کلین سوئپ ہو گیا، اب کیا بولیں

سلیم خالق  ہفتہ 20 جنوری 2018
ہم بھارت کو گھر کا شیر کہتے ہیں مگر اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے۔فوٹو : فائل

ہم بھارت کو گھر کا شیر کہتے ہیں مگر اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے۔فوٹو : فائل

پہلے میچ میں61 رنز سے شکست، کوئی بات نہیں شاہین سیریز میں کم بیک کریں گے

دوسرے میچ میں8 وکٹ سے ناکامی، ہمیں اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے

تیسرے ون ڈے میں183رنزکی ہار کے ساتھ سیریز بھی گنوا دی، یہ نہ بھولیں اسی ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی

چوتھا مقابلہ 5وکٹ سے ہار گئے، یہی کھلاڑی ملک کا مستقبل ہیں ان پر تنقید نہ کریں

پانچویں ون ڈے میں 15رنز کی ناکامی کے ساتھ سیریز میں وائٹ واش،بس اب بہت ہو چکا، ٹیم کی اور کتنی حوصلہ افزائی کریں، یقیناً اس بات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ گرین شرٹس نے گذشتہ برس بھارت کو مات دے کر پہلی بار چیمپئنز ٹرافی جیتی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب اگلے کئی برس اسی فتح کو یاد کر کے ہارتے رہیں گے، وہ ماضی تھااب حال اور مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔

شائقین پوری سیریز میں کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے، انھیں امید تھی کہ کم بیک ہو گا مگر افسوس اسی انتظار میں پانچوں میچز ہار گئے، جو ٹیم گذشتہ سیریز اسی مارجن سے اپنے نام کرنے میں کامیاب رہی اب اسے اتنی بڑی ہار کا سامنا کرنا پڑا تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔

ہم بھارت کو گھر کا شیر کہتے ہیں مگر اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے، یہ ٹھیک ہے کہ انگلینڈ میں چیمپئنز ٹرافی جیتی مگر وہاں کی پچز بھی بیٹنگ کیلیے سازگار تھیں، نیوزی لینڈ کو پتا تھا کہ ذرا سی باؤنسی یا سیمنگ وکٹیں ہوں ہمارے بیٹسمین بیٹنگ کرنا بھول جاتے ہیں تو انھوں نے اسی بات کا فائدہ اٹھایا، وہ بیٹسمین جو یو اے ای میں ٹیسٹ کے دوران2،2 دن بیٹنگ کرتے تھے کیویز کے دیس میں دوران ون ڈے 2 منٹ تک کریز پر نہیں گذار سکے، بابر اعظم دبئی وغیرہ میں سنچری سے کم بات نہیں کرتے تھے اب کسی میچ میں10 سے زیادہ رنز نہیں بنا سکے اور 5 ون ڈے میں مجموعہ31رہا، جس پر لوگ اب اس خدشے کا شکار ہیں کہ کہیں وہ دوسرے عمر اکمل نہ بن جائیں۔

اظہر علی کو اس آس پر بیٹنگ لائن کا حصہ بنایا گیا کہ وہ ایک اینڈ روک کر رنز بھی بناتے رہیں گے مگر3میچز میں12رنز ہی اسکور کر سکے،محمد حفیظ نے گوکہ 2 نصف سنچریاں بنائیں مگر پہلے بھی ذکر کر چکا کہ دوسرے ون ڈے میں جب وہ آؤٹ ہوئے تو 18.5 اوورز باقی اور وہ ذمہ داری سے کھیل کر ٹیم کا اسکور مزید آگے بڑھا سکتے تھے،اس کے بعد وہ صفر پر رخصت ہوئے اور چوتھے میچ میں پھر81 رنز بنائے، مگر اس میں بھی اگر آخری اوور میں ماردھاڑ نہ ہوتی تو ان کا اسٹرائیک ریٹ خاصا کم ہوتا، جدید دور کی کرکٹ میں انھیں زیادہ مثبت انداز میں کھیلنا ہوگا، ساتھ کارکردگی میں تسلسل لانے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ پانچویں ون ڈے میں پھر6 رنز پر وکٹ گنوا بیٹھے تھے،ایسا محسوس ہوا کہ انھیں ٹیم میں اپنی جگہ محفوظ رکھنے کی زیادہ فکر ہے جو بولنگ پر پابندی کے سبب خطرے میں پڑ چکی۔

اسی طرح شعیب ملک کی مشکلات بھی بڑھتی جا رہی ہیں، اس سیریز میں وہ بُری طرح فلاپ رہے، اگر ایسا چلتا رہا تو ان کیلیے ورلڈکپ2019 میں شرکت کا خواب حقیقت بنانا دشوار ہو جائے گا، امام الحق کو نجانے کس کے کہنے پر سات پردوں میں چھپا کر رکھا گیا، واحد شرکت میں ان کی بیٹنگ سے اندازہ ہو گیا تھا کہ نیوزی لینڈ میں کیسا کھیل پیش کریں گے، پھر وہ انگلی پر پٹی باندھے دکھائی دیے۔

سینئر صحافی عالیہ رشید نے ٹویٹر پر اپنے ذرائع کے حوالے سے لکھا کہ ’’امام الحق کی انجری اتنی سیریس نہیں کہ باہر بیٹھیں، مکی آرتھر بھی اس سے ناخوش ہیں‘‘، اب ہم کسی کھلاڑی کے آگے یہ تھوڑی لکھ سکتے ہیں کہ اوپنر (صرف یو اے ای) کیلیے پروفیشنل کرکٹر کو ہر قسم کی کنڈیشنز میں پرفارم کرنا پڑتا ہے، کپتان سرفراز احمد بھی اب اپنے مداحوں کو مایوس کرنے لگے ہیں، ماضی کا فائٹر کہیں کھو گیا، سیریز میں صرف ایک نصف سنچری ان کے شایان شان نہیں،آخری میچ میں مشکل وقت میں جس طرح انھوں نے وکٹ گنوائی وہ افسوسناک تھا،ایک کپتان جب خود پرفارم نہ کر سکے تو ساتھیوں کو کیسے تحریک دلا سکتا ہے۔

بطور قائد بھی انھوں نے کئی غلطیاں کیں، آخری دونوں میچز میں ففٹیز بنانے والے حارث سہیل کو ابتدا میں نہ کھلانے کا فیصلہ بھی عجیب تھا،پانچ میچز میں چار اوپننگ پیئرز آزمائے گئے مگر کوئی بھی نہ کامیاب نہ رہا،14 سب سے بڑی شراکت رہی، نئی گیند کس سے کرانی ہے یہ فیصلہ بھی تبدیل ہوتا رہا، یقیناً اس میں کوچ مکی آرتھر اور دیگر مینجمنٹ کا بھی کردار ہوگا،سب ہی ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔

بیٹنگ کا واحد مثبت پہلو فخر زمان اور شاداب خان کی نسبتاً بہتر کارکردگی رہی، البتہ بطور اسپنرشاداب کامیاب ثابت نہ ہو سکے اور پانچ میچز میں اتنی ہی وکٹیں لیں جس سے ٹیم کو مشکلات ہوئیں، جہاں کیوی پیسرز نے ہمارے بیٹسمینوں کو خوب پریشان کیا پاکستانی پیسرز انہی کنڈیشنز میں فلاپ رہے۔

محمد عامر کی ناکامیوں کا سلسلہ اب دراز ہوتا جا رہا ہے، بطور اسٹرائیک بولر انھیں وکٹیں لینا ہوں گی، حسن علی بھی توقعات پر پورا نہ اتر سکے، دیگر بولرز نے اننگز میں کہیں کہیں بہتر کارکردگی دکھائی مگر بولنگ اٹیک میں جو مہلک پن ہونا چاہیے وہ دور دور تک موجود نہ تھااسی لیے کیوی بیٹسمین دل کھول کر رنز بناتے رہے۔

مجموعی طور پر ٹیم کی کارکردگی انتہائی شرمناک رہی جس کے ذمہ دار کپتان، کھلاڑی، کوچنگ اسٹاف، پی سی بی چیف، چیف سلیکٹر سب ہیں، جس طرح فتح کے بعد سب کریڈٹ اور انعام لینے کیلیے آگے آگے نظر آتے ہیں اب ہار کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کیلیے سامنے آئیں، چھپ کر نہ بیٹھیں، مجھے نجم سیٹھی کی اداسی کا بھی اندازہ ہے، جو چیئرمین انڈر19 ٹیم کی فتح پر ناقدین کیخلاف ’’اب بولو‘‘ کی ٹویٹ کر دیتے تھے ان دنوں خاموش ہیں، یقیناً وہ یہی سوچ رہے ہوں گے کہ کلین سوئپ ہو گیااب کیا بولیں۔

نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔