج بھی چوتھے ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔

ان چاروں اداروں کو ملکی مفاد کی حکمتِ عملی کے لیے ہم آہنگی اور یک جہتی کے ساتھ منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور تمام تر اقدامات میں اسے پہلی ترجیح کے طور پر پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ یہ بات بنیادی اور اہم ترین اصول کا درجہ رکھتی ہے۔ تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھے جاسکتے ہیں کہ دنیا میں جن قوموں نے ترقی کی ہے اور آج بھی ہم جنھیں مستحکم حیثیت میں دیکھتے ہیں، ان کے قومی سفر میں ہم آہنگی، یک جہتی اور قومی مفاد کے ترجیحی نظام کا سب سے زیادہ عمل دخل نظر آتا ہے۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا ہمارے یہاں بھی ایسا ہو رہا ہے؟

افسوس کے ساتھ ہی سہی، لیکن ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارا ملکی منظرنامہ اور قومی رویہ دونوں ہی اس کے برعکس صورتِ حال پیش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں اس وقت قومی طرزِاحساس کا گراف بہت نیچے آچکا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہماری قومی حمیت اب بھی بہت جلد بیدار ہو جاتی ہے، آفاتِ سماوی و ارضی کے کسی بھی موقعے پر ہمارے یہاں افراد اور ادارے فوری ہم آہنگی اختیار کرکے مسائل سے نمٹنے میں جٹ جاتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر پیدا ہونے والی کسی بھی ناگوار صورتِ حال پر ہمارا اجتماعی ردِعمل ہماری یک جہتی کی غمازی کرتا ہے، ہمارا قومی شعور مختصر ترین وقت میں نہ صرف مربوط صورت میں سامنے آتا ہے، بلکہ کراچی سے خیبر تک اپنے اثرات کا اظہار بھی کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمیں سچائی سے اس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے یہاں جوڑنے والی قوتیں تیزی سے کم زور ہوتی جا رہی ہیں اور توڑنے والے عناصر اس سے بھی زیادہ رفتار اور قوت کے ساتھ فروغ پا رہے ہیں۔ ہم ایک کثیر ثقافتی اور کثیر لسانی قوم ہیں اور آزادی کے پہلے دن سے ہیں۔ ایک مشرقی پاکستان کے سانحے سے قطع نظر ہمارے قومی شعور نے ہمیں جوڑے رکھنے میں ہمیشہ بنیادی کردار ادا کیا ہے، لیکن اب صورتِ حال خاصی بدل چکی ہے اور مزید بدل رہی ہے۔

دنیا کی نئی جنگی حکمتِ عملی اب یہ ہے کہ فروغ پاتی، ترقی کرتی اور مستحکم ہوتی ہوئی قوم کے اندر انتشار اور فسادی عناصر کو پروان چڑھایا جائے۔ تفرقہ پھیلایا جائے، اختلاف کو ہوا دی جائے، باہمی عدم اعتماد کا راستہ کھولا جائے اور نفرت کے اظہار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ اس کے لیے گروہی، علاقائی، لسانی، ثقافتی، مذہبی اور سیاسی ہر ممکنہ میدان کو استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ حربہ بہت مؤثر ثابت ہوا ہے۔ اصل میں مابعد جدید عہد کے بارے میں اصرار کیا جاتا ہے کہ یہ پوسٹ کولونیل دور ہے۔ اس مابعد نوآبادیاتی تناظر میں اس نقطے کو بھی ابھارا جاتا ہے کہ یہ پوسٹ نیشنلزم کا دور ہے۔ گویا قومیت کا تصور گزرے ہوئے زمانے کی چیز تھا۔ اب اس کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی خاص ضرورت۔ اس کے لیے سب سے اہم دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پیورٹنزم خود شاونزم کا مظہر ہے۔

اب زبانیں، ثقافتیں اور تہذیبیں ایک دوسرے میں نفوذ کر رہی ہیں۔ اس کے لیے کاسمو پولیٹین شہروں کی ثقافتی، سماجی اور سیاسی زندگی کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ذرا غور کیا جائے تو جدید عہد کا سب سے اہم ایجنڈا یک رنگ دنیا کی تشکیل ہے۔ تاہم یہ ایک الگ اور تفصیل طلب بحث ہے جس کا یہ موقع نہیں۔ خلاصہ بس یہ ہے کہ دنیا کے سارے وسائل اور ذرائع پر قبضے کی خواہش رکھنے والی قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ دنیا کی ساری آبادی ایک رنگ اور ایک مزاج کی ہو کر روبوٹ جیسی زندگی گزارنے لگے۔ دنیا بھر میں کولا اور برگر کا فروغ ایسی اسکیم کا بنیادی حصہ ہے۔ اس ہدف کے حصول سے نہ صرف کاروبار سکڑ اور سمٹ کر مقتدر قوتوں کے قابو میں آجائے گا، بلکہ تہذیبوں کا انہدام دنیا کی آبادی کو ایک مشینی زندگی کے سانچے میں بھی ڈھال دے گا۔ یوں اس انسانی ریوڑ کو ایک انداز سے باآسانی ہانکا جاسکے گا۔ خیر، اس پر آئندہ کبھی بات کریں گے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے وہ قومیں آسان ہدف ثابت ہو رہی ہیں جو کثیر ثقافتی کثیر لسانی تناظر رکھتی ہیں۔ ہمارے جیسے ملک تو اب بہت ہی آسان ہدف بن چکے ہیں جہاں سیاست، مذہب، زبان، گروہ اور ثقافت سب کو تفرقے اور منافرت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اب آپ اس بچی زینب کے قتل کے واقعے کو دیکھ لیجیے۔ یہ نہایت افسوس ناک واقعہ ہے، لیکن اس پر جس طرح ہمارے یہاں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی گئی، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔

اصل میں ہمارے یہاں اہلِ سیاست ہر مسئلے اور ہر واقعے کو اب اپنے ووٹ بینک کا ذریعہ سمجھنے لگے ہیں۔ پہلے سیاست میں لوگ اپنے کام اور کردار سے پہچانے جاتے تھے، اب طریقہ یہ چل پڑا ہے کہ دوسروں کی کردار کشی سے اپنی شہرت اور مقبولیت کا راستہ نکالا جائے۔ اس کے لیے اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ کے نام سے لے کر زینب جیسی معصوم بچیوں کے قتل کے واقعات تک سب کچھ استعمال ہو رہا ہے۔

قتل کا ہر واقعہ خواہ اس کا محرک اور طریقہ کچھ بھی ہو، غیر مشروط طور پر قابلِ مذمت ہے۔ اس کا نوٹس لیا جانا چاہیے، عوامی ردِعمل کا اظہار ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ ایسا ہر اقدام بجائے خود قومی شعور کا اظہار ہوگا— لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام کو یہ بھی دیکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ ان کی قوت کو خود ان کے اجتماعی وجود کے خلاف تو استعمال نہیں کیا جارہا۔ اگر عوام اس شعور کو بروے کار نہیں لائیں گے تو ہمارے قومی انہدام کی سازشیں خدانخواستہ کامیابی سے ہم کنار ہوجائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔