عوامی بادشاہ

عبدالقادر حسن  اتوار 21 جنوری 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

حکمرانوں کے بغیر گزارہ نہیں ورنہ جیسے حکمران ہمیں ملے اس سے تو بہتر تھا کہ ان کے بغیر ہی زندگی گزار لی جاتی۔ لیکن قدرت کا اپنا ایک قانون ہے انسانوں کے آوارہ اور سر کش گلے کو قابو میں رکھنے کے لیے کسی چرواہے کی ضرورت پڑتی ہے۔

ملکوں کے وجود میں آنے سے پہلے اس کام کے لیے قبائلی سردار ہوا کرتے تھے اور جب سے ملکوں کی سرحدوں کا تعین ہوا تو اس کے ساتھ ہی حکمران بھی وجود میں آگئے جن سے ہر وقت واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ اس لیے ان کی بناوٹ اور عادات یعنی ساخت، اقسام اور نسل پر غور کرنا بہت ضروری ہے اور یہ کام ایک مدت سے جاری ہے۔

اونچے دماغ رکھنے والے لوگ جنھیں چھوٹے ذہنوں والے حکمرانوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے انھوں نے اپنے انداز میں جتنی کچھ گنجائش اور اجازت تھی اس کا ذکر کیا ہے۔ مغل دور میں ایک شاعر تھا نظیریؔ، کئی ایسے شعر اس پر اترتے تھے جن کو وہ بیان نہیں کر سکتا تھا چنانچہ ایک بار اس نے شدید اضطراب میں کہا کہ لوگ میرے شعروں پر تو مجھے داد دیتے ہیں لیکن میں ان شعروں کا کیا کروں جو میں کسی کو سنا نہیں سکتا، شعرے کہ نگفتہ است نظیریؔ صلہ دارد۔

شاعر کی یہ کیفیت وقت کے حکمران کا ایک بھر پور تعارف تھا۔ ایک اور دانشور اور مصلح گزرے ہیں شیخ سعدیؔ شیرازی جو نظم و شعر کے بادشاہ تھے لیکن بادشاہوں کے محکوم اور غلام تھے۔ انھوں نے بھی نظیریؔ کی طرح اضطراب کی کسی کیفیت سے حیران ہو کر کہا کہ یہ بادشاہ بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں کبھی دشنام پر خلعت عطا کر دیتے ہیں اور کبھی کسی تعریف پر ناراض ہو جاتے ہیں۔

گاہے بدشناحے خلعت دہندگاہ بسلامے برنجدند۔ یہ تو ان بادشاہوں کی باتیں ہیں جو واقعی ہی بادشاہ ہوا کرتے تھے ان کے طرز حکمرانی سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔

وقت ایک جگہ کبھی نہیں رکتا اگرچہ حکمرانی کی سب سے پسندیدہ طرز بادشاہت ہی گردانی جاتی ہے اور آج کے دور میں بھی اس طرز حکمرانی کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن حکمرانی کرنے والوں نے اپنی حکمرانی کی شکل و صورت تبدیل کرنی شروع کر دی اور اس میں عوام کی خوشنودی کو بھی شامل کر لیا گیا جس کے لیے الیکشن کا سلسلہ ایجاد ہوا، اور اس طریقے سے نئے آنے والے حکمرانوں کو جمہوری کہا جانے لگا اور حکمرانی کی اس نئی نسل کے بعد جدی پشتی حکمرانوں کی نسل یا تو ختم ہو گئی یا بہت کم ہو کر رہ گئی اور اس کی جگہ نئی انتخابی نسل نے لے لی۔

شروع میں اس طرز حکمرانی میں بادشاہ کا ولی عہد حکمران نہیں بنتا تھا کوئی بھی ایرا غیرا ووٹ لیکر حکمران بن سکتا ہوتا تو وہ منتخب ہے اور عوام کی خوشنودی کا محتاج سمجھا جاتا ہے۔ لیکن کوئی بھی حکمران ہو اور کسی طرح بھی حکومت میں آئے اس کے اندر کا بادشاہت کا کیڑا نہیں مرتا جو حکومت پر بیٹھتے ہی پیدا ہو جاتا ہے اور ہر وقت دماغ میں کلبلاتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے جمہوری حکمرانوں نے بھی اپنے جاں نشین ولی عہد کی صورت میں عوام پر مسلط کرنے شروع کر دیے تا کہ ان کا اقتدار قائم رہے اور وہ حکمرانی کے مزے لوٹتے رہیں۔

شاہجہان بادشاہ جب قید ہو گیا تو اس نے اپنے اس وقت کے بادشاہ بیٹے سے کہا کہ چند بچے ہی بجھوا دو کہ جن کو پڑھا کر وقت کاٹتا رہوں اس پر نسل در نسل چلے آنی والی بادشاہت کے وارث نے فی البدیہہ کہا کہ ’’ہنوز بوئے سلطانی می دارد‘‘ کہ ابھی تک دماغ سے بادشاہت کی خو بو نہیں گئی۔

جمہوری سیاسی حکمران بظاہر تو بادشاہت کی ضد ہوتے ہیں اور ایسا ہی سمجھا جانے کی کوشش اور توقع رکھتے ہیں لیکن ان کی اکثریت کا انداز خسروانہ ہی ہوتا ہے اور جمہوریت کے عوامی لباس پر نظر نہ آنے والی بادشاہی قبا پہنے رکھتے ہیں جس کی کئی زندہ مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں اور ہم ان کے شاہانہ انداز حکمرانی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

بادشاہوں کی کئی ایسی بھی اقسام ہیں جو کہ حادثاتی طور پر اس منصب پر فائز ہو جاتے ہیں جیسے افغانستان کا حکمران بچہ سقہ جو ایک حادثے کی شکل میں ملک کا عارضی حکمران بن گیا تھا۔ لیکن ہم نے تو جمہوریت میں بھی کئی بچے سقے دیکھے ہیں جو کہ کہیں سے وارد ہوئے اور آناًفاناً ہمارے حکمران بن گئے اور بعد میں اپنی حاکمانہ گدڑی میں بہت کچھ لپیٹ کر چلتے بنے۔

حکمران جمہوری ہو یا غیر جمہوری وہ بادشاہ ہی ہوتا ہے۔ کوئی ووٹ سے بادشاہ بن جاتا ہے اور کوئی کسی وصیت کے بل بوتے پر بلکہ اب تو سیاسی جاں نشینی کا بھی سلسلہ شروع ہو چکا ہے تا کہ اپنے بعد حکمرانی اپنی اولاد کے سپرد کر دی جائے۔ ہم نے حکمرانی کا ایسا نظام وضع کر لیا ہے جس میں کسی عام آدمی کے لیے حکمرانی کی مسند تک پہنچنے کی تمام راہیں بند کر دی گئی ہیں۔ بلکہ ہم نے اپنے جمہوری اقتدار کو بادشاہت میں تبدیل کر رکھا ہے اور اقتدار کے تخت پر بیٹھتے ہی شاہی احکامات شروع کر دیے جاتے ہیں اور عوام ان احکامات کو بھگتنا شروع ہو جاتے ہیں۔

دردمند حکمران عوام کو کم ہی ملے سوائے اس سنہری دور کے جو کہ ایک معجزہ ہی تھا۔ مسلمان اسے اپنی تاریخ کا خلافت راشدہ کا دور کہتے ہیں جس میں چار بادشاہ ہوئے مگر غلاموں جیسی زندگی بسر کرتے رہے اور ان کے رہن سہن سے پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ ’عوام‘ ہیں یا بادشاہ۔ ہماری تاریخ ایسی مثالوں سے جگمگا رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔