ہم اتنے بے حس کیوں ہیں؟

رئیس فاطمہ  اتوار 21 جنوری 2018
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

زینب کا سانحہ ایک ٹیسٹ کیس بن گیا ہے۔ صرف قصور شہر میں بچوں سے زیادتی کے کتنے کیس سامنے آئے ہیں اور ان میں سے کتنے مجرم پکڑے گئے، ساری خرابی سسٹم کی ہے، لیکن سسٹم کوکوئی نہیں بدل سکتاکیونکہ جہالت، لا علمی اور فرسودہ روایات میں بندھا معاشرہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ سارا ملک سراپا احتجاج ہے، اس سے اتنا تو ہوا کہ لوگوں کی بے حسی کو جھنجھوڑا گیا۔

سول سوسائٹی کے علاوہ عام آدمی نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیا۔ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس درد ناک سانحے کے بعد پولیس الرٹ ہوجائے گی، تھانہ کلچر تبدیل ہوجائے تو یہ محض خوش فہمی ہے۔ دو چار دن بعد سب بھول جائیںگے۔ میڈیا پر ٹاک شوزکی جو دکانیں سجی ہیں وہ چند دن بعدکسی نئی واردات یا نئی کہانی پہ کام کررہے ہوںگے اور کچھ نہیں، جس ملک میں سپاہی سے لے کر آئی جی تک سفارش اور سیاسی وابستگیوں پر مقررکیے جاتے ہوں، جہاں ساری سیکیورٹی صرف حکمرانوں اور ممبران اسمبلی کے لیے ہو وہاں زینب کے مجرم کو پکڑنا ممکن نہیں،کیونکہ اس معاملے میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں۔

وزیراعظم، وزیراعلیٰ، آئی جی اور عدلیہ کے لوگ سب بیان بازی کے ماہر ہیں۔ ایک جیسے بیانات، فوری طور پر کمیٹی بنا دینا، سب روٹین کی باتیں ہیں۔ ننھی تتلیاں یونہی بھیڑیوں کے پنجوں میں مرتی رہیںگے۔ سیاست دان ہر نئے واقعے پر اپنی اپنی دکانیں چمکاتے رہیںگے، بیانات کا جمعہ بازار لگا رہے گا، ٹیلی ویژن اسکرین پر مسلسل میلہ لگا رہے گا۔ لیکن نہ کوئی پکڑا جائے گا نہ سسٹم تبدیل ہوگا۔ آپ دیکھ لیجیے۔

شاہ زیب قتل کیس کو دیکھ لیجیے، دولت اور طاقت جیت گئی، نقیب اللہ کی سنگدلانہ ہلاکت پر نظر ڈالیے، ایسے میں کسی مقتدر شخصیت کا یہ کہنا کہ ’’ججوں کو دھمکانے والا پیدا نہیں ہوا ‘‘ ایک مذاق لگتا ہے۔ پولیس اتنی نا اہل ہے کہ اسے مجمع کنٹرول کرنا نہیں آتا۔ ہوائی فائرنگ کی بھی ضرورت نہیں تھی، ایسے موقعوں پر پانی اور آنسو گیس سے قابو پایا جا سکتا ہے لیکن سفارشی بنیادوں پر تعینات پولیس کو شاید اس بات کی تربیت ہی نہیں دی گئی کہ بپھرے ہوئے بے قابو ہجوم کوکیسے قابو کیاجاتا ہے۔

چہ جائیکہ جاہل اور نا اہل پولیس اہلکاروں نے براہ راست لوگوں پر فائرنگ کردی جس سے دو اور جانیں چلی گئیں۔ چند دن پہلے کراچی ناظم آباد میں سپر اسٹور کے بیسمنٹ میں کیڑے مار دوا ڈالی گئی اور اگلے دن لڑکوں کو بغیرکسی حفاظتی ماسک کے صفائی کے لیے بھیج دیا گیا۔ طبیعت خراب ہونے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جب کہ اسپتال بالکل قریب تھا۔ بے حسی کی انتہا، تین اموات ہوگئیں لیکن کسی کے لیے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اور تازہ ترین نوجوان انتظار کا قتل جس کی گاڑی پر پولیس نے اندھا دھند گولیاں چلادیں اور مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا۔

ساری تفصیلات اخبارات اور میڈیا میں آچکی ہیں۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے؟ پہلے شاہ زیب اور اب انتظار کا دانستہ قتل، ہم اتنے بے حس کیوں ہیں کہ ایک کے بعد ایک سانحہ رونما ہوتا جا رہا ہے اور ہم بے حس حکمران اپنے اقتدار کو طول دینے کی جنگ میں مصروف ہیں۔ لاہور میں زیادتی کا شکار ہونے والی چھ سالہ کائنات موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے۔

اغوا اور زیادتی کے بعد بچوں کو قتل کردینا جیسے اب معمول کی بات بن گئی ہے۔ حکومت اور حکومتی اداروں سے توقع رکھنا ایسا ہی ہے جیسے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے کی امید رکھنا۔ اس ملک کی تمام تر برائیوں کی جڑ جہالت اور آگہی کا نہ ہونا ہے۔

مجموعی طور پر ہم ایک جاہل اور اندھے معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں اسکول میں یا گھر میں بڑھتی عمر کے بچوں اور بچیوں کو سیکس کی آگاہی دینا ناممکن ہے۔ اسے بے حیائی اور بے شرمی پہ محمول کیا جاتا ہے۔ جب کہ ترقی یافتہ ممالک میں اسکول کے نصاب میں یہ سب باتیں شامل ہوتی ہیں کہ سن بلوغت کو پہنچنے والی بچیوں کو آگاہی دی جائے کہ وہ اب بڑی ہوگئی ہیں اور انھیں کن باتوں کا خیال رکھنا ہے بلکہ دس سال کی عمر کے بعد ہی ماؤں کو چاہیے کہ قدرتی طور پر ہونے والی جسمانی تبدیلیوں کے بارے میں انھیں وقت سے پہلے ذہنی طور پر تیار کیا جائے۔

نیز یہ کہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو اسکول میں اور گھر میں اس بات کی تربیت دی جائے کہ اگر کوئی اجنبی مرد یا عورت انھیں ٹافی یا چیز کا لالچ دے رہی ہے تو وہ سختی سے انکار کردیں،اگر کوئی انھیں چھونے کی کوشش کرتا ہے تو وہ فوری طور پر چیخنا چلانا شروع کردیں۔

یہ ایک موثر اور آسان ہتھیار ہے کیونکہ بچے جسمانی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ انھیں آپ کتنی بھی جوڈو کراٹے یا سیلف ڈیفنس کی تعلیم دے دیں لیکن وہ ایک طاقتور مجرم سے مقابلہ نہیں کرسکتے سب سے آسان بچاؤ کا یہی طریقہ ہے کہ اگر کوئی ان کی انگلی پکڑ کر کہیں لے جاتا ہے یا چیز دلانے کا کہتا ہے یا خود کو بچی یا بچے کے والد کا دوست بتاتا ہے تو بھی وہ اس کے ساتھ نہ جائیں بلکہ زور زور سے چیخ کر ارد گرد کے لوگوں کو متوجہ کرے اور بتائے کہ یہ شخص اسے اغوا کرنا چاہتا ہے۔

اغوا اور زیادتی کی زیادہ تر وارداتوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچی یا بچہ چیز لینے گھر سے باہرگئے، سیپارہ پڑھنے گئے یا ٹیوشن جانے کے لیے گھر سے باہر نکلے اور بد بخت، بد کردار ذہنی مریضوں کے ہاتھ لگ گئے اور پھرکہیں نہ کہیں سے ان کی لاش ملی۔ پاکستان میں انسانوں کی اہمیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہے۔

سارا نظام عدل اور پولیس کا محکمہ صرف اور صرف حکمرانوں، امیر زادوں اور اسمبلی کے ممبران کے لیے ہے۔ پوری قوم لاوارث ہے۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ آئے دن اغوا قتل اور زیادتی کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ نا اہل اور ناتجربہ کار پولیس یونہی بے گناہ لوگوں پر گولیاں برساتی رہے گی۔ پروٹوکول کے نام پر یونہی سڑکیں بند ہوتی رہیںگے، ایمبولینسوں میں لوگ اسپتال جانے کے بجائے قبرستان پہنچتے رہیںگے۔ شہر کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوتے رہیں گے۔

لوٹ مارکا بازار پولیس کی سرپرستی میں یونہی چلتا رہے گا۔ بینکوں میں ڈکیتیاں یوتی رہے گی۔ اسپتالوں میں لوگ دوائیں نہ ہونے کی بنا پر مرتے رہیںگے۔ بچے اور بڑے اغوا ہوتے رہیںگے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج کی زندہ مثال پاکستان ایک ایسے دوراہے پہ کھڑا ہے کہ جہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ دعوے بڑے بڑے ہیں لیکن کام کوئی نہیں۔

ایک طرف مدرسوں کا جال بچھا ہے، یہ خبریں بھی آئے دن آتی رہتی ہیں کہ مسجد کے مولوی نے کسی بچے کے ساتھ زیادتی کی، مدرسوں میں رہائش پذیر بڑی کلاسوں کے طالب علموں کا چھوٹی کلاس کے طالب علموں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، بچوں کو خوفزدہ کیا جاتا ہے کہ اگر انھوں نے اپنے والدین کو بتایا تو وہ انھیں جان سے ماردیںگے۔ بچے خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو اعتماد میں لیں اور ان سے اسکول یا مدرسے  کے بارے میں بات کرتے رہیں۔

اگر آپ کا بچہ خوف زدہ دکھائی دے رہا ہے، کھانا نہیں کھا رہا، اسکول جانے سے گریزاں ہے تو فوراً نوٹس لیجیے اور اسکول کی ہیڈ مسٹریس یا ہیڈ ماسٹر سے بات کیجیے۔ کلاس ٹیچر کو مسئلہ بتایے اپنے بچوں کے جسم کا جائزہ لیتے رہیے۔ ماں کو چاہیے کہ بچہ اگر کسی جگہ درد کی شکایت کرتا ہے تو اس کا نوٹس سنجیدگی سے لے۔ بد قسمتی سے ماں باپ بچوں کی جانب زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ اسکول اور کوچنگ سینٹر بھیج کر وہ مطمئن ہوجاتے ہیں والدین کو چاہیے کہ وہ گلی محلے میں کھیلنے والے بچوں پر بھی نظر رکھیں۔ ان کے بچے کن بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں یا کن گھروں میں ان کا آنا جانا ہے آپ کو ان گھروں کی مکمل آگاہی ہونی چاہیے جہاں آپ کے بچے کھیلنے جاتے ہوں۔

اگر مندرجہ بالا طریقوں پر عمل کیا جائے تو ننھے بچوں کے اغوا اور ریپ کے واقعات رک سکتے ہیں لیکن وہی بات کہ جہالت بربادی کی ماں ہے۔ ہمارے قصبوں میں، گاؤں میں کوئی آگاہی نہیں ہے۔ آئے دن کھیتوں سے لاشیں ملتی ہیں انسان جانوروں سے گیا گزرا ہوگیا۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ایسے واقعات میں پنجاب سب سے آگے ہے۔ خواہ بچوں کا اغوا یا ریپ ہو یا گھریلو ملازماؤں پر تشدد کے واقعات۔ ہر جگہ پنجاب سر فہرست ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔