زہریلی زراعت

سید معظم حئی  پير 22 جنوری 2018
moazzamhai@hotmail.com

[email protected]

دودھ کی جگہ کیمیکل اور بکرے کی جگہ گدھے کا گوشت کھانے والی قوم کو اس سے کوئی فرق تو نہیں پڑتا کہ ہمارے زرعی پیداواری عمل میں زہریلے مادوں کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ ہم زہریلی غذا اپنے معدوں میں اتارتے ہیں، مگر پھر بھی بہتر ہے کہ اس بارے میں بھی بات کرلی جائے تاکہ جب پے در پے این آر او کے ہاتھوں اپنے انجام اختتام کو پہنچنے والے ملک کے بارے میں مستقبل کے مورخ لکھیں تو انھیں دیگر جزئیات کا علم بھی ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ ہماری زراعت کے پیداواری عمل میں ہمارے عام خام اندازوں سے کہیں زیادہ زہریلے مواد شامل ہوتے ہیں۔ آپ مثلاً کیڑے مار کیمیکلز یعنی پیسٹیسائٹس کی ہی مثال لے لیجیے ان زہریلے کیڑے مارکیمیکلز کا مسلسل بڑھتا اور پھیلتا استعمال درحقیقت زراعت کے لیے فصلوں میں موجود کیڑوں سے بھی بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان ہر سال کیڑے مار مصنوعات میں شامل کیے جانے والے تقریباً 12000 ٹن ایکٹوکیمیکل اجزا در آمدکرتا ہے۔

ہمارے کسان اپنی فصلوں پہ نہ صرف کیڑے مار زہریلے کیمیکلز کا متواتر اسپرے کرتے ہیں بلکہ اکثر یہ اسپرے حد سے زیادہ بھی ہوجاتے ہیں جس کی ایک وجہ زرعی کیڑے مار زہریلی مصنوعات مارکیٹ کرنے والی کمپنیوں کے سیلزمینوں کی بعض اوقات گمراہ کن رہنمائی بھی ہے جنھیں ہر سال کمپنیوں کی مینجمنٹ کی طرف سے عموماً پہلے سے زیادہ کے سیلز ٹارگٹ دیے جاتے ہیں۔

کوئی تعجب نہیں کہ پھر فیلڈ میں یہ ایک خاص عام سی پریکٹس رہی ہے کہ اگر کسی زرعی کیڑے مار زہریلی کیمیکل پروڈکٹ کا سیلز ٹارگٹ مقررہ مدت میں حاصل نہیں ہو پارہا ہو تو کچھ متعلقہ کمپنیوں کے سیلزکے کچھ نمائندے کسانوں کو اپنے ڈھب پر لاکر وہ انتہائی شدت کے زہریلے کیمیکل جوکہ مثلاً کپاس کی فصل میں سنڈیوں/ رس چوسنے والے کیڑوں کے انتہائی شدید حملوں پہ استعمال ہوتے ہیں، وہ سبزیوں، پھلوں یہاں تک کہ نہایت باریک جلد رکھنے والے ٹماٹر تک کی فصل پہ اسپرے کروادیتے ہیں۔ ایک اور مسئلہ مارکیٹ میں سستے مگر انتہائی مضرکیڑے مار زہریلے کیمیکلزکی دستیابی کا بھی ہے۔

سالہا سال جیسے جیسے زہریلے کیمیکلز کے اسپرے کی تعداد اور مقدار میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے کیڑوں میں مزاحمتی طاقت بھی بڑھتی جارہی ہے جس کا نتیجہ ہیں اور زیادہ اسپرے یعنی یہ ایک تباہ کن سائیکل ہے جو بڑھتا ہی جا رہا ہے کچھ زہریلے کیمیکلز کے مالی کیولز (سالمے) دوسروں کے مقابلے میں فصل میں زیادہ عرصے تک موجود رہتے ہیں اورکچھ تو ایسے بھی ہیں جو بریک ڈاؤن ہوکے اور بھی زیادہ زہریلے اجزا میں ڈھل کر اور بھی زیادہ وقت تک نہ صرف فصل کو بلکہ زمینی سطح مٹی اور زیر زمین پانی کو بھی زہر آلود کرتے ہیں۔ ان زہریلے کیمیکلز کے اثرات پانی میں نائٹریٹ کی موجودگی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں زیر زمین پانی پہلے ہی انتہائی مضر زہریلے اجزا سے آلودہ ہوچکا ہے۔

سائنس ایڈوانسز جرنل کی 2017 کی ایک اسٹڈی کے مطابق پاکستان کے دریائے سندھ اور اس کی ذیلی شاخوں سے ملحقہ علاقوں میں زیر زمین پانی میں آرسنک (سنکھیا) کی مقدار پچاس سے دو سو مائیکرو گرام فی لیٹر پائی گئی جوکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی مقررکردہ دس مائیکروگرام فی لیٹرکی حد سے کہیں زیادہ ہے۔ پانی میں سنکھیا کی مسلسل موجودگی سے انسانوں کو جلد، پھیپھڑوں، گردوں اور مثانے کا کینسر لاحق ہوسکتا ہے۔

کیڑے مار زہریلے کیمیکلز کے اثرات ہوا کے ساتھ کھیتوں کے علاوہ آس پاس کے علاقوں میں بھی پھیلتے ہیں اور سانس کے ذریعے انسان اور مویشیوں کے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ یہ زرعی کیڑے مار زہریلے کیمیکلز کھیتوں سے نہروں اور دریاؤں تک پہنچ کر انھیں بھی زہر آلود کرتے ہیں۔ زرعی کیڑے مار زہریلے کیمیکلز جن پلاسٹک کی بوتلوں،کین اور ڈرم میں پیک ہوتے ہیں وہ اپنی جگہ ایک الگ مسئلہ ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ان کی محفوظ تلفی اور ری سائیکلنگ کا کوئی باقاعدہ اور جدید نظام نہیں لہٰذا یہ بھی ہمارے ماحول اور انسانی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں ۔

ادھر ملک بھر کے شہری اور دیہی علاقوں میں پلاسٹک کی تھیلیاں ایک موذی وبا کی شکل اختیارکرگئی ہیں۔ ہر روز کروڑوں، اربوں کی تعدادمیں پھینکی جانے والی یہ پلاسٹک کی تھیلیاں کوڑے ور سیوریج میں شامل ہوکر ملک بھر کے ندی نالوں، دریاؤں اور سمندرکوآلودہ کررہی ہیں۔ اس طرح یہ پلاسٹک کی تھیلیاں نہ صرف آبی حیات کو نقصان پہنچارہی ہیں بلکہ ہماری زرعی زمینوں کی مٹی کی زرخیزی کو بھی متاثر کررہی ہیں۔

دوسری طرف ہر روز ہزاروں ٹن انسانی، شہری اور صنعتی فضلہ بے دریغ ہماری نہروں، دریاؤں اور سمندر میں پھینکا جا رہا ہے اور وہ بھی بغیر فلٹر کیے۔ پھر انہی انتہائی آلودہ نہروں، دریاؤں کا پانی ایک طرف لوگوں کو پینے کے لیے فراہم کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف یہی زہریلا پانی زراعت میں بھی استعمال ہورہا ہے۔ اس طرح کے انتہائی آلودہ پانی سے کاشت ہونے والی زرعی پیداوار صحت افزا نہیں ہوسکتی۔

کئی علاقوں خصوصاً سندھ کی نہروں، دریاؤں اور تالابوں، جھیلوں میں لوگ زہریلے مادے پھینک کر مچھلیاں پکڑتے ہیں اور پھر یہی زہر آلود پانی انسانوں کے استعمال کیے اور زراعت میں آبپاشی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں سیوریج کے کھلے تالاب، ٹینک اورکنویں زیر زمین پانی کو مزید آلودہ کررہے ہیں جو انسانوں کے استعمال کے ساتھ ساتھ زراعت میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

پاکستان کی کئی طرح سے زہریلی ہوتی زراعت کو بچانے کے لیے کئی سمتوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے مثلاً کسانوں کو آئی پی ایم یعنی انٹیگریٹڈ پیسٹ مینجمنٹ کی تربیت دینا، جس میں کسانوں کو فصل میں موجودکیڑوں کی موجودگی کو نقصان کی معاشی حد سے کم رکھنے کی تیکنیکس سکھائی جاتی ہیں تاکہ زرعی کیڑے مار زہریلے کیمیکلزکے اسپرے کی زیادتی سے بچا جائے۔

اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو وسیع پیمانے پرکسانوں کے تربیتی پروگرام چلانا ہوںگے ساتھ ہی وفاقی حکومت کو مختلف ترغیبات اور پابندیوں سے متعلقہ کمپنیوں کو زہریلے کیمیکلزکی جگہ حیاتیاتی سلوشنز کی تیاری اور مارکیٹنگ پہ راغب کرنا ہوگا۔

پلاسٹک کی تھیلیوں کی تباہ کن وبا کے خاتمے کے لیے سچ مچ کی این جی اوز۔ نجی کمپنیوں اور سرکاری اداروں کو لوگوں میں روزمرہ کے سودا سلف لانے کے لیے کاٹن، کپڑے کے بنے گروسری تھیلوں کی بڑے پیمانے پر مفت تقسیم کرنی ہوگی اور ساتھ ہی میڈیا کے ساتھ مل کر اس بارے میں آگہی مہم بھی چلانی ہوگی وہ بھی مسلسل، کچرے اور سیوریج کے ملک گیر سیلاب سے نمٹنے کے لیے (1) پورے ملک میں جدید ترین ڈبلیو ٹی ای (ویسٹ ٹو اینرجی) پلانٹس کا ایک وسیع نیٹ ورک لگانا ہوگا تاکہ انسانی اور شہری فضلہ ہمارے ہوا، پانی اور مٹی کو آلودہ کرنے کے بجائے ہمارے لیے توانائی کی پیداوار میں کام آئے۔ (2) ساتھ ہی پورے ملک میں نہروں، دریاؤں اور سمندر میں شہری، صنعتی اور زرعی علاقوں کے استعمال شدہ آلودہ پانی گرنے کے مقامات پہ پانی فلٹر کرنے کے پلانٹس لگانے ہوںگے۔

زراعت کا شعبہ پاکستان کے جی ڈی پی کا تقریباً 20 فی صد ہے جہاں ملک کے تقریباً 42 فی صد محنت کش کام کرتے ہیں اور جو ملک کی تقریباً تمام آبادی کی بیشتر غذائی ضروریات پوری کرتا ہے مگر چونکہ ان تمام مسائل اور ان کے حل پہ کام کرنا مال، پانی، کمیشن اور آسان سستی شہرت کے لحاظ سے کافی ’’غیر منافع بخش‘‘ سا ہے چنانچہ آپ کو شاید ہی کبھی کوئی حکومت اوپر دیے گئے تمام مسائل اور ان کے حل پہ کوئی کام کرتی نظر آئے اور آپ کو شاید ہی کبھی ان حکومتوں کا کوئی فیملی دانشور اس بارے میں کچھ لکھتا یا بات کرتا نظر آئے۔

تو بس آپ زہریلی غذائیں کھاتے جایئے، ڈاکٹروں، اسپتالوں کے چکرکاٹتے جایے، سیاست کے چٹخارے لیتے جائیں بدترین لوگوں کو منتخب کرتے جایے پھر چیخ پکار مچاتے جایئے اور بھلا آپ کوکیا چاہیے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔