انصاف بھی اسی سے مانگتے ہیں

ایم قادر خان  اتوار 21 جنوری 2018

کشتی ہچکولے کھا رہی ہے، ڈگمگاتی ہوئی ناؤ اپنی جگہ لیکن بد اعمالیاں جاری ہیں ، جس ملک میں حکومت نام کی شے نہ ہو تو معاشرہ بگڑتا چلا جاتا ہے ڈروخوف ختم ہوجاتا ہے۔ صرف خوف وہ لوگ محسوس کرتے ہیں جو شریف النفس ہیں جن کو اللہ کا خوف ہے وہ ڈرتے ہیں کہیں کوئی ایسی بات یا کام نہ ہوجائے جس سے اللہ تعالیٰ کے آگے سزا کے مرتکب ہوں۔

ایک طبقہ خوش ہے اس کو کسی کی پرواہ ہے نہ فکر وہ صرف اپنے مطلب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ اپنے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں۔ ملک و عوام میں خواہ کچھ بھی ہو کوئی توجہ نہیں۔ شاید بھول گئے ہیں اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آچکے ہیں جس سے یہ نہیں بچ سکتے۔ ان کی ’’نیّا‘‘ ڈگمگا رہی ہے اس کا بھی مورد الزام دوسروں کو دیتے ہیں۔ بڑی افسوسناک بات کیا ہم جنگل میں رہ رہے ہیں جو کوئی قانون نہیں نہ ہی کسی قانون پر عمل۔

افسوس ناک بات ہم اپنے ملک میں اہل و عیال معصوم بچوں سے محفوظ نہیں جس طرح درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے سمجھ میں نہیں آتا کون بچائے گا۔ جس طرح معاشرے کے برے حالات بداعمالی درندگی پر ماتم کدہ ہوتے ہیں ظلم کی داستانیں پیش کرتے ہیں لیکن حاصل کچھ نہ ہوا جو ہونا تھا ہوتا رہا۔ لوٹ مار کے علاوہ موجودہ انتظامیہ کا کوئی اور کام نہیں۔ تقریباً 12 ہزار افراد سندھ میں جرائم پیشہ ہیں۔

پنجاب میں اس سے بہت زیادہ تقریباً ہر صوبے میں جرائم پیشہ موجود ہیں۔ جب ایک صوبے کا یہ حال ہو تو پورے پاکستان میں کس قدر جرائم پیشہ لوگ ہوں گے۔ کہتے ہیں موجودہ حکومت بے بس ہوگئی ہے اگر حکومت ہو تو بس و بے بس کی بات ہوگی۔ ان کا کام عدلیہ اور فوج کی برائی کرنا لوٹ مار، رشوت ستانی اور کمیشن حاصل کرنے سے فرصت نہیں وہ کیا ملک و ملت کے بارے میں کچھ سوچیں جب سوچتے نہیں تو کریں گے کیا۔

ظلم اور ستم زیادتی کی داستانیں زبان زدعام ہیں تقریباً کم ازکم 12بچیاں زیادتی کا شکار ہوئی ہیں اس سے زیادہ ہوں گے چونکہ چھپا لیا جاتا ہے اس لیے صحیح تعداد کا موازنہ نہیں۔ لیکن افسوس ناک بات ہے سارا ظلم ستم زیادتی صرف غریب عوام پر ہے۔ کسی امیر کے بچے پر نہ زیادتی سنی نہ ظلم اس لیے کہ وہ طاقتور ہیں دولت ہے اگر ان کے ساتھ ان کے بچے کو کوئی گالی بھی دے دے تو اس شخص کی زندگی محال ہے۔

غریب ظلم سہتا ہے اور زبان بھی نہیں کھول سکتا جب وہ اپنی زبان کھولتا ہے تو یہی چور، ڈاکو، غنڈے، بدکردار، راشی، کمیشن خورکرنے والے اس غریب کی زبان بند کردیتے ہیں۔ اداروں کو ناکارہ بنادیا گیا ہے وہ غیر ذمے داری کا ثبوت دیتے ہیں۔ وہ صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو ان کے آقا بنے ہیں۔ جنھوں نے ان کو مقرر کیا جو جس عہدے کا اہل نہ تھا اس کو اس عہدے پر ترقی پر ترقی اس لیے دی جاتی رہی کہ وہ ان لوگوں کے لیے کام کرتا رہیں اور کر رہے ہیں۔

اپنی ڈگمگاتی کشتی کو ڈوبنے سے بچا رہے ہیں اگر ان کے کارنامے ایسے ہی رہے تو اس ڈوبتی ہوئی ناؤ کو کون بچا سکتا ہے اور شاید سمندر کی لہریں بھی کنارے پر لانے سے قاصر رہیں ممکن ہے کوئی بھنور اپنی آغوش میں لے لے۔ عوام کا اعتماد حکومت سے ختم ہوچکا ہے۔ سسٹم سے اعتماد اٹھ چکا ہے اگر اعتماد ہے تو صرف دو اداروں پر عدلیہ اور فوج۔ عوام توڑ پھوڑ کرتے ہیں جلاؤ گھیراؤ کرتے ہیں صرف اس لیے کہ ان کو اداروں پر اعتماد نہیں رہتا اگر یہ کہا جاتا ہے حکومت نام کی کوئی شے نہیں تو اس بات سے عیاں ہے غلط بات نہیں۔

پولیس کو ناکارہ بنادیا گیا اداروں کو اپنے مطلب غرض کی خاطر مفلوج کرکے رکھ دیا کس طرح ملک چلے گا عوام کس کے پاس جائیں؟ کس سے دادرسی کریں؟ برائی کا عمل جاری رہے گا یہ برائی رکنے والی نہیں اس کے لیے کڑا احتساب چاہیے بلا غرض کسی رعایت بغیر صرف ملک وقوم کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ہم دیکھ رہے ہیں برائی چلتی ہوئی جا رہی ہے ختم ہونے کا نام نہیں لیتی اس کی خاص وجہ یہ نااہل لوگ ہیں جو اپنے مفاد میں نالائق، نااہل، بدمعاش، غنڈے، ناکارہ لوگوں کو اداروں میں بھرتی کرتے ہیں اور اپنے مطلب و مقصد کے کام کرواتے ہیں۔

یہ ایک غلط کام کرواتے ہیں وہ دس کام اپنی غرض و مطلب کے لیے کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کے ہوتے ہوئے برائی مزید بڑھ سکتی ہے کم نہیں ہوسکتی۔ ایسے نااہلوں سے عوام کا چھٹکارا حاصل ہونا لازم ہے۔ یہ ملک کو تو کھوکھلا کر رہے ہیں نقصان پہنچا رہے ہیں دوسری طرف عوام کو غربت کی مالا پہنا رہے ہیں۔ ملک میں غربت بڑھ رہی ہے ان نااہلوں کی جائیدادوں اور مالیت میں اضافہ ہو رہا ہے لوٹ مار کا بازار گرم ہے اس لیے کہ ان کو کسی کا خوف ہے نہ ڈر۔ ان کو معلوم ہے کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔

آج عوام اپنا دکھ غم چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل کو بتا رہے ہیں اور مدد مانگ رہے ہیں انصاف بھی انھی سے مانگتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے حکومت نام کی ہے یہ کچھ نہیں کرے گی اگر ان کا اپنا کام ہوگا وہ فوری ہوگا۔ ایک مور بلے نے مار دیا تو تیس پولیس والے معطل ۔ ملک میں روز کتنے لوگ مرتے ہیں کم عمر بچیاں بچے بدفعلی کے بعد لقمہ اجل بنتے ہیں لیکن ان کو اس کا کوئی خیال نہ ملال۔ اگر ان کی اولاد کے ساتھ ایسا کچھ ہوجائے تو پورا ملک تہہ و بالا ہوجائے گا۔ جب ایک مور پر وہ بھی بلے نے مارا اس پر تیس پولیس اہلکار معطل کردیے تو اپنی اولاد کے لیے شاید پورے پاکستان کی پولیس کو معطل کردیں۔

قوم کا کروڑوں روپیہ یومیہ صرف ان لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے خرچ ہوتا ہے اپنی جان اس قدر عزیز ہے اپنا زر خرچ نہیں کریں گے وہ بھی ملک کا جو اس غریب عوام کے ٹیکس سے حاصل ہوتا ہے۔ جس قدر جلد ہو ان نااہلوں سے جان چھڑائی جائے اسی میں بہتری ہے ورنہ یہ الٹے ٹیڑھے کام کرتے کرواتے رہیں گے ملک و ملت کے خلاف بیان بازی کرتے رہیں گے جنھوں نے ملک توڑا ان کے دوست بنتے ہیں وہ ان کے لیے عظیم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔