ساری دنیا کو مسلمان بنانے کا آسان طریقہ  (دوسرا اور آخری حصہ)

سعد اللہ جان برق  پير 22 جنوری 2018
barq@email.com

[email protected]

اچانک ہمیں خیال آیا کہ معاشرہ اور نظام درست کرنے اور مکمل اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے ایک سیاسی + دینی پارٹی بنائی جائے۔ لیکن اچھی طرح سوچا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ سیاسی +دینی پارٹیاں بھی تو بہت ہیں۔ مدرسہ بنانے کا سوچا لیکن وہ بھی تو بیست و بسیار تھے۔ انھی پریشانیوں میں ایک دن خواب میں ایک نورانی بزرگ کی زیارت ہوئی۔ میں نے اپنا مسٔلہ پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہم کیا کریں؟ بزرگ نے فرمایا جہاد کرو۔ آنکھیں کھل گئیں تو طبعیت اچھی خاصی بشاش تھی گویا ہمیں نسخہ کیمیا مل گیا۔

اب مسٔلہ یہ تھا کہ کہاں سے شروع کروں؟ کیونکہ ہدف بہت زیادہ تھے۔ کافی سوچ بچار کے بعد میں نے تین ہدف چن لیے ۔ایک نائی تھا جو میری بار بار تلقین کے باوجود اپنی دکان چلارہا تھا اور لوگوں کی داڑھیاں مونڈھتا تھا۔ دوسرا ایک گانابجانے والا تھا جو میرے منع کرنے کے باوجود شادی بیاہ میں گا بجا کر گمراہی پھلا رہا تھا۔ تیسری ایک ماسٹرنی تھی جو خود بھی بے پردہ گھوم کر لوگوں کے ایمان خراب کرتی تھی بلکہ بے راہروئی کو خواتین میں فروغ دے رہی تھی۔

اب آخر وہ رات آئی جس میں نائی کو کیفر کردار تک پہنچانا تھا۔ لیکن نہ جانے کیوں روانہ ہونے سے پہلے مجھے سرشام نیند آگئی ۔خواب میں دیکھتا ہوں کہ وہ بزرگ جنہوں نے مجھے جہاد کی تلقین کی تھی قہر آلود نظروں سے دیکھ کر بولے۔میں نے تمہیں جہاد کا کہا تھا، قتال کا نہیں کہا تھا۔ جہاد ’’برائیوں‘‘ کے خلاف ہوتا ہے ’’بُروں‘‘ کے خلاف نہیں۔

برائی موجود ہو تو لاکھ برے قتل کر دو تو برائی ختم نہیں ہوگی۔ صرف بُرے ختم ہوں گے جن کے نیک ہونے کی بھی امید کی جا سکتی ہے۔ پھر سمجھ آئی کہ قتال کا حکم صرف مجاز اتھارٹی دے سکتی ہے کیونکہ اگر غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کیا گیا چاہے وہ کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو تو اس کی سزا وہی ہے جو کسی مومن اور مسلمان کو قتل کرنے والے کے لیے مقرر ہے۔

اور پھر میں جہاد باللسان اور جہاد بالقلم تو کر رہا تھا اور کون سا جہاد کروں۔ کافی سوچ بچار کے بعد سمجھ میں آیا کہ جہاد باالبدن اور باالمال کرنے کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ ایک ایسی تنظیم بنائوں جو خلق خدا کی خدمت کرے۔ اس میں کوئی مشکل نہ تھی لائوڈ اسپیکر میرے پاس تھا اورکچھ میرے ہی طرح لوگ بھی میرے پاس تھے۔ باہمی صلاح مشورہ سے طے پایا کہ چندے کی مہم چلائی جائے اور تنظیم کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ غریب لوگوں کا علاج معالجہ کیا جا سکے ایمولینس ڈسپنسری اور کلینک بھی کھول لیے جائیں اور چند ڈاکٹر بھی رکھے جائیں ۔ یہ کام بھی چل نکلا۔

تقریباً پورے علاقے میں لوگ اپنی زکوٰۃ اسقاط فطرانے اور قربانی کی کھالیں ہمیں دینے لگے۔ یہ بہت اچھا اقدام تھا اب تک لوگ زکوٰۃ فطرانے اور عشر وغیرہ اپنے طور پر غریبوں کو دیا کرتے تھے لیکن اب ہمارے ذریعے اچھے کاموں میں صرف کرنے لگے ۔ ایک الگ جگہ زمین خرید کر ہم نے ایک بڑی عمارت بھی کھڑی کرلی ۔لیکن ہمارے ان نیک کاموں کی جب شیطان کو خبر ہوئی تو وہ ہمارے درپے ہوگیا۔

علاقے میں ایک نہایت منہ پھٹ شخص الزام لگانے لگا کہ ہم غریب مستحق لوگوں کے منہ سے زکوٰۃ اور عشر یا قربانی کی کھالیں چھین کر یونہی ضایع کرتے ہیں اور لوگوں کو مفت خوری اور حرام خوری پر لگا رہے ہیں نیز ہم جو کام کر رہے ہیں وہ حکومت کی ذمے داری ہوتے ہیں۔

بڑی خطرناک بات یہ ہوئی کہ غریب غربا ان کی سننے لگے۔ ابلیس یہ نہیں جانتا تھا کہ ہم بھی تو غریبوں کی خدمت کر رہے ہیں لیکن ذرا ڈھنگ اور ترتیب سے کر رہے ہیں ہم نے ایک اسکول بھی کھولا تھا جس میں میٹرک تک تعلیم مفت دی جاتی تھی جس کی وجہ سے چائلڈ لیبر کا سلسلہ کم ہو گیا تھا لیکن وہ کم بخت اس میں بھی کیڑے نکالنے لگا کہ ہم معاشرے میں بے ہنر نیم خواندہ بیروزگاروں کی تعداد بڑھا رہے ہیں

ہم اس کے پاس ایک وفد بھی لے کر گئے اور اسے اپنی تنظیم میں عہدہ دینے کی بھی پیش کش کی لیکن وہ ضدی شیطان کے بہکاوے میں آکر اپنی شر پسندی سے باز نہیں آیا تب میں نے سوچا کہ شاید اب جہاد بالسیف کا وقت بھی آگیا ہے ۔اسلحہ تو میرے پاس تھا اورمیں نے کسی کو بتائے بغیر ایک رات اس پر جہاد بالسیف کر ہی دیا۔

چند روز تو میں بڑا خوش تھا لیکن پھر اچانک نہ جانے کیا ہو گیا کہ میرا ذھن میرے قابو سے باہر ہونے لگا  پھر بڑی مدت کے بعد اس بزرگ کو خواب میں دیکھا لیکن انھوں نے مجھے دیکھا تو منہ پھیر لیا۔ میں دوسری طرف ہو گیا تو انھوں نے ادھر سے بھی منہ پھیر لیا۔ میں ان کے پیروں میں گر گیا کہ آخر وہ مجھ سے کس پر بات پر ناراض ہیں اس پر انھوں نے صرف دو لفظ کہے کہے اور غائب ہو گئے۔ ابلیس کو ماردو۔

آنکھ کھل گئی تو پریشانی اور بڑھ گئی‘ ابلیس کو میں کہاں ڈھونڈ کر ماروں ۔کئی دن انتظار کیا کہ شاید خواب میں پھر بزرگ کی زیارت ہو جائے لیکن ناکام رہا تب میں نے دل ہی دل میں اندازہ لگایا کہ ابلیس کا استعارہ کس نظر آنے والی چیز پر لاگو ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی علمائے کرام اور مشائخ عظام سے خواب کی تعبیر پوچھتا رہتا تھا۔ وہ بھی بہت زیادہ طاقتور اور ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس میں اکیلے تو کیا اگر پورے عالم اسلام کو بھی اس پر چڑھا لائوں تو مار نہیں سکوں گا اگر صرف امریکا کے صدر کو بھی ماردوں تو ٹھیک ہے لیکن میں اس تک پہنچوں گا کیسے؟

اس بڑے ابلیس کو چھوڑ کر درجہ بدرجہ دوسرے ابلیسوں کا تصور کیا جو مجھے بتائے جاتے تھے یا میں خود جس میں ابلیس کے کچھ لچھن دیکھتا تھا اسی پریشانی میں ایک دن قسمت جاگی اور ساتھ ہی میں خواب میں جاگا تو بزرگ کا دیدار نصیب ہو گیا جو مسکرا رہے تھے۔ میں نے ایک لمحہ ضایع کیے بغیر اپنی پریشانی بتائی توانھوں نے ایک جانب اشارہ کیا ادھر دیکھا تو ایک آئینہ تھا اور اس کے اندر میں خود کھڑا تھا ۔فضا میں ان کی آواز گونج رہی تھی۔ اپنے اندر کے ابلیس کو مارلو۔

آنکھ کھولی تو سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ پلک جھپکنے میں کئی مہینے گزر چکے تھے لیکن میں یہی سمجھ رہا تھا کہ میں آنکھیں بند کیے ابلیسوں کو ما ر رہا ہوں سارا جہاں بدل چکا تھا۔ پہلے میں نے اپنے گھر کے لوگوں کو دیکھا بیٹے سب بدل چکے تھے۔

بیوی کاٹ دوڑنے کے بجائے میری خدمت کر رہی تھی اور بیٹے جن کے پاس میرے لیے دو منٹ نہیں تھے میرے چاروں طرف کھڑے تھے ان کے چہروں پر خشونت اور تکبر کی جگہ انکساری سی نظر آرہی تھی اس دن ہم سب نے مل کر پہلی مرتبہ اکھٹے کھانا کھایا حالانکہ سادہ اور ون ڈش تھا لیکن پہلے والے پر تکلف کھانوں سے زیادہ مزیدار تھا نیند بھی جلدی آگئی  اور انکھ لگتے ہی بزرگ مسکراتے ہوئے نظر آئے اور نہایت والہانہ انداز میں مجھ سے بغل گیر ہوتے ہوئے مبارکباد دی۔ مبارک ہو۔ تم نے میدان مارلیا اپنے آپ کو فتح کرکے سارے جہان کو فتح کر لیا۔

اپنے اندر کے ابلیس کو مارکر سارے ابلیسوں کا خاتمہ کر دیا‘ خود کو مسلمان بناکر تم نے ایک عالم کو مسلمان بنا دیا‘ اب تمہیں نہ کچھ کہنے کی ضرورت ہے نہ لکھنے کی نہ لائوڈ اسپیکر کی نہ مسجد کی نہ مدرسے کی نہ کسی اسلحے کی نہ فوج کی نہ تبلیغ کی نہ صحرانشینی کی اب تم نے خود کو مسلمان کر لیا ہے تو تم خود سراسرتبلیغ بھی ہو تقریر بھی تحریر بھی تمہارا ہر عمل ہر حصہ جسم ہر قدم ہر لفظ حتی کہ کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا سب بجائے خود سب سے بہترین تبلیغ، تحریر، تقریر اور جہاد ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔