Good touch and bad touch  (آخری حصہ)

شیریں حیدر  اتوار 21 جنوری 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

چار دن پہلے میرے فون پر کسی نمبر سے رات کو دیر سے کئی کالیں آئی تھیں، میں نے اس نمبر پر کال کی… پنکی کی ماں تھی، سلام دعا کے بعد اس نے سسک کر کہا تھا ، ’’ میں آپ کی بہت ممنون ہوں، اس روز آپ سے بات ہوئی تو ہم دونوں میاں بیوی بہت اپ سیٹ ہو گئے تھے اور سوچ لیا تھا کہ اپنی بیٹی کو اس اسکول سے اٹھا لیں گے مگر گزرتے وقت کے ہر لمحے کے ساتھ ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم غلط تھے- غور کرنے پرہمیں اپنے کزن کا ہر لمس اپنی بیٹی کے لیے برا لگنے لگا اور ہم نے اسے کہہ کر ہوسٹل منتقل کر دیا تھا- میں نے اپنی ملازمت چھوڑ دی کہ جس دولت کی دوڑ میں ہم دونوں بھاگ رہے تھے کہیں اسے پاتے پاتے ہم اپنی بیٹی کو نہ کھو دیتے!!‘‘

’’ بہت اچھا فیصلہ کیا آپ نے بیٹا!!‘‘ میں نے اسے کہا-

’’ پنکی کو میں پورا وقت دیتی ہوں، خود اسے بھی سمجھاتی ہوں اور اپنی ان دوستوں کو بھی جو میری طرح غفلت میں تھیں اور اس سارے میں جو کچھ نظر انداز ہو رہا تھاوہ ہمارے بچے تھے!!‘‘ اس نے مزید اضافہ کیا، ’’ قصور میںہونے والے واقعے نے مجھے ایک ایسے کرب میں مبتلا کر دیا ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتی… میرے تصور میں میری چار سال پہلے کی پنکی آگئی تھی جب وہ سات سال کی تھی اور آپ نے اپنی سی کوشش کر کے اسے اور اس کی عمر کے باقی بچوں کو آسان الفاظ میں اچھے اور برے لمس ( good and bad touch)  کے نام سے لیکچر دیا تھا- اس وقت ہمیں لگا کہ آپ نے ہمارے بچوں کو بہت بڑی بڑی باتیں بتادی ہیں مگر بعد ازاں ہمیں اندازہ ہوا کہ بچے ویسے ہی معصوم تھے، بس انھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ کوئی ان کے ساتھ کسی طرح برا کر سکتا ہے ، انھیں نقصان پہنچا سکتا ہے – فلموں سے وہ ہیرو اور ولن کا تصور تو رکھتے ہیں، good and evil  کا بھی اور آپ نے وہی اصطلاحات استعمال کر کے ان کے معصوم ذہنوں میں احتیاط کے جو بیج بوئے تھے وہ ان کے ذہن میں پروان چڑھ گئے ہیں… میری بیٹی کے ساتھ ایسا ہوا ہے تو مجھے یقین ہے کہ سب بچے اسی طرح سوچتے ہوں گے… آپ کے پاس ان دو کلاسوں میں لگ بھگ سو سے زائد بچے تھے، آپ نے ان سو بچوں اور ان کے والدین کی سوچ کو جس انداز سے بدلا تھا، اس کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں- وہ سو لوگ سو پر رکے نہیں، ہم نے اس دائرے کو بہت بڑھایا ہے، ہم نے اپنے خاندانوں اور حلقۂ احباب میں اور بہت سوں کو اپنی سوچ کا پیغام دیا ہے- وہ سوچ جس کا بیج آپ نے بویا تھا، اس وقت ہزاروں ذہنوں میں پودوں کی صورت اختیار کر چکا ہے- میری بیٹی ہمارے بغیر کسی کے ہاں رات نہیں رکتی ، کسی سے کچھ لے کر نہیں کھاتی، ہمیں ہر بات بتاتی ہے – ہماری غیر موجودگیمیں وہ ملازمین کے پاس بھی نہیں جاتی خواہ اسے کچن میں پانی پینے ہی جانا ہو- ہم اسے خود بھی بالکل تنہا نہیں چھوڑتے… میںنے آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے فون کیا ہے ، آپ نے کتنی ہی بچیوں کو زینب بننے سے بچا لیا ہے!!‘‘

’’ اللہ کی ذات کا شکر ہے صرف کہ اس نے میرے ذہن میں یہ خیال ڈالا، اس نے آپ کے اور کئی اور لوگوں کے ذہنوں میں ہدایت اور راہنمائی کا پودا پروان چڑھایا اور آپ لوگ اسے ایک کاز کی طرح چلا رہے ہیں- زینب تو ایک کیس ہے، یہاں ہر روز کسی نہ کسی نام کی بچی کی معصومیت کو بھنبھوڑا جاتا ہے۔دنیا میں مردوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو گدھوں اور خنزیروں سے بدتر ہے، ان کے لیے معصوم بچیاں صرف بھوک مٹانے کا ذریعہ ہیں، وہ بھوک جو مٹانے کی کوشش کرو تو اور بھی بڑھتی ہے!! ‘‘

’’ آپ واپس اسکول میں کیوں نہیںآ جاتیں ؟ ‘‘ اس نے معصومیت سے درخواست کی-

’’ اسکول کی ملازمت چھوڑنا میری چند مجبوریوں کے باعث تھا اور مجھے یقین ہے کہ جو بھی میری جگہ پر وہاں ہے وہ بہترین کام کر رہا ہو گا !!‘‘ میںنے کہا-

’’ مگر آپ کا ایک نکتۂ نظر ہے ‘‘ اس نے حجت کی-

’’ دنیا کے تمام والدین کا ایک یہی نکتہ نظر ہونا چاہیے، دنیا اچھائیوں کے ساتھ ساتھ برائیوں کی بھی آماجگاہ ہے، اچھائی اور برائی کے درمیان بڑی واضح تفریق ہے اور اس میںسے چناؤ ہم سب کے لیے آسان ہے!! ‘‘ میںنے سمجھایا – ’’ رہی بات میرے نکتۂ نظر کی تو اگر اس میںکوئی اثر ہے تو اس کے لیے میرے پاس اسکول سے بہت بڑا فورم ہے، میری بات اس کے ذریعے بہت زیادہ لوگوں تک تو پہنچتی ہے الحمد ﷲ!! ‘‘

’’ ہمیں کوئی ٹپ بتائیں کہ ہم کس طرح خود کو مزید بہتر کر سکتے ہیں؟؟ ‘‘

’’ گُر کی بات یہ ہے کہ اگر آپ کے ہاں بچے ہیں ، بیٹیاں اور بیٹے دونوں ، تو ان دونوں پر کڑی نظر رکھیں اور ان سے تعلق رکھنے والے ہر شخص پر بھی کڑی نظر رکھیں – نہ کوئی آپ کے بیٹے کو چھوئے نہ بیٹی کو!! دونوں کی تربیت پر دھیان دیں، اچھے اوصاف سکھائیں- چھوٹا سا نکتہ یاد رکھیں، اپنی بیٹیوں کو ہی بچانا اہم نہیں ہے، آپ کے بیٹوں سے دوسروں کی بیٹیاں محفوظ رہیں ، یہ بھی بہت اہم ہے- کردار صرف بیٹیوں کے لیے مختص نہیں ہے، مرد کا بھی کردار ہوتا ہے- جہاں عورتوں کو اپنی حرمت کی حفاظت کا کہا جاتا ہے وہیں مردوں کو بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا جاتا ہے- جس وقت پہلی بار آپ کا بچہ سڑک کے یا کسی گلی کے کنارے کو جائے حاجت سمجھتا ہے، اسے اسی روز ٹوکیں، یہ بہت اہم ہے ، مرد کے اندر اگرگھر کے اندر اور باہر کا احساس ختم ہو جائے تو وہ صرف گھر سے باہر صرف جائے حاجت ہی نہیں… ’’ بستر‘‘ بھی تلاشنے لگتا ہے!! صرف اپنی بیٹیوں کی دوستیاں ، مصروفیات، فون اور کاپیاں ڈائریاں چیک نہ کریں، اپنے بیٹوں پر بھی ایسی ہی عقابی نظر رکھیں – معاشرے کے بگاڑ اور سنوارمیں، جائیداد کی تقسیم کی طرح اور گواہی کی طرح آپ کے بیٹوں کا زیادہ اور بیٹیوں کا نصف حصہ ہوتا ہے!! ‘‘ اللہ حافظ کہہ کر فون بند کیا- فون کی اسکرین پر ایک پیغام چمکا تھا، میںنے whatsapp کو کھولا-

’’اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول

تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ور قہ پھول

اک روئی سی دھی پنجاب دی، توں لکھ لکھ مارے وین

اج لکھاں دیاں روندیاں ، تینوں وارث شاہ نوں کہن

اٹھ درد منداں دیا دردیا، تک اپنا دیس پنجاب

اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب

کسے نے پنجاں پانیاں وچ اج دتی زہر رلا

تے اوناں پانیاں نوں دتا دھرت نوں لا

جتھے وجدی پھوک پیار دی سی، اوہ ونجلی گئی گواچ

رانجھے دے سب ویر اج بھل گئے اوس دی جاچ

دھرتی تے لہو وسیا تے فی قبراں پیاں چون

پریت دیاں شہزادیاں اج وچ مزاراں رون

اج تے سبھے کیدو بن گئے ، حسن عشق دے چور

اج کتھوں لیائیے لبھ کے، وارث شاہ اک ہور‘‘

ہم سب جانتے ہیں کہ وارث شاہ کا تعلق قصور شہر سے تھا اور انھوں نے پنجابی کی مشہور داستان عشق ہیر رانجھا لکھی- یہ داستان بنیادی طور پر ایک عورت کی مجبوری اور مظلومیت کی داستان ہے ، جس نے ایک ایسے معاشر ے میں جنم لیاجہاں عورت کے حقوق کی اہمیت مردوں کی نسبت کم سمجھی جاتی ہے- اس داستان عشق کو نظمیہ صورت میں پڑھا جائے، نثر میں یا اسے فلم کی صورت دیکھا جائے تو بلاشبہ آنکھیں اشک بار ہو جاتی ہیں –

مندرجہ بالا نظم امرتا پریتم نے ( پنجابی کی مشہور شاعرہ ، 1919 to 2005 گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں اور تقسیم کے بعدنئی دہلی منتقل ہو گئیں) تقسیم پاک و ہند کے تناظر میں لکھی تھی اور ان سے کہا تھا کہ انھوں نے ایک پوری داستان محبت، پنجاب کی ایک مظلوم بیٹی کے لیے لکھ دی تھی اور تقسیم کے دوران جو کچھ پنجاب کی بیٹیوں کے ساتھ ہوا اسے لکھنے کے لیے کوئی ان جیسا موجود نہیں- انھوں نے وارث شاہ کو قبر میں سے پکارا تھا-

آج جو کچھ ہو رہا ہے اس پر صرف پنجاب ہی نہیں… بلکہ ملک بھر میں، دنیا بھر میں ہو رہا ہے- بچیاں پامال ہو رہی ہیں، دنیا میں چیخ چیخ کر والدین تھک گئے ہیں، غم سے نڈھال ہیں، آپ سب اللہ کو پکاریں،اس سے مدد مانگیں- وہ اپنے بندوں کی تڑپ کو رد نہیں کرتا، دنیاوی خداؤں کے اور مسائل ہیں، ان کے لیے ہماری اور آپ کی بیٹیاں آخری ترجیح ہیں، ان سے ان کی دلچسپی ایک میڈیا کوریج کے بعد ختم ہو جاتی ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔