حضرت مریم ؑ کے گاؤں سے کینیڈا تک

تزئین حسن  اتوار 21 جنوری 2018
ہجرت در ہجرت کرنے والا ایک فلسطینی خاندان دردناک داستان سناتاہے۔ فوٹو: فائل

ہجرت در ہجرت کرنے والا ایک فلسطینی خاندان دردناک داستان سناتاہے۔ فوٹو: فائل

اس سال کینیڈا میں موسم بہار جلد آ گیا تھا، سبزے کی چادر نے معمول سے پہلے ہی برف کی جگہ لے لی تھی۔

درختوں سے کونپلیں پھوٹ رہی تھیں، خود رو پھولوں نے گھاس سے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ میں گاڑی سے اتری تو ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔ چہرے پر مسکراہٹ لئے 28 سالہ اویس موئید نے دروازہ کھولا۔ اندر داخل ہونے کے بعد پہلی چیزجس پر نظر پڑی وہ گنبد صخرہ کا جہازی سائز پورٹریٹ تھا جس نے داخلی لاؤنج کی دیوارکو بہت حد تک گھیرا ہوا تھا۔ اویس کی والدہ حیات نے گلے لگا کر روایتی عرب انداز میں استقبال کرتے ہوئے میرا منہ تین مرتبہ چوما۔

اس خاندان سے میری ملاقات مقامی تھیٹر میں یوکرائن کی لوک ڈانس پرفارمنس کے موقع پر ہوئی۔ میری ناقص عربی اور انکی ٹوٹی پھوٹی انگریزی کے باوجود ہم ایک دوسرے کی بات سمجھنے میں کسی طرح کامیاب ہو گئے۔ خاندان کے سربراہ اویس کے 56 سالہ والد احمد موئید نے بتایا کہ ہمارا خاندان کئی مرتبہ ہجرت کر چکا ہے۔

جولائی 1948ء کی ایک شام اسرائیلی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں اویس کے پر دادا کو اپنے بیوی، بچوں اور دیگر تمام گاؤں والوں کے ساتھ فلسطین میں اپنا گاؤں صفوریہ اچانک چھوڑنا پڑا۔ 1948ء میں پیش آنے والے ان خون آشام واقعات کو فلسطینی نقبہ (بمعنی تباہی) کا نام دیتے ہیں، دنیا اسے پہلی عرب اسرائیل جنگ، جبکہ صیہونی اسے اسرائیلی ریاست کا قیام کہتی ہے۔

صفوریہ: حضرت مریم علیہا السلام کا گاؤں
اس خاندان کا آبائی گاؤں ’صفوریہ‘ قرآن مجید میں مذکور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم علیہاالسلام کی جائے پیدائش کے طور پر معروف ہے۔ یاد رہے اب اسے سرکاری طور پر اسکے عبرانی متبادل Tzippori کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ فلسطین کے معروف شہر ناصرہ(Nazareth) سے صرف چھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ قدیم زمانوں سے یروشلم کے تجارتی اور عسکری راہداری کا حصّہ رہا ہے۔ قرآن میں عیساؤں کے لئے نصاریٰ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اسکا ماخذ ناصرہ نامی شہرہی ہے۔ بائبل کے عہد نامہ جدید کے مطابق ناصرہ وہی شہر ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنا بچپن گزارا۔

ابھی بات چیت شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ اویس نے اپنا فلسطینی گاؤں دکھا نے کی دعوت دی۔ ایسا لگا کہ وہ بہت دیر سے ریموٹ ہاتھ میں پکڑے اس لمحہ کا انتظار کر رہا ہے۔ ہمارے سامنے سکرین پر عثمانوی اور صلیبی قلعہ، وسیع رومی و یونانی تھیٹر کے کھنڈرات،ایک خانقاہ کے ساتھ ایک قدیم مندر، گاؤں کے یونانی، رومی، صلیبی، ادوار کے شاندار ماضی کی داستان سنا رہے تھے۔ مندر کی دیواروں اور فرش کے ٹائلوں پر تیسری صدی سے لیکر چھٹی صدی عیسوی تک کے رومی ادوار کے موزائیک پر روز مرّہ زندگی کے مناظر کی تصویر کشی، بازار میں خرید و فروخت، گھڑ سواری اور شکار کے نقش و نگار، فرش پر ایک بہت حسین خاتون کی تصویر(اس تصویر کو صفوریہ کی مونا لیزا بھی کہا جاتا ہے) آج بھی بہت بہتر حالت میں ہے، گلیوں میں پتھر کا فرش رومی تھیٹر کی موجودگی، اس قصبے کی تاریخی اور سیاسی اہمیت کی گواھی دے رہی تھی۔

ایسا لگتا ہے کہ رومی ادوار کے بعد یہ اہم شہر کسی وجہ سے اپنی تاریخی اہمیت کھو بیٹھا اور عثمانوی ادوار تک ایک گاؤں میں تبدیل ہوگیا تھا۔ بائبل کے بیان کے مطابق صفوریہ میں کنواری مریم کے ماں باپ اینا اور جوشیم رہتے تھے۔ اسی شہر میں توریت کو پہلی مرتبہ تیسری صدی عیسوی میں اس وقت قلمبند کیا گیا جب یہودیوں پر رومیوں کے ظلم و ستم کی وجہ سے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ ڈر پیدا ہوگیا کہ یہ بکھرے ہوے صحیفے اور سینہ بہ سینہ روایا ت کہیں ضائع نہ ہو جائیں۔ توریت کی اس پہلی باقاعد ہ ترتیب کو مشناہ کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری صدی میں جب یہودیوں نے رومیوں کے خلاف بغاوت کی تو یہ قصبہ فلسطینی یہودیوں کا سیاسی گڑھ بن گیا۔

اویس کے والدین 1948 ء کے بہت بعد شام کے شہر دمشق میں پیدا ہوئے، اس لیے وہ خاندان کے فلسطین چھوڑنے سے متعلق حتمی طور پر کچھ بتانے سے قاصر ہیں مگر شام میں مقیم ’ام فتوح‘ نامی پیرانہ سال خاتون کا تعلق بھی صفوریہ نامی گاؤں سے ہے۔ وہ From Saffuriya to Yarmouk Camp نامی ڈاکومنٹری فلم میں جولائی 1948ء میں اسرا ئیلی حملے کی بابت بتاتی ہیں:’’ رمضان کا مہینہ تھا، میں بچے اپنے خاوند کے پاس چھوڑ کر پڑوس میں اپنے میکے آئی ہوئی تھی۔ ہم ابھی افطار سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ آسمان پر اسرائیلی جیٹ نمودار ہوئے، ہمیں پتہ تھا کہ یہ بمباری کریں گے۔

مجھے سب سے پہلے اپنے بچوں کا خیال آیا اور میں اپنے گھر کی طرف بھاگی۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئی تھے کہ گاؤں کے رہائشی مرکزمیں تین بم گرائے گئے۔ گاؤں کا ہر فرد اپنے گھر سے نکل کر بچوں کو گھسیٹتا ہوا باہر بھاگا۔ ہم نے اپنے باغ میں انجیروں اور اناروں کے درختوں کے نیچے پناہ لی کہ بمباری رکے تو واپس گھر جائیں مگر بمباری رکنے کے بجائے اسرائیلی ٹینک گاؤں میں گھس آئے۔ ہمیں پھر جان بچانے کے لئے بھاگنا پڑا۔ ہم زیتون اور انجیر کے درختوں کے جھنڈ سے ہوتے ہوئے جان بچانے کے لیے بھاگے اور ایک زیتون کے باغ میں پناہ لی، صبح کے وقت شیخ سالم (ناصرہ ڈسٹرکٹ کا میئر) کی بیوی نے بچوں کا دودھ گرم کرنے کے لئے جیسے ہی آگ جلائی، اسرائیلی فوجیوں نے قلعہ کی طرف سے شیلنگ شروع کر دی۔ ہمیں پھر بھاگنا پڑا، مکئی کے کھیتوں سے گزرتے ہوئے ہم بار بار منہ کے بل گرتے، میرا بیٹا حسین میری گود سے گرگیا۔

میں نے اسے کالر سے پکڑ کر گھسیٹا شروع کیا۔ میرا بیٹا فتحی چار سال کا تھا اور ننگے پیر تھا۔ ہم نے پہلی رات ’الرم‘ نامی گاؤں میں گزاری۔ گاؤں والوں نے ہمارے لیے رات کا کھانا تیار کیا۔ ہم سونے کے لیے لیٹے ہی تھے کہ ہمارے میزبانوں نے اپنا سامان سمیٹنا شروع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب صفوریہ (جو ڈسٹرکٹ کا سب سے بڑا گاؤں ہے) صیہونیوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکا تو ہم کیسے ٹھہریں گے۔ ہم بھی ان کے ساتھ دوبارہ چلنے لگے۔ ہم ساری رات چلتے رہے، دوسرے دن دوپہر کو ہم لبنان کے شہر جبیل پہنچے۔‘‘

اسرائیلی حملے کے جواب میں کچھ گاؤں والوں نے مزاحمت بھی کی اور اسلحہ بردار گاڑیوں کو تباہ بھی کیا مگر جدید اسلحہ اور جیٹ طیاروں سے مزین اسرائیلی آرمی کے خلاف مزاحمت جلد دم توڑ گئی اور تمام آبادی کو سات لاکھ دوسرے فلسطینیوں کی طرح ہجرت کرنی پڑی۔

فلسطین پر پہلا حق کس کا؟ صیہونیوں کے بیان کے مطابق فلسطین میں بنی اسرائیل کی تاریخ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عراق سے کنعان ہجرت تک جاتی ہے مگر اسرائیلی امن ایکٹوسٹ اور صحافی یوری ایونری جو اپنی جوانی میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ساتھ 1948 ء میں فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں حصہ لے چکے ہیں، کا کہنا ہے کہ اگر یہ ’’پہلے کون‘‘ کا تنازع تھا تو یہ دیکھنا ہوگا کہ کنعانی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آمد سے پہلے یہاں رہتے تھے وہ اب کہاں ہیں؟

اپنے ایک مضمون Whose Acre میں وہ لکھتے ہیں کہ خود اسرائیل کے دوسرے صدر یتزک بن زیوی کی تحقیق کے مطابق فلسطین کی سر زمین کی آبادی تاریخ کے ابتدائی زمانوں سے لے کر انیسویں صدی کے اواخر تک صیہونی بستیوں کے قیام تک تبدیل نہیں ہوئی تھی۔کنعانی آبادی، بنی اسرائیل(حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد جو بعد ازاں یہودی کہلائے) کے ساتھ مدغم ہوئی اور یہودی ہوگئی، رومی سلطنت میں عیسائیت پھیلنے کے بعد یہ عیسائی ہوگئے۔ دور فاروقی کی مسلم فتح کے بعد آبادی کی اکثریت نے اسلام قبول کیا اور عرب کلچر، زبان کو اپنا لیا۔ یوری اونری کے مطابق یورپ کے اشکنازی یہودیوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت سے پہلے یہاں جو عربی بولنے والے یہودی، عیسائی اور مسلمان آباد تھے وہی در اصل اس سرزمین کے اصل وارث تھے۔ اسرائیل اور فلسطینی تنازع میں اسرا ئیلی حملے سے پہلے صفوریہ گاؤں کی پوری آبادی عربوں پر مبنی تھی۔ 1931ء کی برطانوی مردم شماری کے مطابق اس گاؤں کی آبادی 4550 تھی۔

گفتگو ابھی جاری تھی کہ حیات پھلوں کی ٹرے لئے نمودار ہوئیں، احمد نے بتایا کہ صفوریہ کی بیشتر آبادی زراعت سے وابستہ تھی، یہاں گیہوں، باجرہ اور متعدد پھلوں کی کاشت ہوتی تھی۔ اس کے دادا بھی فلاح یعنی کسان تھے اور ان کی مختصرسی زمین پر انار اور زیتون کے درخت تھے۔

مؤید خاندان کی طرح ام فتوح بھی کبھی واپس فلسطین نہ جا سکی کیونکہ اسرایئلی حکومت کے نئے قوانین کے مطابق 1948 ء میں فلسطین چھوڑنے والے درانداز( Infiltrator ) قرار دئیے گئے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اپنی اور  بچوں کی جان بچانے کے لئے فلسطین چھوڑا۔ قانون کے مطابق بارڈر سیکیورٹی فورسز کے علاوہ عام اسرائیلی شہری کو مسلح کر کے یہ حکم دیا گیا تھا کہ کوئی بھی درانداز سرحد پار کرکے فلسطین میں داخلے کی کوشش کرے تو اسے گولی مار دی جائے۔

مگر کچھ سر پھرے ایسے بھی تھے جو حالات بہتر ہونے کے بعد کسی طرح واپس پلٹنے میں کامیاب ہو گئے۔ صفوریہ ہی کا رہائشی اٹھارہ سالہ طٰہٰ محمد علی ان ہمت والوں میں سے ایک تھا جو اپنے خاندان سمیت ننگے پاؤں لبنان کا سفر کرنے کے ایک سال بعد دوبارہ اپنے گھر پلٹا تو حیرت اور صدمہ سے دوچار ہوا،اس قدر کم عرصہ میں نہ صرف اسرائیلی فوج نے ان کے تمام گھروں کو مسمار کردیا گیا تھا بلکہ زیتون، انار، انگور، بیر، اور انجیر کے درختوں کو صاف کر کے وہاں کانٹے دار درخت لگا دیئے اور پورے گاؤں کے گرد باڑ لگا کر اسے ’ ممنوعہ فوجی علاقہ ‘ قرار دیدیا تھا جہاں بغیر اجازت داخل ہونے والے کو بلا جھجھک گولی ماری جا سکتی تھی۔ ایسا صرف صفور یہ کے ساتھ نہیں بلکہ پورے فلسطین کے530دیہاتوںمیں کیا گیا۔

گھروں کو مسمار کرنا سمجھ آتا ہے مگر پھلدار درختوں کو کیوں گرایا گیا؟ اس کا جواب ناصرہ شہر میں مقیم برطانوی اور اسرائیلی مصنف جونا تھن کوک دیتے ہیں جو فلسطینی اسرائیلی تنازع پر تین کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت اس بات کو یقینی بنانا چاہتی تھی کہ فلسطینی واپس نہ آ سکیں۔ دراندازی کا قانون اور گھروں کو مسمار کرنے کے بعد بھی اس بات کا امکان تھا کہ مہاجرین واپس آ کر پتھر کے ان گھروں کو دوبارہ تعمیر کر لیں گے اور درختوں کو خوراک کے طور پر استعمال کریں گے، اس لئے انہیں مکمل طور پر صاف کرکے یہاں ایسے درخت لگائے گئے جنہیں خوراک کے طور پر استعمال نہ کیا جا سکے۔

موئید خاندان کسی طرح لبنان سے ہوتا ہوا شام پہنچا، اویس کے دادا یہیں بڑے ہوئے اور اس کے والدین جو ایک دوسرے کے چچازاد ہیں دمشق میں پیدا ہوئے۔ بعد ازاں یہ دمشق میں موجود فلسطینی مہاجرین کے لیے بسائے گئے شہر یرموک کیمپ منتقل ہو گیا۔

یرموک کیمپ میں زندگی
یہ شہر ’مخیم الیرموک‘ یا ’یرموک کیمپ‘1960 کی دہائی میں بشار الاسد کے باپ حافظ الاسد نے دمشق کے نواح میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے بسایا۔ نام سے یہ خیموں کی کوئی بستی محسوس ہوتی ہے مگر احمد اویس کا کہنا تھا کہ یہ جدید سہولتوں سے مزین شہرتھا۔ اس میں متعدد سرکاری تعلیمی ادارے، چار بڑے ہسپتال موجود تھے جن میں سے ایک میں تھیلیسیما کا علاج بھی ہوتا تھا۔ یہاں کے رہائشیوں میں ڈاکٹرز، انجنئیرز سے لیکر بس ڈرائیورز تک شامل تھے۔

احمد خود بس چلاتا تھا اور سعودی عرب تک جا چکا تھا۔ مغربی ذرائع ابلاغ بھی گواہی دیتے ہیںکہ گو یرموک کیمپ ایک خیمہ بستی کہلاتی ہے مگر یہاں خیمے یا کوئی جھونپڑ پٹی نہیں۔ یہ ایک رہائشی علاقہ ہے، خوبصورت سیلونز اور انٹرنیٹ کیفوں سے مزین۔ اویس کی والدہ حیات کا کہنا تھا کہ ’سن2011 میں بشارالاسد کے خلاف بغاوت شروع ہونے سے قبل اس کی آبادی ایک لاکھ ساٹھ ہزار تک چلی گئی تھی۔ یوں تو فلسطینی مہاجرین مشرق وسطیٰ، یورپ اور نارتھ امریکا سمیت تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں مگر دمشق کے نواح میں یرموک کیمپ کو اس ہجرت کے تناظر میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہاں کے باشندوں نے اپنے فلسطینی گاؤں کے ناموں سے دکانیں، ریسٹورنٹ، اسکول اور ہسپتال کھولے۔ شام میں ان فلسطینی پناہ گزینوں کو اعلیٰ تعلیم اور نوکریوں سمیت شامی کی مقامی آبادی جیسے ہی حقوق حاصل تھے‘۔

فلسطین کے 500 سے زائد گاؤں اب دنیا کے نقشے پر موجود نہیں لیکن تعجب کی بات یہ تھی کہ یرموک کیمپ میں ان کا نام زندہ تھا۔ ارض فلسطین کا ہر گاؤں کسی خاص چیز کے لئے معروف تھا۔ راقم کو ایڈمنٹن میں شام سے ہجرت کرنے والی اس کی ایک فلسطینی دوست نے امینہ نے بتایا کہ اس کی فلسطینی والدہ اسے بتاتی تھیں’ صفوریہ گاؤں کی شہرت ختنہ کرنے والے افراد کے حوالے سے تھی۔‘ یرموک کیمپ ہی میں اویس کے والدین نے شادی کی اور یہیں اویس اور اس کے تین بھائی بہن پیدا ہوئے۔

عرب سپرنگ
نام نہاد عرب اسپرنگ کی ابتداء میں شام میں مقیم فلسطینی بشار الاسد کے ساتھ تھے۔ ان کی پی ایل او کی فوج نے بشار الاسد کا ساتھ دیتے ہوئے باغیوں کے خلاف یرموک کیمپ کا دفاع بھی کیا۔  شام اور مشرق وسطیٰ کے فلسطینیوں نے عرب سپرنگ کے آغاز میں فلسطین واپس جانے کے لئے سوشل میڈیا پر ایک مہم چلائی اور ایک خاص تاریخ کو شام اور فلسطین کے بارڈر پر جمع ہونے کی منصوبہ بندی کی۔ فیس بک نے اس مہم کے پیج کو بلاک کر دیا، اس کے باوجود لیکن بڑی تعداد میں فلسطینی بارڈر پر پہنچے، انھوں نے سرحد پار کرکے فلسطین پہنچنے کی کوشش کی۔

سرحد پر اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔ یہ ہجوم واپس یرموک کیمپ پہنچا تو کسی نے پی ایل او کے دفتر پر فائرنگ کر دی۔ فائرنگ کس نے کی یہ معلوم نہ ہو سکا مگر فلسطینیوں کا غصّہ اسرائیل سے بشار الاسد کی طرف مڑگیا اور وہ بشار کے مغربی حمایت یافتہ باغیوں کے ساتھ مل گئے۔ نتیجے میں شامی فوج اور باغیوں کے درمیان تصادم کے دوران 2012 ء میں خاندان کو ایک بار پھر ہجرت کرنا پڑی ،اب ان کی منزل لبنان کا شہر صیدون تھا۔ صیدون میں اویس اور احمد نے ایک ٹشو پیپر فیکٹری میں بارہ بارہ گھنٹے کام کرکے گزارا کیا۔ یہ موئید خاندان کی دوسری ہجرت تھی جو انہیں شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے کرنی پڑی۔آخر کار احمد کے بھائی نے جو کینیڈا میں مقیم تھے انہیں کینیڈا کے لئے سپانسر کیا، یوں یہ شامی مہاجرین کے اولین جہازوں کے ساتھ کینیڈا میں وارد ہوئے۔ احمد کا کہنا ہے کہ کینیڈا میں امن ہے اس لئے وہ لوگ یہاں خوش ہیں۔

48 سالہ حیات اپنے بہن بھائیوں اوروالدہ کو یاد کرتی ہے جو اب زیادہ تر سویڈن جرمنی منتقل ہوگئے ہیں، انکا کہنا ہے’ہمار سارا خاندان تتر بتر ہوگیا۔‘

چار نسلوں اور متعد بار ہجرت کے بعد آج بھی ان کے گھر میں گنبد صخرہ کی جہازی سائزتصویر اس بات کا ثبوت تھا کہ یہ خاندان 70 دہائیوں بعد بھی اپنے آبائی وطن فلسطین کو نہیں بھول سکا، وہ وطن جہاں ان میں سے کسی کو آج تک قدم رکھنا نصیب نہ ہوا۔

طٰہٰ محمد علی لبنان سے واپس آ کر صفوریہ میں تو نہ رہ سکا مگر اس نے ناصرہ میں عیسائی زائرین کے لئے ایک گفٹ شاپ کھول لی۔ اس کی دکان اس چرچ کے برابر میں تھی جہاں عیسائی روایت کے مطابق حضرت مریمؑ عبادت کیا کرتیں اور جہاں حضرت جبرائیل نمودار ہوئے اور انہیں ایک بیٹے کی خوش خبری دی۔ روایت کے مطابق یہیں انھوں نے حمل کے دن گزارے اور یہیں حضرت عیسیٰ ؑکی ولادت ہوئی. یہ چرچ جو Annunciation کہلاتا ہے عیسائی مذہب کی مقدس ترین زیارت گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

طٰہٰ برطانوی میڈیٹ کے دوران صفور یہ میں پیدا ہوا اور اسے سترہ سال کی عمر میں اسرائیلی حملے اور بمباری کی وجہ سے اپنے خاندان سمیت فلسطین چھوڑنا پڑا۔ وہ پڑھا لکھا نہ تھا مگر صفو ریہ اور اپنے گھر کی یاد نے اسے شاعری کرنے پر مجبور کر دیا۔

اپنے گاؤں صفور یہ کے بارے میں اس کی شاعری نے فلسطینی عربوں کے علاوہ ساری دنیا کو بھی متوجہ کیا اور متعدد زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے۔ ایک برطانوی تنقید نگار ادیانہ ہوفمین نے اسے سب سے ’مسرت بخش شاعر‘ کا خطاب دیا۔  بعد ازاں ییل یونیورسٹی امریکا کی ایک یہودی طالبہ نےMy Happiness Bears No Relation To Happiness  کے نام سے اس کی زندگی پر ایک بہت ہی خوبصورت کتاب لکھی جس میں طہٰ کے بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کے سفر کے ساتھ ساتھ عرب فلسطینیوں کی حالت زار کے مختلف ادوار کی تاریخ کو بھی بیان کیا ہے۔

اس طرح یہ صرف ایک سوانح نہیں بلکہ برطانوی عہد سے لیکر فلسطینی عربوں جن میں عیسائی، یہودی اور مسلمان سب ہی شامل تھے، کی پوری تاریخ بیان کی گئی ہے۔ ایک عربسکالر مائیکل سیلز کا کہنا ہے کہ یہ کتاب عرب اسرائیل ٹریجڈی پر لکھی جانے والی پانچ بہترین کتابوں میں سے ایک ہے۔کتاب ابتداء میں ایک ایسے دور کی عکاسی بھی کرتی ہے جب عثمانی دور میں یہ تینوں مذاہب فلسطین میں امن کے ساتھ مل کر رہتے تھے۔ آج تہذیبوں کے تصادم کے شور میں مشرق وسطیٰ کی یہ تاریخ بہت منفرد ہے۔ صیہونیوں کے فلسطین پر مظالم کے خلاف بہت سے انصاف پسند یہودی بھی آواز اٹھاتے ہیں۔ ییل یونیورسٹی کی ادیانہ بھی ان میں سے ایک ہیں۔ طہٰ ناصرہ ہی میں 2011ء میں انتقال کرگیا۔ اس کے کام کو ساری دنیا کے ادبی نقادوں نے سراہا۔

صہیونیوں نے فلسطین کیسے حاصل کیا؟
صیہونیوں نے فلسطین آسانی سے حاصل نہیں کیا۔ آج ’القدس‘، ’القدس‘ چلانے والے مسلمان، اپنے جلسوں اور ریلیوں میں قبلہ اول کے نام پر آنسو بہانے والوں نے کبھی یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ کوئی سنجیدہ تحقیق اس صدیوں پر محیط جدو جہد پربھی کر لی جائے جس کے ذریعے صیہونیوں نے یہ نا ممکن کام ممکن کر دکھایا اور تاریخ کے اس اہم باب سے کچھ سبق سیکھ لیا جائے۔

سن1878 کی عثمانوی مردم شماری کے مطابق فلسطین کی پانچ لاکھ سے کچھ کم آبادی میں87 فیصد عرب مسلمان، نو فیصد عرب عیسائی، تین فیصد عرب یہودی بستے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اندازے کے مطابق یہاں پانچ سے دس ہزار غیر ملکی یہودی بھی آباد تھے۔ یاد رہے کہ یہ مردم شماری یہودی بستیوں کے قیام سے پیشترکی گئی تھی۔

ادھر مشرقی یورپ اور روس میں یہودیوں کیخلاف بد ترین فسادات وقفے وقفے سے سترھویں صدی ہی سے جاری تھے، یہودیوں میں یہ خیال زور پکڑتا جا رہا تھا کہ ان کا ایک علیحدہ وطن ہوتا تو انہیں اس طرح یورپ میں مار نہ پڑتی۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے یورپ کے چند امیر یہودی خاندان اپنی قوم کو اس صورت حال سے نکالنے کے لئے سنجیدہ ہوئے۔ روتھ شیلڈز خاندان کا تعلق یہودیوں کے امیر ترین خاندان سے تھا جو عمومی طور پر بنکر تھے مگر بہت حد تک یورپ کی معیشت پر ان کا اثر رسوخ تھا ان کے تعلقات یورپ کے حکمران خاندانوں سے بھی تھے۔

اس خاندان کا ایک فرد ایڈمنڈ روتھ شیلڈز بینکنگ کے بجائے آثار قدیمہ اور نوادرات خریدنے میں بہت دلچسپی رکھتا تھا۔ نشاۃ ثانیہ کے بعد یورپ کے منظر نامے میں آرٹ کے نمونے اور قدیم تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے نوادرات امراء کے ذوق کی تسکین بھی کرتے اور یہ ایک بہت منافع بخش بزنس بھی تھا۔ یہودی یورپ میں جس مشکل کا شکار تھے اس سے انہیں نکالنے کے لئے ایڈمنڈ نے اپنے نوادرات اور آرٹ کے ذخیرے کو بیچنا شروع کیا اور فلسطین میں زمینیں خرید کر جدید ٹیکنالوجی سے68 بستیاں خریدنا شروع کیں۔

اس نے 1882-83ء میں مشرقی یورپ کے پسے ہوئے اور فسادات سے متاثرہ 25ہزار یہودیوں کو فلسطین میں بسایا۔ اگلی چند دہائیوں میں اس نے پچیس سے تیس یہودی بستیاں بسائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ زمینیں صیہونیوں کے مقاصد سے لاعلم اور اپنی دھن میں مست عربوں سے ہی کوڑیوں کے مول خریدی گئیں اور ابتداء میں ان بستیوں کو آباد کرنے کے لئے فلسطین عربوں کو سستی لیبر کے لئے استعمال بھی کیا گیا جس سے مقامی غریب لوگوں کو کام ملا۔ شروع میں مقامی عربوں سے بنا کر رکھی گئی لیکن بعد ازاں یورپ سے اشکنازی یہودیوں کی آمد کے بعد مقامی عربوں یہاں تک کہ مقامی یہودیوں کو بھی ان کی آبادیوں سے بے دخل کر دیا گیا۔ ’شوشانہ ممدونی‘ نامی اسرائیلی مصنفہ نے اسرائیل میں بسنے والے عرب یہودیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو اپنی کتاب ’اسرائیلی میڈیا اینڈ فریمنگ آف انٹرنل کانفلکٹ‘ میں موضوع بنایا۔

یہودی بچوں کے لئے اسکول قائم ہونا شروع ہوئے جہاں عبرانی زبان کو دوبارہ زندہ کیا گیا۔ یہ زبان عملی طور پر ختم ہو چکی تھی۔ سوائے چند مذہبی رہنماؤں کے، اسے کوئی نہ جانتا تھا۔ اسے دوبارہ نئے سرے سے جاری کرنا اس قوم کی اپنی بنیادوں سے محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس قوم کی استقامت اور اپنے مقصد سے محبت کی داد دینی پڑے گی۔

یاد رہے کہ انیسویں صدی کے آخر میں فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر زوروں پر تھی۔1914ء تک آبادی میں 82 فیصد مسلمان، دس فیصد عرب عیسائی اور 7.4 فیصد یہودی شامل تھے۔ اس میں عرب یہودیوں اور یورپ سے آئے ہوئے یہودیوں کی کوئی تفریق نہ تھی۔ یاد رہے کہ یہودی آبادی میں وہ اضافہ تقریباً تین دہایوں سے یورپی یہودیوں کی ہجرت کے با عث تھا۔

سن1917ء میں پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کے سقوط کے بعد برطانیہ کو فلسطین کا مینڈیٹ مل گیا۔ برطانوی وزیر اعظم نے روتھ شلڈز کے نام ایک خط میںفلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے لئے برطانوی حمایت کا اعلان کردیا۔ یہ خط بالفور ڈیکلریشن کہلایا۔1917ء سے1948ء تک فلسطین پر برطانیہ کا کنٹرول تھا۔

اس دور میں یورپ سے بہت بڑے پیمانے پر اشکنازی یعنی یورپی یہودی فلسطین منتقل ہوئے خصوصاً 1930ء کی دہائی میں ہٹلر کے اقتدار میں آنے کے بعد۔ جیسے جیسے یورپ میں یہود کے ساتھ مظالم میں تیزی آئی، فلسطین کی طرف ہجرت بھی بڑھتی چلی گئی جسے پہلے سے قائم یہودی بستیوں کی حمایت حاصل تھی۔ برطانوی دور میں اشکنازی یہودیوں نے بہت بڑے پیمانے پر انتظامی اداروں کی بنیاد رکھی جو مستقبل میں اسرائیل کی ریاست کے لئے سرمایہ ثابت ہونا تھے۔ یہود کے مخیر حضرات نے دل کھول کر اپنی قوم کے مستقبل کے لئے پیسہ لگایا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں نے برطانیہ کا ساتھ دیا جس سے انہیں اسلحہ بھی حاصل ہوا اور فوجی تربیت بھی۔

یاد رہے کہ صیہونیوں نے اپنی فوج کی بنیاد 1921ء ہی میں رکھ دی تھی جبکہ فلسطینیوں کو برطانیہ نے نہتا ہی رکھا۔ 1930ء کی دہائی کے اواخر میں فلسطینیوں میں ’القسام‘ کے نام سے ایک مزاحمتی تحریک چلی جسے برطانیہ نے سختی سے کچل دیا۔ جس پلاننگ سے یہودی فلسطین میں بستیاں، ادارے، انفراسٹرکچر کی بنیاد رکھ رہے تھے، یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہٹلر کے ہولو کاسٹ کو فلسطین پر قبضے کے لئے محض بہانہ ہی بنایا گیا ہے۔ شروع میں عرب یہودیوں، عیسائیوں اور عرب مسلمانوں تمام کو روزگار دیا گیا مگر آہستہ آہستہ یورپ سے آنے والے اشکنازی یہودیوں نے ان کی جگہ لے لی۔

اس دور میں یہود نے برطانوی حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کے لئے بڑے پیمانے پر دہشت گردی بھی کی جس کا تذکرہ ان کی اپنی کتابوں میں موجود ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ 1945ء کی مردم شماری کے مطابق فلسطین کی ایک ملین سے زیادہ آبادی میں 16.9 فیصد یہودی، 8.6 فیصد عیسائی اور 73.4 فیصد مسلمان شامل تھے۔ بالآخر 1948ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کا اعلان کر دیا۔ فلسطینیوں نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا لیکن اسرائیلی فوج نے فلسطینی گاؤں پر حملہ کردیا اور سات لاکھ فلسطینیوں کو اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچانے کے لئے فلسطین چھوڑ کر لبنان، شام اور اردن کے علاقوں میں بھاگنا پڑا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔