پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ۔ صوبوں میں اختلافات؟

مزمل سہروردی  منگل 23 جنوری 2018
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں اس وقت سب سے بڑا مسلہ صوبوں کے درمیان ہم آہنگی ہے۔ جب تک ہم ایک قوم کے طور پر متحد نہیں ہو ںگے تب تک پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔ دشمن نے ہمارے اتحاد پر حملہ کر دیا ہے۔ ہم ایک قوم بننے کے بجائے مختلف قومیتوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔آپس کے اختلافات نے ہمارے وجود کو خطرہ لا حق کر دیا ہے۔

سندھی، بلوچی، پٹھان اور پنجابی ایک دوسرے کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم محسوس کر بھی رہے ہیں لیکن دھیان نہیں دے رہے۔پاکستان کو متحد رکھنے کے لیے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنی ہو گی۔ باہمی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے اس پر بات کرنی ہو گی۔

یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم این ایف سی ایوارڈ پر متفق نہیں ہو سکتے۔ وسائل کی تقسیم پر اختلاف کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ مردم شماری پر اختلافات ہیں۔ ہم فوج کی نگرانی میں ہونے والی مردم شماری پر بھی متفق نہیں ہیں۔ پانی کی تقسیم پر اختلا فات ہیں۔ ڈیموں کی تعمیر پر اختلافات ہیں۔ بجلی کی رائلٹی پر اختلافات ہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو اختلافات ہی اختلافات ہیں۔ ان اختلافات نے ہماری اکائی کو خطرہ میں ڈال دیا ہے۔

یہ درست ہے کہ اختلاف ایک صحت مند معاشرے کی نشانی ہیں۔ ان سے ڈرنا نہیں چاہیے۔لیکن ایک زندہ معاشرہ اختلاف کو حل بھی کرتا ہے۔ ایک ہی اختلاف کو جب کئی دہائیوں تک زندہ رکھا جائے تو وہ ناسور بن جاتا ہے۔ جس طرح اختلاف پیدا ہونا ایک صحت مند رحجان ہے اسی طرح اختلاف کو ختم کرنا ،اس کا حل تلاش کرنا بھی ایک صحت مند رحجان ہے۔

صوبوں کے درمیان سیاسی اختلاف کوئی خطرے کی بات نہیں ہے۔ ہر علاقے کی اپنی سیاسی ضروریات اور سیاسی سوچ ہو سکتی ہے۔ لیکن پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اختلاف نفرت کا روپ دھارتا جا رہا ہے۔ ہم ایک قوم بننے کے بجائے ایک دوسرے کو  دشمن سمجھنے لگے ہیں۔ سماجی اور معاشرتی اختلافات نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔

پہلے چھوٹے صوبوں میں پنجاب کے خلاف نفرت پیدا کی گئی۔ ہر طرف پنجاب کے خلاف بات شروع کی گئی۔ پنجاب کھا گیا۔ پنجاب نے چھوٹے صوبوں کا حق مار لیا۔ پنجاب کی سوچ ۔ پنجاب کی فوج۔ پنجاب کی بالادستی۔ بات یہاں سے شروع ہوئی لیکن شروع میں پنجاب میں اس حوالے سے رد عمل نہیں تھا۔ پنجاب میں دوسرے صوبوں کے رہنے والے محفوظ تھے۔ پنجاب میں قومیت کی کوئی بات نہیں تھی۔ بلکہ پنجاب میں تو پنجابی زبان کی بھی کوئی بات نہیں تھی۔ پنجاب کی ثقافت کی بھی کوئی بات نہیں تھی۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پنجاب میں بھی ماحول بدل رہا ہے۔

پہلے چھوٹے صوبوں میں پنجابی محفوظ نہیں تھے۔ کراچی سے پنجابیوں کی بوری بند لاشیں آناشروع ہوئیں۔ پھر قبائلی علاقوں میں پنجابیوں کے لیے حالات خراب ہوئے اور پھر بلوچستان میں پنجابیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع ہوئی۔ اس سب کے نتیجے  میں پہلے کراچی سے پنجابیوں کا انخلا شروع ہوا۔ بلوچستان میں تو دشمن نے انتہا کر دی اور پنجابیوں کو کوئٹہ سے ایک ایک کر کے نکالا گیا۔ پہلے پنجاب کے بچے چھوٹے صوبوں میں داخلہ لیتے تھے اور بہت شوق سے وہاں پڑھنے جاتے تھے لیکن پنجابی طلبا نے مخصوص حالات کی وجہ سے داخلہ لینا بند کردیا۔ پنجابی بچے خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگے۔

لیکن پنجاب میں اس کا رد عمل نہیں تھا ۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اب پنجاب میں ایسی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ طلبا اور اسلامی جمعیت طلبا کے درمیان آئے روز کا تصادم پاکستان کی بقا کے خطرہ کی علامت ہے۔ اگر یہ تصادم بڑھ گیا تو یہ پاکستان کے اتحاد پر ایک کاری ضرب ہو گی۔

ہم کئی سال تک اس کا خمیازہ بھگتیں گے۔ یہ چنگاری نہیں ہے یہ آگ جو پاکستان کو کئی سال اپنی لپیٹ میں رکھے گی۔ لاہور میں دہشت گردی کے بڑے واقعات کے بعد لاہور میں مقیم افغانیوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔اس پر بھی ایک کمیونٹی نے واویلا شروع کردیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کہ پولیس کی جانب سے کوئی زیادتی نہیں کی گئی ہو گی لیکن یہ بھی تو دیکھا جائے کہ پنجاب میں دہشت گردی کی زیادہ تر وارداتوں میں کس علاقے کے لوگ ملوث تھے۔

یہ بات تو اب ثابت ہو گئی ہے کہ پولیس چاروں صوبوں کی ایک جیسی ہے۔ بے شک عمران خان پنجاب  پولیس کو جتنی مرضی گالیاں دے دیں۔ لیکن کراچی کی پولیس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہاں بھی حالات کوئی مختلف نہیں ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور مردان کے واقعات نے کے پی کے کی پولیس کا بھی پول کھول دیا ہے۔ بلوچستان میں تو پولیس کی کوئی رٹ ہی نہیں ہے۔ اس لیے وہاں کی پولیس کی بات کرنا ہی فضول ہے۔ بات سادہ ہے کہ پولیس کا کلچر ہی خراب ہے۔

لیکن بہر حال لاہور میں بالخصوص اور پنجاب میں پٹھانوں کے خلاف آپریشن پر بہت شور مچایا گیا۔ سب نے شور کیا۔ حتیٰ کے پنجاب کے پڑھے لکھے طبقہ نے بھی کہا کہ قومیت کی بنیاد پر کوئی آپریشن نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر بریک لگائی گئی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ  پنجاب کے اس موقف کی نفی ہو گئی کہ پنجاب میں کسی کے خلاف کوئی نفرت نہیں پائی جاتی۔ یہ درست ہے کہ لاہور میں ہونے والے بڑے دہشت گردی کے واقعات میں قبائلی علاقو ں سے تعلق نکلا لیکن اس بنیاد  پر سب کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ پاکستان کے اتحاد کے لیے خطرناک تھا اور ہے۔

آج پاکستان کے لیے اس کے معاشی مسائل کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ سیاسی مسائل کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سرحدوں پر گرمی بھی کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ تو ہمارے آپسی اختلافات ہیں۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

پاکستان اس وقت جس قسم کے حالات کا شکار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چاروں صوبوں کے درمیان ہم آہنگی بڑھانے کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کیے جائیں۔ اختلاف کو ختم کرنے کی راہ تلاش کی جائے۔ شائد اب پنجاب میں بھی برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سمجھانا ہو گا کہ پاکستان ایک ہے۔ ہم سب ایک ہیں۔ لیکن یہ صرف کہنے سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے عملی اقدمات کرنا ہو ںگے۔ ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم لاہور میں بلوچ طلبا کو گلے سے لگاتے رہیں اور بلوچستان میں پنجابیوں کو نشانہ پر رکھا جائے۔ تالی دونوں ہاتھوں سے بجے گی۔

یہ نہیں ہو سکتا کہ لاہور میں پٹھانوں کو خو ش آمدید کہا جائے اور خیبر پختوا اور فاٹا میں پنجابیوں کے جانے پر پابندی ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہو اور وہاں پنجابی غیر محفوظ ہو ں۔ حالات کو بدلنا ہو گا۔ ماحول کو بدلنا ہو گا۔ چھوٹے صوبوں کو احساس کرنا ہو گا کہ اب پنجاب مخالف سیاست نہیں چل سکتی۔ یہ پاکستان کے لیے خطرناک ہے۔ لیکن زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ہمیں اس کا حساس نہیں ہے۔ روم جل رہا ہے اور ہم بانسری بجا رہے ہیں۔ پوائنٹ اسکورنگ کر رہے ہیں۔ بس ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔