2017ء میں رونما ہونے والے طبی معجزے

ڈاکٹر رابعہ خرم درانی  اتوار 21 جنوری 2018
شعبہ طب کا مستقبل ڈرامائی طور پر انتہائی تیز رفتاری سے تبدیل ہو رہا ہے۔ فوٹو: فائل

شعبہ طب کا مستقبل ڈرامائی طور پر انتہائی تیز رفتاری سے تبدیل ہو رہا ہے۔ فوٹو: فائل

طب کے شعبے میں کچھ بھی حرف آخر نہیں۔ طب و حکمت ایک مسلسل تغیر پذیر عمل ہے۔

دراصل انسان دنیا میں کسی قسم کا ابتدائی مینوئل ساتھ دے کر نہیں بھیجاگیا جیسے کوئی مینوفیکچرنگ کمپنی اپنی مشینری کے ساتھ کتابچہ مہیا کرتی ہے۔ انسان کی بنائی ہوئی مشین وقت گزرنے کے ساتھ اپنی ساخت تبدیل نہیں کرتی، محض پرانی ہوتی اور تھکتی ہے، اسی لئے اسکے مسائل کا احاطہ ایک کتابچہ بخوبی کرسکتا ہے۔

خالق عظیم کی بنائی ہوئی ارفع مشین ’انسان‘ نے تا قیامت مسلسل تبدیل ہونا اور اندرونی و بیرونی حالات کا سامنا بھی کرنا تھا، بنیادی ماڈل میں نئی تبدیلیاں لاکر اسے حالات کے ساتھ موافق کرنا اور دفاع کے قابل بھی بناناتھا۔ انسان کی بنائی مشین کا ماڈل وقت کے ساتھ تبدیل ہوکر نئی مشین میں ڈھل جاتا ہے جبکہ انسان کا بنیادی ماڈل وہی ہے۔ ہاں! مختلف بیماریوں، موسمی حالات اور واقعات کے نتیجے میں یہی بنیادی ماڈل تغیر اور ارتقا پذیر ہوتا ہے۔

ارتقا کے اس عمل میں واقعات سے سیکھاجاتا ہے، سائنسی علم کے ذریعے تجزیوں کو منطق کی کسوٹی پر پرکھتاجاتا ہے۔ نتائج اخذ کرکے اچھے، برے سبق کشید کئے جاتے ہیں، انسان ان اسباق کو اپنی نسل کی بقا کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ عمل ازل تا ابد جاری و ساری ہے۔اسی تناظر میں طب کے شعبہ میں ہونے والی مندرجہ ذیل اہم طبی پیش رفت کا مطالعہ کیجئے:

ایم ڈی ریفرل اینوئل 2017ء ہیلتھ کیئر ٹیکنالوجی کے ریویو کے مطابق شعبہ طب و دندان سازی کا مستقبل ڈرامائی طور پر انتہائی تیز رفتاری سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اس ریویو کے مطابق مندرجہ ذیل طبی معجزے ہیلتھ کیئر کے شعبے کو حیران کن طور پر انسانی صحت کی بہتری اور رسک کی کمی کی طرف موڑیں گے۔

1۔ ہیلتھ کیئر ایجوکیشن
ڈاکٹرز کسی بھی مرض کو دن کی روشنی جیسی واضح چیز کی مانند دیکھ سکنے سے بیشتر بے شمار چیلنجز سے گزرتے ہیں ، یہ ایک مشکل امر ہے لہذا ڈاکٹروں کی تعداد ہمیشہ ضرورت سے کم ہی رہتی ہے۔ ایک حالیہ اندازے کے مطابق صرف امریکہ میں 96 ہزار مزید ڈاکٹروں کی فوری ضرورت ہے، اس کمی کو کیسے پورا کیا جا سکتا ہے؟ ایک مضبوط قابل اعتماد تھری ڈی ٹریننگ نظام جو مختلف کمپنیز کے پلیٹ فارم سے مہیا کیا جاتا ہے مثلاً تھری ڈی فور میڈیکل، اس سے نوجوان طالب علم ڈاکٹر حقیقی انسانی نعش کو چیرے پھاڑے بغیر ہی بہتر طور پر اناٹومی سیکھ سکتے ہیں۔ یہ روایتی اندازسے بھی زیادہ آسانی اور بہتر طور پر اناٹومی سمجھنے میں مدد دیتا ہے، اسی لیے اسے آگمینٹڈ رئیلیٹی (یعنی بڑھائی گئی حقیقت) کہا جاتا ہے۔

ایک اور نظام جسے ایکوپکسل کہا جاتا ہے ، UCSF کی پیشکش ہے۔ سی ٹی سکین اور ایم آر آئی ٹیکنالوجیز مریض کے اندرونی نظام کی 2 ڈی تصویر دکھاتی تھیں جبکہ مسئلہ تھری ڈی ہوتا تھا، اس لئے اس مسئلے کی تشریح کرنا ڈاکٹر کے لیے مشکل امر تھا۔ ’تھری ڈی امیجنگ‘ میڈیکل فیلڈ میں نئی چیز نہیں لیکن سی ٹی سکین اور ایم آر آئی سے حاصل شدہ 2 ڈی امیجز کو اس تکنیک کے ذریعے نہ صرف تھری ڈی میں تبدیل کیا جاتا ہے بلکہ اس تھری ڈی امیجنگ میں کسی بھی عضو کو الگ کرکے اس کی تمام سائیڈز اور اناٹومی کو سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔ بعینہ مریض کو اس کا مرض سمجھانا اور اس کا طریقہ علاج اور سرجری پلان کرنا بے حد آسان ہو جاتا ہے۔

2۔ طبی مریض تک پہنچنے کا حل
ہیلتھ کیئر سسٹم آج بھی کاغذ قلم دوات کے اصول پر ریکارڈ تیارکرتا ہے، آج کی دنیا میں یہ حیران کن ہے لیکن10 فیصد سے بھی کم ہسپتال ڈیجیٹل میڈیکل ریکارڈ رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مریض تک پہنچنا ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے، صرف 54 فیصد مریض فیکس کے ذریعے اپائنٹمنٹ ملنے کے بعد طبی معائنے کے لیے وقتِ مقررہ پر ظاہر ہوتے ہیں، عموماً ایسا کمیونیکیشن کے نظام کی پیچیدگی کے باعث ہوتا ہے۔ ا

یک مریض کو اپائنٹمنٹ تک لے کے آنا اصل اہم نکتہ ہے نہ صرف مریضوں کی صحت کے لیے بلکہ نظام صحت کی بقاء￿ ، اس سے حاصل شدہ آمدنی اور ریپوٹیشن،نظام انشورنس کی بقاء ، حتیٰ کہ میڈیکل ادویات اور آلات تیار کرنے والی کمپنیز کی بقاء￿ کے لیے بھی مریض کا ڈاکٹر تک وقت مقررہ پر پہنچنا از بس ضروری ہے۔ یعنی جب ایک مریض گھر سے ڈاکٹر تک پہنچتا ہے تو اس کے ہر قدم کے ساتھ بے شمار نظاموں کی بقا وابستہ ہوتی ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ بلآخر مارکیٹ میں ایسے نظام آ گئے ہیں جو مریض کو اس کے متعلقہ ڈاکٹر تک بہترین فوری رسائی دیتے ہیں، اس کے لیے سمارٹ میچ ٹیکنالوجی کا استعمال کیاجارہاہے۔ یہ نظام کسی ایمرجنسی کی صورت میں فوراً ایکٹو ہو کر لیکیج سے بچاتے ہیں، مثلاً ریفرل ایم ڈی، ایپک (Epic) وغیرہ۔

3۔ انسانی سر کی پیوند کاری
سرجیو کنیویرو( Sergio Canevero )، ایک اطالوی نیورو سرجن ہیں۔2017ء￿ میں انسانی سر کی پیوند کاری کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اگرچہ ابھی تک جانوروں کے سر کی پیوندکاری کی کوششیں طویل مدت کے بعد بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوپائیں، اس ناکامی کی بنیادی وجہ حرام مغز کی پیوند کاری میں حائل دشواریاں ہیں،سرجیو نے اس سلسلے میں بہتری کے لیے ایک سپیشل بلیڈ اور پولی ایتھائلین گلائیکول کے استعمال کی تجویز دی ہے۔ PEG حرام مغز کے اعصاب کی بڑھوتری میں مددگار ثابت ہو سکے گا۔

انسانی سر کو ایک مخصوص ترتیب میں اس کے بدن سے جدا کرنا ڈاکٹروں کے لیے اس ڈونر سر کو دوسرے جسم سے ترتیب وار تمام اعصاب اور خون کی شریانیں جوڑنے میں مدد گار ہوگا۔ ایک خاص قسم کی گوند ڈونر اور ریسیپئنٹ کے حرام مغز کو ایک دوسرے سے جڑنے میں مدد دے گی۔ اس دوران مریض کو چار ہفتے کے لیے طے شدہ طبی کومے میں رکھا جائے گا۔ جب تک سر اور جسم کا کنکشن مکمل طور پر جڑ جائے، دو مختلف اجسام کا ایک دوسرے سے جڑنا ہی سب سے غیر یقینی حصہ ہے۔

آج تک مکمل طور پر کٹ چکا حرام مغز کبھی دوبارہ جڑ نہیں سکا۔ کنیویرو کے مطابق اسے درکار تمام ٹیکنالوجی موجود ہے اور اس آپریشن میں اسے 36 گھنٹے تک لگ جائیں گے، اس دوران 150 پروفیشنلز کی ٹیم ا س کے ساتھ کام کرے گی۔ اس کے خیال میں اس عمل کی کامیابی کے امکانات90 فیصد ہیں کہ مریض آپریشن کے چند ماہ بعد اٹھ کر چل پھر رہا ہوگا۔ یہ سب سائنس فکشن جیسا لگتا ہے، ویسے چند سال پہلے تک چہرے کی پیوند کاری بھی سائنس فکشن ہی لگتی تھی۔ اگر انسانی سر کی پیوندکاری کا یہ عمل کامیاب ہوگیا تویہ انتہائی مہنگا ہوگا۔ ابھی اس پروسیجر کے اخلاقی پہلوؤں پر بات ہونا باقی ہے کہ جہاں بے شمار زندگیاں پیوندکاری کے لیے اعضا کی منتظرہوں، وہاں ایک مکمل جسم کسی ایک انسان کو دیدیا جائے!

4۔ کوال کوم ٹری کورڈر اپ ڈیٹ
وہ وقت دور نہیں جب ایسے آلات بنا لیے جائیں گے جو دنوں اورگھنٹوں کی بجائے سیکنڈوں میں مرض کی تشخیص کردیا کریں گے۔ ذرا سوچئے! بغیر تار کے ایسا آلہ جو آپ کی ہتھیلی میں سما سکتا ہو ، آپ کی صحت کو درپیش 13 بڑے مسائل کی تشخیص کر سکتا ہو، انسان کو کب، کہاں اور کیسے علاج کروانا ہے جیسے سوالات کے جوابات بھی دیتاہو۔ جی ہاں! ایسا ہی ایک آلہ جسے ’ٹرائی کورڈر‘ کا نام دیا گیا ہے، تیاری کے مراحل میں ہے۔

5۔ باکس میں دل (گرم خون کی ترسیل کا نظام)
دل کی پیوند کاری ایک کامیاب طریقہ علاج بن چکا ہے، بالخصوص ایسے مریضوں کے لیے جن کا دل بہترین ادویات کے باوجود اچھی طرح کام نہ کر پا رہا ہو۔ بدقسمتی سے دل کی پیوند کاری کے امیدواروں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن دل کے عطیات کی تعداد ایک حد سے زیادہ نہیں بڑھی۔ دنیا میں ہر سال پانچ ہزار سے زیادہ دل ٹرانسپلانٹ کیے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 50ہزار مریض دل کی تبدیلی کے امیدوار ہیں، عطیات کی شدید کمی کی وجہ سے ماہرین صحت دل کی تبدیلی کے درست امیدوار کا چناؤ بے حد احتیاط سے کرتے ہیں۔ سالہا سال سے امریکہ میں دل کے سرجن ڈاکٹر عطیہ شدہ عضو کو ایک سرد محلول میں رکھتے ہیں اور کولر میں اس کی ترسیل کرتے ہیں لیکن اس سارے عمل میں عطیہ شدہ دل کا نقصان ہو سکتا ہے حتیٰ کہ یہ بے کار بھی ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لئے ایک نئی تکنیک سامنے آرہی ہے جس کے ذریعے گرم خون کی ترسیل میں دل مسلسل دھڑکتا رکھا جاتا ہے اور پھیپھڑے سانس لیتے رہتے ہیں، اسی اثنا میں ڈاکٹر عضو کی حفاظت اور ترسیل کا مناسب بندوبست کر لیتے ہیں۔

6۔ لیڈلیس پیس میکرز (بنا تار دل کی دھڑکن برقرار رکھنے والی بیٹریاں)
پیس میکرز1960ء سے ایک طویل سفر طے کرکے 2017ء تک آ پہنچے ہیں، وہ ڈاکٹر ولسن گریٹ بیچ نے حادثاتی طور پر ایجاد کر لیے تھے۔ اگلے پانچ سال تک تمام پیس میکرز یہی سادہ سرکٹ استعمال کرتے رہے۔ آج کے دورمیں میڈٹرانک اور سینٹ جوڈ نامی کمپنیز نے مائکرا اور نینو سسٹم نامی نئے لیڈ لیس پیس میکر بنائے ہیں جن کے سائیڈ ایفکٹس بے حد کم ہیں۔

7۔کینسر کے علاج میں پیش رفت
امریکن کینسر سوسائٹی کے ایک جائزے کے مطابق 2016ء میں کینسر کے 1.5 ملین نئے کیسز رپورٹ ہوئے جونو تھیرا پیوٹکس مریض کے اپنے ٹی سیلز کو جینیٹک انجینئرنگ کے ذریعے اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے ہی جسم میں موجود کینسر کے خلیوں کو پہچان کر ختم کر سکے۔ اس خلیاتی طریق علاج کا مستقبل بہترین نتائج کی امید دیتا ہے۔

8۔تھری ڈی پرنٹڈ ادویات
اس تکنیک کی مدد سے مریض کی عمر، جنس اور نسل کے مطابق اس کے لیے بہترین کارآمد ڈوز میں دوا کی تیاری، ہر مریض کو اسٹینڈرڈ خوراک کی بجائے اس کی بیماری یا بیماریوں کی نوعیت کے مطابق ایک گولی میں مکمل علاج دیا جا سکے گا۔ اس تکنیک سے انفرادی طور پر مریض کے لیے مخصوص ڈوز میں دوا تیار کی جائے گی، اس طرح چند مخصوص خوراکوں کی بجائے ہر مریض کو الگ اور انفرادی شناخت میں دوا دینا ممکن ہو سکے گا۔ دوا کا انہضام جگر اور گردے کی درست کارکردگی پر منحصر ہے۔ تھری ڈی دوا کو مرض کی نوعیت کے عین مطابق ٹارگیٹڈ ڈیلیوری اور مناسب وقت میں مناسب دوا کے اخراج کے حساب سے تیار کیا جا سکتا ہے۔

9۔دل کے لیے ہارمونز کی تیاری
دل کا مرض امریکہ میں اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے، دوسرے نمبر پرکینسر کا نمبر آتا ہے تیسرے نمبر پر سانس کے پرانے امراض ہیں. دل کے فیل ہونے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونے والا ہر چار میں سے ایک مریض اگلا ایک سال مکمل نہیں کرپاتا لیکن ایک نئی دوا سیریلیکسن (Serelexin) نے زندگی کی امید37 فیصد تک بڑھا دی ہے، (ریفرنس: یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو اسٹڈی رپورٹ)۔ یہ ایک قدرتی ہارمون ری لیکسن (Relexin) کا مصنوعی طور پر تیار کردہ متبادل ہے۔ ری لیکسن ایک عورت میں دورانِ حمل دل پر بڑھے دباؤ کو برداشت کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس دوا کو چند تکنیکی وجوہات کی بناء پر فی الحال FDA سے تیاری کی اجازت نہیں دی گئی۔

10۔جوانی کا سرچشمہ
سن 2017ء میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ پچیس سال سے کم عمر جوانوں کا خون عمر رسیدگی کے اثرات کی روک تھام میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سائنسدان اس تکنیک کو ’جوانی کا سرچشمہ‘ کے نام سے تعبیر کررہے ہیں۔

11۔ قابل انجذاب سٹنٹس
ہر سال چھ لاکھ مریضوں کو دل کی شریانوں میں رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے دھاتی سٹنٹس (metal stents ) لگائے جاتے ہیں جس میں سے بیشتر تا عمر جسم میں ہی رہنے دیے جاتے ہیں۔ ابتدائی طور پر اپنا کام کرلینے کے بعد یہ دھاتی سٹنٹس خون کے بہاؤ میں رکاوٹ اور خون کے لوتھڑے بننے کا باعث بننے لگتے ہیں۔ لوگ سوچتے تھے کہ کاش! اپنا کام کر چکنے کے بعد یہ سٹنٹس جسم میں جذب ہو جائیں۔ گزشتہ سال ماہ جولائی میں پہلا قابل انجذاب سٹنٹ امریکہ میں تیار کیاگیا۔ یہ دو سال کے لیے شریان کو کھولے رکھتا ہے جس کے بعد یہ جسم کا حصہ بن جاتا ہے بالکل آپریشن میں لگائے جانے والے ٹانکوں کی طرح۔

12۔ لیکوئڈ بائیوپسی
لیکوئڈ بائیوپسی کہلانے والا ٹیسٹ حقیقی ڈی این اے یا کینسر سے جھڑنے والے خلیے سے علیحدہ شدہ فری کینسر ڈی این اے کی موجودگی کی علامات میں فرق ظاہر کرتا ہے۔ یہ ctDNA ٹیومر کے جھڑے خلیوں سے سوگنا زیادہ مقدار میں دوران خون میں موجود ہوتا ہے۔ تاحال ریسرچ اسٹڈیز جاری ہیں لیکن اس انقلابی کینسر ٹیسٹ کی سالانہ فروخت کا انداز دس بلین ڈالر لگایا جا رہا ہے۔ بے شمار میڈیکل کمپنیاں ٹیسٹ کٹس کی تیاری کے مراحل میں ہیں تاکہ مارکیٹ سے بھاری منافع کما سکیں۔ لیکوئڈ بائیوپسی کو فیڈرل گورنمنٹ کے کینسر مون شاٹ انیشئیٹو کی طرف سے اعلی ترین تکنیک کا خیرمقدم دیا جا رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کینسر کی تشخیص اور علاج ، روٹین کے سالانہ معائنے جیسا آسان ٹھہرے گا۔

(آرٹیکل کی تیاری کے لیے مندرجہ ذیل ویب سائٹس سے مدد لی گئی:
1.getreferralmd.com-future-
healthcare-technology-advances
14th Cleveland clinic’s medical innovation summit)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔