شمالی اور جنوبی کوریا میں مذاکرات

ظہیر اختر بیدری  پير 22 جنوری 2018
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا کے سیاستدانوں کی مہربانی سے دنیا جہنم بنی ہوئی ہے، جہنم کے ان شاہکاروں میں شمالی اورجنوبی کوریا بھی شامل ہیں۔ عشروں سے یہ دونوں ملک کشیدگی اور تصادم کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں، اس کی اصل وجہ تو دوسری عالمی جنگ کے بعد بڑی طاقتوں کے درمیان ملکوں کا بٹوارا ہے لیکن دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ امریکا کے حکمران طبقے نے شمالی کوریا کے خلاف جنوبی کوریا کو اپنا فوجی اڈہ بنا رکھا ہے اور جنوبی کوریا میں ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر جمع کرکے شمالی کوریا کو مستقل دباؤ میں رکھنے کی شاطرانہ پالیسی پر کاربند رہا ہے۔

پچھلے کچھ عرصے کے دوران شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان کشیدگی میں اس قدر اضافہ ہو گیا تھا کہ دنیا ان دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ کے خوف میں مبتلا ہوگئی تھی۔ دونوں ملکوں کے سربراہ یہ احمقانہ دعویٰ کر رہے تھے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے بٹن ان کی میزوں پر لگے ہوئے ہیں۔

ایسی خطرناک صورتحال میں دنیا کے لیے یہ خبر باعث اطمینان ہے کہ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے سربراہان نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق شمالی اور جنوبی کوریا کے اعلیٰ ترین حکام نے دو برس بعد ہونے والی پہلی ملاقات میں مشترکہ سرحد پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا کے محکمہ خارجہ نے جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان ہونے والی بات چیت میں پیشرفت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مستقبل میں ہونے والی بات چیت میں شامل ہونے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہمارا اصل مقصد جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا ہے۔

بلاشبہ امریکی محکمہ خارجہ کی یہ خواہش بڑی مثبت اور خوش آیند ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوریا کو جوہری گندگی سے آلودہ کرنے کا نیک کام کس نے شروع کیا؟ امریکا کا حکمران طبقہ اس حوالے سے اس قدر ’’نیک نام‘‘ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی جس ملک میں بھی ایٹمی ہتھیار ہیں اس کی ذمے داری بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکا پر ہی آتی ہے امریکا اپنی جارحانہ اور عاقبت نااندیش پالیسیوں سے ملکوں کے درمیان ایسے حالات پیدا کردیتا ہے کہ متحارب ملک اپنے دفاع کے نام پر ایٹمی ہتھیار بنانے کی طرف چلے جاتے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد جب جرمنی اورکوریا کو دو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا تو ایک ٹکڑا یعنی شمالی کوریا روس کی سرپرستی میں آگیا اور دوسرا ٹکڑا امریکا کی سرپرستی میں آگیا۔ امریکا نے اس خطے پر اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے جنوبی کوریا کو اپنے ایک بڑے فوجی اڈے میں بدل دیا اور یہاں پر ایٹمی ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ بنادیا۔ امریکا کی اس جارحانہ پالیسیوں کا فطری نتیجہ یہی تھا کہ شمالی کوریا کا حکمران طبقہ بھی ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں لگ گیا۔

امریکا اس حقیقت سے واقف تھا کہ اگر شمالی کوریا ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوگیا تو اس کے لیے بہت سنگین مسائل پیدا ہوجائیں گے، سو اس نے شمالی کوریا کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیا اور ایٹمی ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال سے دنیا کو اس قدر خوفزدہ کردیا کہ روس اور چین بھی شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے لیے امریکا کی ہمنوائی کرنے لگے۔ لیکن شمالی کوریا کی قیادت نے اقتصادی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری جاری رکھی اور آخر کار وہ ایٹمی ہتھیار تیار کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ یوں امریکا کی دادا گیری کے آگے نہ صرف سر تان کر کھڑا ہوگیا بلکہ اس کی سپر پاوری کا جنازہ بھی نکال دیا۔

شمالی کوریا کی قیادت نے یہ بتا کر کہ امریکا کے شہر اس کے ایٹمی ہتھیاروں کی رینج میں ہیں اور شمالی کوریا جب چاہے انھیں نشانہ بناسکتا ہے۔ امریکا کی داداگیری کو اس طرح سر نگوں کردیا کہ ٹرمپ جو بار بارکہہ رہا تھا کہ شمالی کوریا پر ایٹمی حملے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے شمالی کوریا سے براہ راست اور بالواسطہ طور پر مذاکرات کی خواہش کا اظہار کرنے لگا اور درپردہ کوششوں کی وجہ سے اب دونوں کوریاؤں کے سربراہوں نے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کردیا ہے، امریکا کا کہنا ہے کہ اس کا اصل مقصد جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا ہے۔

بلاشبہ ایٹمی ہتھیاروں سے جزیرہ نما کوریا ہی کو نہیں بلکہ ساری دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ہے لیکن اگر اس کام میں امریکا کسی امتیازی پالیسی پر چلتا ہے تو دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگا۔

اس حوالے سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر نظر ڈالیں تو یہ بدنما حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ امریکا ایران کو تو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے اقتصادی پابندیوں سمیت کئی حربے استعمال کر رہا ہے لیکن اسرائیل کو اس نے جنوبی کوریا بنا رکھا ہے۔ اسرائیل ایران کو اپنا حریف سمجھتا ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بناکر اس کی سپرمیسی کو ختم نہ کردے اور امریکا اسرائیل کی اس خواہش کو پورا کرنے میں اس کی مدد کر رہا ہے۔

اس حقیقت بلکہ المناک حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ دنیا کو آج ایٹمی ہتھیاروں سے جس طرح کا خطرہ ہے کرہ ارض کی جدید تاریخ میں ایسا خطرہ کبھی نہیں پیدا ہوا تھا اور بدقسمتی یہ ہے کہ اس خطرے کا آغاز خود امریکا کے حکمرانوں نے کیا۔ سب سے پہلے امریکا نے نہ صرف ایٹمی ہتھیار بنائے بلکہ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی ہتھیار (ایٹم بم) استعمال کرکے کروڑوں بے گناہ جاپانیوں کو ایٹمی آگ میں جلادیا۔ کیا ٹرمپ یا اس کے پیش رو اس جرم سے انکار کرسکتے ہیں کہ انھوں نے سب سے پہلے ایٹمی ہتھیار بنائے اور انھیں استعمال بھی کیا۔

آج دنیا کی 80 فیصد سے زیادہ آبادی غربت، بھوک، افلاس، بیروزگاری اور علاج سے محرومی کا شکار ہے اور دنیا کے سفاک حکمران ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کو سب سے زیادہ منافع بخش صنعت بنا کر اس میں کھربوں ڈالر لگا رہے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے منصوبہ ساز دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان علاقائی اختلافات پیدا کرکے متحارب ملکوں کو اربوں ڈالر کے ہتھیار خریدنے پر مجبورکر رہے ہیں اور دنیا کے پسماندہ ملکوں کی پسماندگی میں بالواسطہ اور بلاواسطہ اضافہ کر رہے ہیں۔

ایسے بدترین حالات میں شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان مذاکرات بلاشبہ خوش آیند ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شمالی اور جنوبی کوریا ہی متحارب ملک ہیں؟ بھارت اور چین، پاکستان اور بھارت، ایران اور اسرائیل نہ صرف متحارب ملک ہیں بلکہ ایٹمی ملک بھی ہیں۔ کیا امریکا ان ملکوں کے درمیان مذاکرات اور ان کے علاقائی مسائل کے حل کو ایٹمی جنگ کے خطرے سے نجات کے لیے ضروری سمجھتا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔