منو بھائی

امجد اسلام امجد  اتوار 21 جنوری 2018
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

ابھی کل رات کی ہی بات ہے منو بھائی کے سگے بھانجے اور میرے بہت ہی عزیز ڈاکٹر احمد بلال نے بتایا کہ اب ماموں کی طبیعت قدرے بہتر ہوئی ہے اور ہم انھیں اسپتال سے گھر لارہے ہیں۔ میں نے کہا اگرچہ اپنے کسی پیارے کو خود فراموشی اور بے بسی کی حالت میں دیکھنا میرے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے اور میں ضمیر کی ملامت کے باوجود اپنے اندر اتنا حوصلہ جمع نہیں کرپاتا کہ جس شخص کو بھر پور زندگی کے مظہر کے طور پر دیکھا ہو اسے موت کے رحم و کرم پر پڑا دیکھ سکوں، لیکن موت نے ہم سے پہلے ملاقات کا وقت طے کرلیا۔

بہت سال ہوئے منو بھائی نے اپنے تعزیتی کالموں پر مشتمل ایک کتاب ’’جنگل اداس ہے‘‘ کے نام سے شائع کروائی تھی۔ عنوان پیرو مرشد مرزا غالبؔ کے اس شعر کی عطا تھا کہ:

ہر ایک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ

مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے

گزشتہ برس میں نے بھی اس کی تقلید کرتے ہوئے ’’کوئی دن اور‘‘ کے نام سے کالماتی مجموعہ ترتیب دیا جس کا عنوان بھی غالبؔ ہی کے ایک مصرعے سے لیا گیا تھا۔ لیکن آج جب خود منو بھائی پر یہ تعزیتی کالم لکھا جا رہا تھا تو پتہ نہیں کیوں ذہن پر میرؔ صاحب کا یہ شعر بار بار دستک دے رہا ہے جو وہ ہمیشہ جھوم جھوم کر اپنے مخصوص انداز میں پڑھا کرتے تھے۔

مرگ مجنوں پہ عقل گم ہے میرؔ

کیا دوا نے موت پائی ہے

ادبی اصناف کے حوالے سے منو بھائی صحیح معنوں میں ایک مثالی آل راؤنڈر تھے۔ انھوں نے صحافت اور شاعری سے آغاز کیا اور تقریباً چھ دہائیوں تک نہ صرف یہ رشتہ قائم رکھا بلکہ ہر دو میدانوں میں ایک سند اور سنگ میل کا مقام حاصل کیا۔ ڈرامہ لکھا تو ایسا کہ ریکارڈ پر ریکارڈ قائم کرتے چلے گئے اور غیر ملکی شاعری کے ترجمے اس مہارت، خوبصورتی اور حسن انتخاب کے ساتھ کیے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ خود بتایا کرتے تھے کہ ان کو کالم نگاری کی راہ پر احمد ندیمؔ قاسمی مرحوم نے ڈالا اور ان کا یہ قلمی نام منو بھائی بھی ان ہی کا دیا ہوا ہے۔

ان کے کالم ’’گریبان‘‘ میں فکاہیہ کالموں کی روایتی شگفتگی اور روزمرہ کے ہلکے پھلکے واقعات پر تبصرہ کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست، تاریخ اور معیشت کا گہرا مطالعہ اور شعور بھی ملتا ہے جو ان کی سادہ، رواں اور پر لطف تحریر اور حقیقت پسندانہ انقلابی سوچ کے باعث قارئین کے ایک وسیع حلقے میں بہت شوق اور پابندی کے ساتھ پڑھا جاتا تھا۔ شاعری انھوں نے نسبتاً بہت کم کی لیکن ان کی بعض پنجابی نظموں نے بے مثال شہرت پائی اور کچھ تو لوک دستانوں کی طرح لوگوں کو زبانی یاد ہوگئی ہیں۔

حبیب جالبؔ کی بعض انقلابی نظموں کی طرح ان کی پنجابی شاعری میں بھی سماجی شعور، عوامی ردعمل اور شدید طنز کی کاٹ بہت نمایاں ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جو کام جالبؔ کا مخصوص اور محبوب ترنم کرتا تھا منو بھائی کی نظموں میں ویسا ہی اثر ان کی مخصوص ہکلاہٹ اور مصرعوں کو عام بول چال کے انداز میں لکھنے سے ایک بالکل نئی اور جداگانہ شکل میں ظہور کرتا تھا۔

بعض مختصر نظموں میں اسکرین پلے کی تکنیک کے استعمال اور مکالماتی در و بست سے انھوں نے ایسی فضا پیدا کردی ہے جو اپنی مثال آپ ہے کہ پانچ سات چھوٹے چھوٹے مکالمہ نما مصرعے مل کر ایک ایسا کلائمکس بناتے ہیں کہ قاری یا سامع مبہوت سا ہوکر رہ جاتا ہے۔ وہ سنیارٹی اور مقبولیت دونوں حوالوں سے پی ٹی وی کے ڈرامہ نگاروں کی پہلی صف میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے کریڈٹ پر ’’جزیرہ، پلیٹ فارم، آشیانہ جھوک سیال، سونا چاندی، جھیل، دروازہ اور پ سے پہاڑ جیسے بے شمار سیریل، سیریز اور انفرادی ڈرامے ایسے ہیں کہ جن میں تقریباً ہر ایک کو بطور مثال کے پیش کیا جا سکتا ہے۔

میرے ڈرامہ سریل ’’وارث‘‘ کو پی ٹی وی میں پاکستانی دیہات اور ان کے کلچر کے حوالے سے عام طور پر اولیت اور ٹرینڈ سیٹر کا درجہ دیا جاتا ہے لیکن ایمانداری کی بات یہ ہے کہ اس کی ابتدا مجھ سے پہلے منو بھائی ’’جھوک سیال‘‘ کی ڈرامائی تشکیل کے حوالے سے نہ صرف کرچکے تھے بلکہ معیاری اعتبار سے بھی وہ سیریل دیہات کے لوکیشن اور کردار نگاری کے حوالے سے کسی سنگ میل سے کم نہیں تھا۔

اسی طرح جدید فلسطینی اور عرب شعرا کے تراجم کے حوالے سے بھی منو بھائی کا کام معیار اور مقدار دونوں حوالوں سے تعریف اور اہمیت کا حامل ہے اور مجھے یہ کہنے میں بہت خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ڈرامے کی طرح یہاں بھی وہ میرے ایک ایسے سینئر ہم سفر رہے ہیں جن سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ۔ چند ماہ قبل میرے ایک ڈرامہ سیریل ’’گرہ‘‘ یو ایم ٹی پریس کی طرف سے شائع ہوا جس کا انتساب میں نے منو بھائی کے نام کیا تھا۔

جب میں احمد بلال کے ساتھ یہ کتاب ان کو پیش کرنے کے لیے گیا تو جس محبت سے انھوں نے دیر تک مجھے گلے لگائے رکھا اور پھر فرمائش کرکے تصویریں بنوائیں اور خوشی کا اظہار کیا وہ منظر میرے دل پر نقش ہوکر رہ گیا ہے۔ چند دن قبل ان کے تھیلے سیمیا کے مریض بچوں کی نگہدار سندس فاؤنڈیشن میں ان سے آخری ملاقات ہوئی تو اس میں بھی انھوں نے جس محبت سے انتساب کا ذکر کیا وہ ان کے اخلاص، عجز اور شخصی بڑائی کا ایک ایسا آئینہ تھا جو اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔

اب سوچتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ اس روز ہم اس مذاق پر بھی آخری بار ہمیشہ کی طرح کھل کر ہنسے تھے جو ہمارے درمیان کوئی تیس برس سے چل رہا تھا۔ ہوا یوں کہ کچھ دوستوں نے مل کر ایک رائٹرز کلب بنایا جس کے منو بھائی صدر اور میں نائب صدر تھا۔ ان ہی دنوں اوپر تلے دو تین ملکوں میں ایسے انقلاب آئے یا لائے گئے جن میں صدر کو معزول کرکے نائب صدر کو اس کی جگہ صدر بنا دیا گیا تب سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ میں دھمکی دیتا کہ منو بھائی ذرا ہوشیار رہنا عنقریب میں تمہارا تختہ الٹنے والا ہوں اور وہ ہر بار قہقہہ لگا کر جواب دیتے تو جلدی کرو نا یار مجھے اور بھی کام کرنے ہیں۔

منو بھائی نے زندگی بھر عزت، کردار، حق گوئی اور ہنر کی پاسبانی کو دنیا داری اور دولت پر ترجیح دی اور بے شمار آسان مواقعے کی موجودگی کے باوجود ایک باوضع، سفید پوش اور متوسط سطح کے انداز زندگی کو اپنائے رکھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سب کچھ ایک سدا بہار مسکراہٹ اور خوشگوار اور مطمئن چہرے کے ساتھ کیا اور کبھی اپنے ضمیر اور قلم کو کسی قسم کی تحریص کا شکار نہیں ہونے دیا۔ منو بھائی اپنے ڈراموں کے کئی مخصوص اور مقبول کرداروں کی طرح ایک سیدھے، سچے اور اقدار کو اشیا اور مقدار پر ترجیح دینے والے انسان تھے۔

آج کل کے دور میں ایسی طویل اور بے داغ زندگی قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ وہ ایک محبتی اور پیارے انسان تھے۔ رب کریم ان کو ان تمام محبتوں کی جزا دے جو انھوں نے اس کے بندوں کی زندگیوں میں شامل کیں اور ان کی روح کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ میں انھیں پیار سے برادر اسمالو (منو بھائی کا آزاد دیسی، انگریزی ترجمہ) کیا کرتا تھا۔ لیکن امر واقع یہ ہے کہ وہ ہماری نسل کے لیے ایک بڑے بھائی کی طرح تھے اور ان کے جانے سے میں اور میرا معاشرہ دونوں ایک بہت اچھے اور بڑے انسان سے محروم ہوگئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔