کامیابی کا فن سیکھئے

قاسم علی شاہ  اتوار 24 مارچ 2013
المیہ یہ ہے نوجوانوں کے پاس تعلیم اور ڈگری تو ہوتی ہے لیکن ان کے پاس کسی بڑے کام کو کرنے کی شدید خواہش نہیں ہوتی۔ فوٹو: فائل

المیہ یہ ہے نوجوانوں کے پاس تعلیم اور ڈگری تو ہوتی ہے لیکن ان کے پاس کسی بڑے کام کو کرنے کی شدید خواہش نہیں ہوتی۔ فوٹو: فائل

1970ء میںوہ فوت ہوگیا۔ اس وقت تک اس کی کتاب ’’تھنک اینڈ گروریچ‘‘ کی دو کروڑ کاپیاں فروخت ہوچکی تھیں اور اس کو انسانیت اپنا محسن مان چکی تھی۔

13 سال کی عمر میں ایک عام سے اخبار میں لکھنے کا سفر شروع کرنے والا ’’نپولین ہل‘‘ مرنے سے پہلے کروڑوں لوگوں کو جینے اور کامیاب ہونے کا فن سکھا چکا تھا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ کامیاب ہونے کے لیے ناکام ہونا ضروری ہے۔ اس کی زندگی کا سب سے اہم موڑ وہ واقعہ تھا جب وہ اپنے وقت کے سب سے امیر شخص ’’اینڈیوکارینگی‘‘ کا انٹرویو کرنے گیا اور اینڈیو نے اس کو ایک نیا راستہ دکھا دیا…کامیاب ہونے کا اور کامیابی کے راز سکھانے کا۔

نپولین ہل مرتے دم تک1908ء کو نہیں بھول سکا کیونکہ اس سال اس کی ملاقات اینڈیوکارینگی سے ہوئی تھی اور دوسرے لفظوں میں اس سال، اس کو کامیابی کا راز سمجھنے اور دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کا پتہ چل گیا تھا۔ اس نے 20 سال اس ریسرچ میں لگا دیئے کہ دنیا میں ہر شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے مگر ہوتا نہیں ہے۔ آخر وہ کون سے اصول اور قوانین ہیں جن کو کچھ کامیاب لوگ اپنالیتے ہیں اور پھر اتنے کامیاب ہوجاتے ہیں کہ دنیا حیران ہوجاتی ہے۔ 20 سال کی ریسرچ کیلئے اس نے 500 انتہائی کامیاب لوگوں کے انٹرویو لیے جن میں کچھ بہت معروف نام شامل ہیں مثلاً ایڈیسن، گراہم بل، ہنری فورڈ اور روزولیٹ۔

یہ ساری محنت تھنک اینڈ گروریچ کتاب کی شکل میں منظر عام پر آئی اور پوری دنیا نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا اور میری ذاتی رائے میں یہ کتاب ہر نوجوان کو پڑھنی چاہیے کیونکہ ہمارے سارے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں طالب علموں کو سب کچھ سکھا دیتی ہیں لیکن کامیاب ہونا نہیں سکھاتیں۔ کسی بھی طالب علم کو ماسٹر (M.A) کی ڈگری تب تک نہیں ملنی چاہیے جب تک وہ اس کتاب کو نہ پڑھ لے۔ آئیے ان تمام اسباق کو پڑھیں جنہوں نے ایک دنیا کو بدلا۔

-1 نپولین ہل کے مطابق کامیاب ہونے کیلئے صرف خواہش اور تمنا کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں ایک جنون اور جذبے کی ضرورت ہے۔ یہ جنون ہمیں دوسروں سے ممتاز کردیتا ہے۔ ہماری کامیاب ہونے کی تڑپ ہمیں چین نہیں لینے دیتی اور ہم ایک منزل کے بعد ایک نئی منزل کی جستجو میں لگ جاتے ہیں اور آخر کار کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ہل کے مطابق لوگ سست نہیں ہوتے بلکہ ان کامقصد اور ٹارگٹ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں جوش اور ولولہ ختم ہوجاتا ہے

۔ جنون آپ کی زندگی اور آپ کے کام میں کلر (رنگ) لے کر آتا ہے۔ اس کے بغیر آپ کی کامیابی کا سارا حسن ختم ہوجاتا ہے۔ المیہ یہ ہے نوجوانوں کے پاس تعلیم اور ڈگری تو ہوتی ہے لیکن ان کے پاس کسی بڑے کام کو کرنے کی شدید خواہش نہیں ہوتی اور اگر کسی کے پاس یہ جنون ہو تو اس کی رہنمائی کوئی نہیں کرتا اور وہ بھی ناکام ہوجاتا ہے۔

-2 کامیاب ہونے والے افراد کو خود پر یقین ہوتا ہے اور یہ یقین ان کی کامیابی کو بھی یقینی بنا دیتا ہے۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ’’یقین پہاڑ اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے۔‘‘ اگر آپ کو خود پر یقین نہیں اور نہ ہی اپنی ذات پر اعتماد ہے تو کوئی شخص آپ پر اعتماد اور یقین نہیں کرے گا۔ پڑھائی، کھیل، سائنس، سیاست، آرٹ اور میوزک سب شعبوں میں وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن کو خود پر اور اپنے کام پر مکمل یقین ہوتا ہے۔

ہمارا تعلیمی نظام اور والدین کی تربیت بچوں اور نوجوانوں میں اعتماد پیدا نہیں کرتی اور وہ زندگی کے ہر شعبے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ دنیا کے تمام بڑے کام اور تمام بڑی ایجادات یقین والوں کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ کہتے ہیں آپ کی زندگی کے دو دن بہت اہم ہوتے ہیں، ایک وہ دن جس دن آپ دنیا میں آئے تھے اور دوسرا وہ دن جس دن آپ کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ میں کسی بڑے کام کیلئے دنیا میں آیا ہوں۔

-3 نپولین کے مطابق وہ بات چیت جو ہم دوسروں سے کرتے ہیں اس سے زیادہ اہم وہ بات چیت ہے جو ہم خود سے کرتے ہیں۔ اسے خود کلامی کہہ لیں، انگلش میں اس کو آٹو سجیشن Auto-Suggestion کہتے ہیں۔ دراصل ہم جب خود سے بات چیت کررہے ہوتے ہیں تو ہم خود کو نئے چیلنج اور حالات کے لیے تیار کررہے ہوتے ہیں۔ زندگی میں ہونے والا کوئی واقعہ اور کوئی حادثہ اتنا اہم نہیں جتنا اہم یہ بات ہے کہ ہم نے اس واقعے اور حادثے کو معنی اور نام کیا دیا ہے۔ دنیا کا ہر بڑا انسان پہلے خود اپنے آپ کو مانتا ہے اور بعد میں دنیا کے سامنے اپنا آپ منواتا ہے۔ آپ کی خود کلامی آپ کے اندر سوئے ہوئے ’’جن‘‘ کو جگا دیتی ہے۔ سوئے ہوئے کا جاگنا اہم نہیں جتنا کسی جاگے ہوئے کا بیدار ہونا اہم ہے۔ ہمیں خود کو ہمیشہ اچھے جملے اور اچھے فقرے دینے چاہیں۔ ہمیشہ خود سے بات چیت کرتے ہوئے کہیں کہ آپ ایک بڑے مشن کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔

-4 کامیاب ہونے والے لوگوں کے پاس اپنے شعبے کا مکمل علم اور مہارت موجود ہوتی ہے۔ نپولین ہل کے مطابق ہمارے لیے ہر شعبے کے علم اور ہر مہارت کا سیکھنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ جس شعبے میں ہم نے کامیاب ہونا ہے اور جس شعبے میں ہم نے پیسہ کمانا ہے اس کا علم ہونا ضروری ہے۔ اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر نوجوان کو چاہیے کہ وہ کسی ایک شعبے کا ایکسپرٹ (Expert) یعنی ماہر بنے، اس طرح وہ اپنی صلاحیت اور وقت دونوں کوبہتر استعمال کرسکے گا۔

-5 نپولین ہل کے مطابق دنیا میں ہر چیز دوبارہ بنتی ہے، ایک بار کسی کے ذہن میں دوسری بار دنیا میں۔ اگر آپ کے ذہن میں آپ کی کامیابی کی تصویر نہیں ہے تو حقیقت میں بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جو (Imagine) تصور کرسکتا ہے۔ آپ کے اچھے تصورات ہی آپ کی زندگی کے معیار کا تعین کرتے ہیں، اس لیے پہلے کامیاب ہونے کا ایک خواب بنائیے، پھر اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کا سوچئے۔ یاد رکھیں اگر آپ کے پاس خواب نہیں ہے تو آپ غریب ہیں اور دنیا کا امیر ترین انسان بل گیٹس یہ کہتا ہے کہ ’’اگر آپ پیدا غریب ہوئے ہیں تو کوئی بڑا جرم نہیں لیکن اگر مرتے غریب ہیں تو پھر یہ ایک جرم ہے۔‘‘

-6 نپولین ہل کی ریسرچ بتاتی ہے کہ لوگ فیل نہیںہوتے بلکہ ان کی پلاننگ فیل ہوجاتی ہے کیونکہ کامیاب ہونے والے لوگ اچھے پلانر ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کو پلاننگ کرنی نہیں سکھائی جاتی، اگر وہ اپنی پڑھائی اور چھوٹی چھوٹی ذمہ داریوں کو پلان نہیں کر پاتے تو زندگی کو کیا پلان کریں گے۔ پلاننگ کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ لکھ کر رکھ لیں کہ اگلے سال آپ نے کہاں ہونا ہے اور اگلے دس سال میں آپ نے کیا کچھ حاصل کرلینا ہے۔ پلاننگ کی عادت آپ کو وقت کو منظم کرنا سکھاتی ہے اور وقت کا دوسرا نام زندگی ہے۔ سو جس کو زندگی بغیر پلاننگ کے گزارنا پڑگئی اس نے زندگی ضائع کردی۔

-7 میرے استاد واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری تقدیر ہمارے فیصلے کرنے کے لمحے میں بن رہی ہوتی ہے۔‘‘ نپولین ہل کی 20 سال کی ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ کامیاب لوگ اچھے فیصلے کرنے کے ماہر ہوتے ہیں، وہ یہ جانتے ہیں کہ انسان کا ہر فیصلہ درست نہیں ہوسکتا مگر غلط فیصلے سے بھی ایک درست سبق سیکھا جاسکتا ہے۔ فیصلہ کرنے کا فن بھی فیصلے کرنے سے آتا ہے۔

نوجوانوں کی اکثریت اس فن سے واقف نہیں ہوتی اور جب زندگی میں بڑے فیصلے کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔ دراصل ہمارا فیصلہ ہماری شخصیت اور ذات کے اظہار کا ذریعہ ہوتا ہے، جتنا مضبوط اور منظم ہماری ذات اور پرسنیلٹی ہوتی ہے اتنا طاقت ور اوراثر انگیز ہمارا فیصلہ ہوتا ہے۔ والدین کو چاہیے کے اپنے بچوں کو چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے کی عادت ڈالیں، نہیں تو وہ ساری زندگی ان کے محتاج بن جائیں گے اور محتاجی پیسے کی ہو یا فیصلہ کرنے کی صلاحیت کی دونوں ہی عذاب ہیں۔

-8 کامیابی پر کی جانے والی ریسرچ ’’تھنک اینڈ گروریچ‘‘ کا یہ باب ہمیں ایک بہت ہم راز بتاتا ہے۔ وہ راز یہ ہے کہ ’’دنیا کے انتہائی کامیاب اور امیر لوگوں کے پاس عام لوگوں کی نسبت بہت زیادہ مستقل مزاجی اور استقامت ہوتی ہے۔‘‘ آپ کی استقامت آپ کے راستے میں آنے والی مشکلات اور مصائب کو چھوٹا کردیتی ہے۔ کامیاب ہونے والے لوگ ہار نہیں مانتے کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ جیتنے والے بھاگتے نہیں ہیں اور بھاگنے والے کبھی نہیں جیتتے۔ کامیابی کا سفر دل توڑ دینے والا سفر ہے اور اس سفر کی سب سے بڑی قیمت جو ہمیں ادا کرنی ہوتی ہے وہ مستقل مزاجی ہے۔ خوش قسمتی سے مستقل مزاجی سیکھی بھی جاسکتی ہے اور پیدا بھی کی جاسکتی ہے اور اس کو پیدا کرنے کیلئے بھی ہمیں مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔

-9 نپولین ہل کا ماننا ہے کہ کوئی شخص اکیلا کوئی بڑی بزنس ایمپائر نہیں بناسکتا، اس لیے اس نے ریسرچ سے یہ ثابت کیا کہ دنیا کے امیر لوگ اپنے ساتھ لوگوں کا ایک گروپ اٹیچ کرتے ہیں اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ایک اور ایک مل کر گیارہ بن جاتے ہیں۔ ہمارا دماغ اکیلا کسی بڑے مشن پر کام نہیں کرسکتا، ہمیں کچھ مزید دماغ اپنے ساتھ ملانے ہوتے ہیں اور اس عمل کو نپولین ہل نے Master Mind کا نام دیا ہے۔ نپولین ہل کے مطابق امیر اور کامیاب ہونے والے لوگوں میں سوشل جینز پائی جاتی ہیں۔ یہ لوگوں کو ایک مقصد کے لیے ساتھ ملالیتے ہیں اور یہ گروپ مل کر ایک بڑا کام کر کے دکھا دیتا ہے۔

-10 نپولین ہل کے مطابق ہمیں دنیا فتح کرنے سے پہلے خود کو فتح کرنا ہوتا ہے اور خود کو فتح کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندر موجود خوف سے نبٹنا ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے اندر پائے جانے والے خوف کو ختم نہ کریں تو یہ خوف ہمیں ختم کردیتا ہے اور ہم کوئی بڑا کام نہیں کرپاتے۔ ہمیں غریب ہونے کے خوف، دوسروں کی تنقید کے خوف، بیماری اور موت کے خوف، کسی کے چھن جانے کے خوف، بڑھاپے کے خوف اور بڑے نقصان کے خوف سے جان چھڑانا ہوتی ہے۔

میرے مطابق ہمیں ملک کو کامیاب کرنے کیلئے نوجوانوں کو کامیاب ہونے کا فن سکھانا چاہیے اور اس فن کے سیکھنے کیلئے نپولین ہل کی کتاب سے بہتر راستہ نہیں کیونکہ اگر کسی نے ابھی تک کامیاب ہوکر مرنے کے فن کو نہیں سیکھا تو اسے جینے کا کوئی حق نہیں۔

(مضمون نگار معروف ٹیچر اور ٹرینر ہیں اور ان کے بے شمار لیکچرز یوٹیوب اور tune.pk پر موجود ہیں۔)

Facebook/qasim.ali.shah

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔