زینب کا نوحہ، کیا فائدہ؟

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  پير 22 جنوری 2018
advo786@yahoo.com

[email protected]

قصور کی 7 سالہ زینب کے ساتھ پیش آنے والے بہیمانہ واقعے نے پورے پاکستان بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی ایک ہیجان برپا کردیا ۔ پارلیمنٹ سے لے کر یونین کونسل کی سطح تک اس سفاکانہ واقعے کے خلاف قرارداد مذمت پاس کی گئیں۔ مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کی جانب سے مظاہرے، ریلیاں، پریس کانفرنسز اور ننھی زینب کی یاد میں شمعیں روشن کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

حکومت کو واقعے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے اس سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اپنے اپنے مفادات اور عزائم کی تکمیل کی خاطر سیاسی بلیک میلنگ، پوائنٹ اسکورننگ وقتی شہرت حاصل کرنے اور ہیڈ لائن میں رہنے کا ایک مقابلہ جاری ہے، کچھ کہہ رہے ہیں کہ تعلیمی نصاب میں جنسی تعلیم کا مضمون لازمی شامل کیا جائے، ڈراموں اور میڈیا کے ذریعے بچوں میں اس سے متعلق آگہی مہم چلاکر ہی انھیں ایسے واقعات سے محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔

اپنے زمینی حقائق کا جائزہ لینے اور ایسے جرائم کے محرکات وجوہات کا جائزہ لینے اور اس سلسلے میں دانشوروں، علما، تعلیمی و نفسیاتی اور قانونی ماہرین سے مشورہ اور رائے و راہنمائی حاصل کرنے کے بجائے فلم و شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بٹھاکر مشورے اور راہنمائی حاصل کی جارہی ہے۔ ان سے کچھ شخصیات اپنے ساتھ بچپن میں بیتے واقعات طشت از بام کررہی ہیں۔

پی پی کی رہنما شازیہ مری نے اعلان کردیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو سندھ میں جنسی آگہی کی تعلیم نصاب میں شامل کریںگے۔ خود وزیر مملکت برائے اطلاعات نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا مضمون آج تک کسی بھی صوبے کے نصاب میں شامل نہیں کیا گیا ہے.

معصوم زینب کے ساتھ پیش آنے والا سفاکانہ واقعہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں ہے نصف صدی سے ملک کے کونے کونے میں روزانہ اس قسم کے لا تعداد واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ چند سال پیشتر لاہور میں سیکڑوں بچوں کا قاتل جاوید گرفتار ہوا تھا جس کی تحویل سے 100 بچوں کے ہڈیوں کے ڈھانچے بھی برآمد ہوئے تھے یہ شخص ماردیا گیا یا اس نے خودکشی کرلی مگر اس میں ملوث گروہ محفوظ رہا۔

2015 میں قصور ہی میں ڈھائی سو بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کا واقعہ سامنے آیا ان بچوں کی سیکڑوں کی تعداد میں ویڈیو فلمیں بناکر اندرون و بیرون ملک فروخت کی گئی تھیں۔ دھندے میں ملوث 25 رکنی گروہ بچوں کو بلیک میل کرکے پیسہ وصول کرتا، انھیں گھروں میں چوریاں کرنے پر مجبور کرتا اور ان کے والدین سے بلیک میلنگ کے ذریعے رقمیں وصول کرنے کا کاروبار کرتا تھا۔ گرفتار ملزمان نے اعتراف جرم بھی کیا تھا۔

اسی دوران جہلم میں بھی اسی قسم کے گروہ کا انکشاف ہوا تھا جو کم عمر بچوں کے ساتھ زیادتی کی فلمیں بناکر خاندان کو بلیک میل اور رقم وصول کرتا تھا۔ گلگت میں بھی 3 رکنی گروہ سامنے آیا تھا جس نے تین سو سے زائد گھرانوں کی خواتین کے ساتھ زیادتی کی ویڈیو فلم بناکر انھیں اور ان کے خاندان کو بلیک میل کیا تھا۔ متاثرہ خواتین کا کہناتھا کہ جرائم کے مرتکب افراد کا ان پر دباؤ ہے کہ کوئی قانونی چارہ جوئی نہ کی جائے۔

قصور کے بچوں کے کیس کے مرکزی کردار کے بارے میں خبریں بھی آئی تھیں کہ وہ ایک ایجنڈے کے تحت اس کیس کو اچھال کر ملک کو بدنام اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے یو این او تک لے جانا چاہتا ہے اور اس کی آڑ میں امریکا سیٹل ہونا چاہتا ہے۔

پاکستان میں بعض غیر ملکی قوتوں کے آلہ کار اور این جی اوز اس قسم کی حرکات میں ملوث رہی ہیں جو جعل سازی، دروغ گوئی، مبالغہ آرائی اور منفی پروپیگنڈے کے ذریعے ملک و قوم اور اسلامی تشخص کو داغدار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی ہیں بلکہ ایسے موقعے اور موضوعات پیدا کرتی ہیں اب تو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی ایسی سازشوں کے ذریعے اپنے آقاؤں کے مفادات پورے کرنے کے راستے پر گامزن ہیں۔ دو سال قبل چوہدری نثار نے اس قسم کی این جی اوز کے خلاف بھرپورکارروائی کا آغاز کرکے ان کے ذرایع آمدنی و اخراجات او سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے کا اقدام اٹھایا تھا۔

سندھ اسمبلی کے اجلاس میں نصرت سحر عباسی نے اپنے ایک توجہ دلاؤ نوٹس میں انکشاف کیا کہ سندھ میں 2017 کے دوران 1894 بچے لاپتہ ہوئے ہیں۔ دو سال قبل سندھ ہائی کورٹ میں بھی اس بات کی باز گشت سنی گئی تھی کہ صرف کراچی میں 50 ہزار کے قریب لاوارث و بے گھر بچے ہیں جن میں سے 20 ہزار کے قریب بچے سڑکوں، فٹ پاتھوں اور پارکوں میں سوتے ہیں۔ ہائیکورٹ نے محکمہ سماجی بہبود کو ان تمام بچوں کو اپنی تحویل میں لے کر ان کی کفالت کرنے کا حکم دیا تھا۔

جاگیردارانہ معاشرے میں ہمارے اکثر مسائل کی بنیادی وجہ حکومتی اداروں کا غیر فعال و غیر موثر یا سیاست زدہ ہونا ہے۔ طاقتور اور کمزور کے لیے انصاف کے الگ الگ پیمانے ہیں۔ دھنیہ چوری کے الزام میں غریب کسان کا مقدمہ تو سپریم کورٹ تک چلا جاتا ہے مگر کتے کو پتھر مارتے یا پھل توڑنے کے الزام میں بچوں کی زندگیوں کے چراغ گل کردینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آتی۔ اگر کبھی کوئی شاہ رخ جیسا طاقتور مجرم عوامی دباؤ کے تحت قانون کی زد میں آجائے تو متعلقہ ادارے اس کے سامنے بے دست و پا یا اس کے معاون و مددگار نظر آتے ہیں۔

اگر قانون شکنوں کو ان کے انجام تک پہنچنے دیا جائے تو کسی کی یہ ہمت نہ ہو کہ اسنیپ چیکنگ کے نام پر کسی خاندان کے اکلوتے بیٹے پر درجنوں فائر کرکے موت کے گھاٹ اتار دے۔ حکمران اور ارباب اختیار جس قسم کے رویے اختیار کررہے ہیں اس سے ظلم و جبر کی فضا میں مزید اضافہ ہوگا۔ کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ شہر میں 22 ہزار مجرم آزاد گھوم رہے ہیں پھر امن و انصاف کیسے قائم کیا جاسکتا ہے۔ قانون و انصاف کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی عدالتوں میں 19 لاکھ کے قریب مقدمات زیر التوا ہیں۔

غیر ملکی فلموں، ڈراموں، انٹرنیٹ، فیس بک، موبائل فونز، سوشل نیٹ ورکنگ پر ویڈیو چیٹ، الصبح اسکول، کالجز، دفاتر اور فیکٹریوں سے پہلے کھلنے والے آئسکریم پارلر، نیٹ کیفے، شیشہ نوشی کے مراکز اور میڈیا کا کلچر نوجوان نسل کی آنکھیں حیرہ اور عقل ماؤف کرکے ہیجان خیز اور بے راہ روی پیدا کررہا ہے۔

2 سال قبل کراچی کے ایک اسکول میں نوروز اور فاطمہ کی خودکشی کا واقعہ اسی پس منظر کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے جس میں دونوں بچوں کے رومن زبان میں لکھے خطوط فلمی انداز میں اﷲ اور والدین کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر کیا تھا کہ ’’آپ ہمیں ایک نہیں ہونے دیںگے، ہم اﷲ کے پاس ایک ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ ہماری لاسٹ وش ہے کہ ہماری قبریں ایک ساتھ بنائی جائیں، تھینکس گاڈ جی آپ نے مجھے میرے پیار سے ملادیا‘‘ خطوط کے مندرجات سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ بچے اپنی زبان، مذہبی و اخلاقی اقدار سے نا آشنا تھے جو والدین اور اساتذہ اور معاشرے کی عدم توجہ اور عدم دلچسپی کا شکار تھے وہ خودکشی کے لیے پستول کیسے لائے۔

ملک بھر میں بچوں کے اغوا، خرید و فروخت، بیگار کیمپ، گدا گری، بردہ فروشی انھیں اونٹوں کی ریس میں استعمال کرنا، ان کے جسمانی اعضا فروخت کرنا، انھیں جسم فروشی اور دیگر جرائم پر مجبور کرنا اور نومولودوں تک کو اغوا کرنے کا کاروبار منظم طور پر جاری ہے۔ کیا تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم سے یہ تمام مسائل حل ہوجائیںگے، ملک کے کروڑوں بچے تو اسکول ہی نہیں جاتے یا پھر چائلڈ لیبر کرتے ہیں، ہمارے دیہی علاقوں میں تو اب تک خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کو بے حیائی سمجھاجاتا تھا اس قسم کے اقدام سے ایک بار پھر ان میں سوچ ابھرے گی کہ تعلیم ان کے بچوں کا اخلاق و کردار تباہ کردے گی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین و قانون کے مطابق ملک میں ایک صاف ستھرے فلاحی معاشرے کے قیام کے لیے اولاً موجودہ قوانین کا بلا لحاظ و بلا امتیاز اطلاق کیا جائے۔ اس کے بعد عصری ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی قانون سازی یا پرانے قوانین میں ترامیم کی جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔