جرائم پر قانونی گرفت کی شفافیت لازم

ایڈیٹوریل  اتوار 21 جنوری 2018
حقیقت یہ ہے کہ سیاست، لاقانونیت اور بہیمانہ جرائم ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوگئے ہیں . فوٹو : فائل

حقیقت یہ ہے کہ سیاست، لاقانونیت اور بہیمانہ جرائم ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوگئے ہیں . فوٹو : فائل

ملکی سیاسی صورتحال کا معروضی سیاق وسباق تاحال سوالیہ نشان ہے۔ ایک جانب جمہوری عمل، پارلیمانی تسلسل اور پانچ سالہ حکومتی آئینی مدت کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے، اپوزیشن کے بیانات سے سیاسی درجہ حرارت میں تیزی کا رجحان ہے جب کہ سیاسی فضا قیاس آرائیوں سے گرد آلود ہے، مگر خدشات اور سماجی خطرات کے اٹھتے طوفان نے عوام جرائم کی وارداتوں سے خوفزدہ اور پریشان ہیں کہ لاقانونیت کے سدباب میں ارباب اختیار اتنے بے اختیار کیوں ہیں۔

یہ سوال مسلسل ماہرین قانون اورسنجیدہ سماجی حلقوں میں گردش کررہا ہے کہ ماورائے قتل وارداتوں، پسند کی شادی کرنے والے پریمی جوڑوں کو خاموشی سے قتل کرکے ان کی تدفین کرنے والے قانون سے بالاتر کیوں ہیں،کیا انہیں اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ بدامنی پیدا کرنے اور شہریوں میں خوف وہراس پھیلانے کے سنگین نتائج بالآخر انہیں جیلوں کی سلاخون کے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔

لیکن سفاکانہ اور غیر انسانی وارداتوں کا ایک دریا ہے کہ اترنے کا نام نہیں لے رہا، گزشتہ روز کراچی میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے نوجوان نقیب اللہ کے قتل کے خلاف کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، سپر ہائی بلاک کیا گیا، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس قتل کا از خود نوٹس لیا ہے، ایس ایس پی ملیرراؤ انوار اس واقعے کے باعث معطل کیے گئے، ان کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ آئی جی کو ارسال کی گئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سیاست، لاقانونیت اور بہیمانہ جرائم ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوگئے ہیں، ایک سماجی انتشار اور رعونت سے لتھڑا سیاسی اور معاشرتی ماحول ہے جس میں ماورائے قانون وارداتوں میں ملوث لوگ حکومتی یا پولیس کنکشن، ملی بھگت، قریبی مراسم اور سیاسی تکبر اور رعونت سے قانون شکنی کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں جب کہ قانون واقعی ان کے سامنے بھیگی بلی بن جاتا ہے، قتل ،غنڈہ گردی، زور زبردستی، بے حرمتی کے ایسے بیشمار واقعات گزشتہ چند سال میں رونما ہوئے جن کی لرزہ خیزی روح کو دہلا دیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کراچی دنیا بھر کے خطرناک شہروں میں نمبر لے گیا ہے، جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کا گڑھ قرار پایا ہے جہاں اَن ٹچ ایبلزاور بااثر سیاسی خاندانوں کے قانون و سزا کے خوف سے بے نیاز ہوکر جسے چاہیں قتل کر دیتے ہیں۔

وارداتیں اتنی ہیں کہ گنتی ممکن نہیں، ہفتہ کوشاہراہ فیصل پر مبینہ پولیس مقابلہ میں ایک 15 سالہ شہری مقصود فائرنگ سے جاں بحق ہوا، پولیس کا کہنا تھا کہ فائرنگ ملزمان نے کی، ادھر سرفراز شاہ، ظفر، ظافر زبیری، شاہ رخ اور شاہ زیب واقعے سے لے کر، ڈیفنس، کلفٹن،گلستان جوہر،گلشن سمیت شہر قائدکے اولڈ سٹی ایریا، سہراب گاٹھ، لیاری، گارڈن، اورنگی،کورنگی، ناظم آباد، گلبرگ اور صدر کے تجارتی مرکز میں جرائم پیشہ عناصر کسی وقت شہریوں کی جان لے سکتے ہیں، ڈکیتی کی مزاحمت پر کسی کی جان لینا معمول بن گیا ہے، خواتین سب سے زیادہ جرائم کا نشانہ بنتی ہیں، دیدہ دلیری اور سفاکی کی انتہا کئی وارداتوں سے بے نقاب ہو چکی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ملک کے دیگر شہروں میں قانون کی شفاف حکمرانی ہے وہاں بھی صورتحال تسلی بخش نہیں، واقعتاً سنگین و بہیمانہ جرائم نے پورے نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے مگر کراچی کا امن پاکستان کی سلامتی سے منسلک ہے، یہ معاشی شہ رگ ہے اس لیے اس کی حفاظت ضروری ہے۔

مغرب میں مسلمہ تصور ہے کہ نئی نسل میں جرائم کی طرف راغب ہونے کا مطلب معاشرتی شکست وریخت اور حکومتی ناکامی ہے، مگر وہاں غیر قانونی طریقے سے سیاسی لاقانونیت اور جرائم کو قابو کرنے کی مصلحتیں ناپید ہیں، قانون کا احترام جب کہ سزا سے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا، ہمارے ملک میں انصاف کی فوری فراہمی ناگزیر ہے، ملک کو داخلی و خارجی چیلنجزاور دہشتگردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے امن وامان کی بہتر صورتحال درکار ہے۔

سیاسی و معاشی دوسرا بڑا چیلنج ہے، تاہم ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر کراچی کو جرائم نے اپنے حصار میں جکڑ لیا ہے جہاں مجرمانہ وارداتوں میں ملوث گروہ اور لینڈ و ٹینکر مافیاؤں کی سرکوبی کے لیے عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری مقدمات کی سماعت کررہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسٹریٹ کرمنلز، منشیات کے غیر ملکی اسمگلر، ڈکیتیوں، معصوم بچیوںسے جنسی تشدد، قتل، جواں سال لڑکیوں کے اغوا، خرید وفروخت، کار لفٹرز، گینگسٹرز اور بھتہ خوروں کے خلاف پولیس،رینجرز اورقانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے بھی سرگرم ہیں۔

ارباب اختیار طے کریں کہ وہ کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے، قبائلی، جاگیردارانہ رعونت، پولیس سے ملی بھگت، خاندانی غروراور مافیاؤں کو کچلنے میں نرمی سے کام نہ لیا جائے، مجرمانہ رجحانات اور بیمارذہنیت کے شکار افراد کو ظلم و زیادتی اور سنگین جرائم کے ارتکاب سے روکنے کے لیے صرف طاقت نہیں سماجی پریشر، تربیت، خیرسگالی اور قربت ویگانگت کے جذبہ سے اچھا شہری بنانے کا شعور بیدار کیا جانا چاہیے، کوئی ماں کے پیٹ سے مجرم پیدا نہیں ہوتا۔

یہ سماج اور اس کے استحصالی ہتھکنڈے اور عوام بیزار نظام قانون کی موم یافتہ صفت اور مادہ پرستانہ سوچ کا شاخسانہ ہے کہ غربت کو جرم اور سیاسی تعلقات کو ہر سزا سے بیگانگی کا پروانہ سمجھ لیا گیا ہے، چنانچہ انصاف سب کے لیے برابر اور قانونی گرفت سب کے لیے چشم کشا اور عبرت ناک ہونی چاہیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔