اسرائیلی وزیراعظم کی بھارت یاترا

شکیل فاروقی  منگل 23 جنوری 2018
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتے 130 ارکان پر مشتمل ایک بڑے وفد کے ہمراہ بھارت کی 6 روزہ یاترا کے دوران بھارت کے اسلام دشمن پردھان منتری نریندر مودی کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائیں۔ اسلام دشمنی دونوں وزرائے اعظم کے درمیان مذموم گٹھ جوڑ کی اصل بنیاد ہے۔ بقول شاعر:

کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر، باز با باز

یاد رہے کہ بھارت نے سرائیل کے ناپاک وجود کو 17 ستمبر 1950 میں تسلیم کیا تھا۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کسی قدر سرد مہری آگئی تھی، جس کا سبب آزادی فلسطین کے بعض گروپوں کی پاکستان مخالف سرگرمیاں تھیں جس کی وجہ سے بھارت نے ان گروپوں کو دارالخلافہ نئی دہلی میں اپنا دفتر قائم کرنے کی اجازت دے رکھی تھی جب کہ اسرائیل کا سفارت خانہ ممبئی میں قائم تھا جو صرف چار ارکان کے عملے پر مشتمل تھا۔

فلسطینی گروپ جورج حبش بنیادی طور پر عرب قوم پرستی پر یقین رکھتا تھا مگر یہ اصلاً عیسائی گروپ تھا۔ یہ گروپ بلوچستان میں سرگرم پاکستان مخالف بلوچ باغیوں کو بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی مدد سے تربیت دیتا تھا۔ اس حقیت سے تو اب پوری دنیا آشنا ہوچکی ہے کہ بھارتی ایجنسی ’’ارا‘‘ اور اسرائیلی ایجنسی ’’موساد‘‘ ایک دوسرے کی سگی بہنیں ہیں پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانا ان کا بنیادی ہدف ہے۔

دوغلا پن چانکیہ کے چیلوں یعنی بھارتی نیتائوں کی سیاسی گھٹی میں ہمیشہ سے شامل رہا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اسرائیل کا دارالخلافہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کی امریکی حالیہ قرارداد کی اقوام متحدہ میں دیگر ممالک کی طرح بھارت نے بھی مخالفت کی جس طرح ماضی میں بھارت کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی دوستی کا دم بھرا کرتے تھے۔ بھارت کی اس دوغلی پالیسی کا لب لباب یہ ہے

یزید سے بھی مراسم حسین کو بھی سلام

29 جنوری 1992کو اس وقت کے کانگریس وزیراعظم نرسمہا رائو نے بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کو مستحکم کرنے کا قدم اٹھایا ۔ 8 نومبر 2005 کو اسرائیل اور بھارت کے درمیان 220 ملین ڈالر کا معاہدہ طے پایا جس کے تحت اسرائیل نے پاکستان اور چین کی خفیہ نگرانی کرنے کے لیے بھارت کو 50 ڈرون طیارے فراہم کیے۔ اس کے بعد مارچ 2009 میں دونوں ممالک کے درمیان اسرائیلی اسلحے کی فروخت کا سب سے بڑا معاہدہ طے پایا، دو ارب ڈالر کے اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے بھارت کو میزائل فراہم کیے۔

دونوں ممالک نے اس معاہدے کو خفیہ رکھنے کی بہت کوشش کی لیکن ذرائع ابلاغ نے اس کا بھانڈا پھوڑدیا۔ 4 جولائی 2017 کو اسرائیل اور بھارت کے گٹھ جوڑ کا ایک نیا دور شروع ہوا جب بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی اسرائیل کی یاترا پر گئے۔ اس یاترا کے بعد بھارت کا چہرہ اور بھی بے نقاب ہوگیا اور فلسطینی عوام پر بھارت کی عیاریاں اور سازشیں کھل کر ظاہر ہوگئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کی حالیہ بھارت یاترا پر فلسطینی عوام اور ذرائع ابلاغ نے سخت تنقید کی ہے اور بھارت کے دوغلے پن پر اپنے غم وغصے کا اظہارکیا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دورۂ بھارت کے موقعے پر دارالحکومت نئی دہلی، مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی کئی ریاستوں میں مسلمانوں نے شدید احتجاجی مظاہرے کیے۔ مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں اسرائیل مخالف بینرز بھی اٹھائے ہوئے تھے اور وہ اسرائیل کے خلاف نعرے بھی لگارہے تھے۔ احتجاج کرنے والوں نے اسرائیلی وزیراعظم کا پتلا بھی جلایا۔

15 برس کے طویل عرصے کے بعد اسرائیل کے وزیراعظم کا بھارت کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اس سے قبل 2003 میں اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایریل شیرون بھارت کے سرکاری دورے پر آئے تھے۔ پردھان منتری مودی  نے اسرائیلی وزیراعظم کو ان علاقوں کا خاص طور پر دورہ کرایا جہاں گجرات کے وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے دوران انھوں نے بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کرایا تھا۔ اس کے علاوہ نیتن یاہو کو ممبئی، احمد آباد اور آگرہ بھی لے جایا گیا۔

طے شدہ پروگرام کے مطابق مودی کابینہ کے ایک وزیر کو ہوائی اڈے پر اسرائیلی وزیراعظم کا استقبال کرنا تھا لیکن پردھان منتری مودی تمام پروٹوکول توڑکر نیتن یاہوکا سواگت کرنے کے لیے بذات خود جا پہنچے۔ استقبال کے بعد مودی نے تصویر کے ساتھ ٹوئیٹر پر یہ پیغام جاری کیا ’’بھارت آمد پرخوش آمدید، میرے دوست وزیراعظم نیتن یاہوآپ کی بھارت یاترا تاریخی اور خاص ہے۔‘‘

دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات بڑی بے تکلف رہی جس کے بعد نیتن یاہو نے کہاکہ یہ بھارت اور اسرائیل کے درمیان دوستی کے ایک نئے دورکا آغاز ہے۔ مودی نے کہاکہ اسرائیلی وزیراعظم کا یہ دورہ دونوں ملکوں کی دوستی کو مزید مضبوط کرے گا۔ 130 ارکان پر مشتمل اسرائیلی وفد میں عسکری اورغیر عسکری 102 اسرائیلی کمپنیوں کے ممبران اور سربراہان بھی شامل تھے۔

اسرائیلی وزیراعظم کی بھارت یاترا کے دوران دفاع سائبر سیکیورٹی، سائنس وٹیکنالوجی، خلائی تعاون، تیل اور قدرتی گیس، سولر اور تھرمل ٹیکنالوجیز، ہوائی سفر اور ہومیوپیتھک ادویات بنانے کے حوالے سے 9 معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ اس موقعے پر بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی اور ان کے اسرائیلی ہم منصب نیتن یاہو بھی موجود تھے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری اعداد وشمار کے مطابق بھارت اور اسرائیل کے درمیان تجارت کا حجم 1992 میں 200 ملین ڈالر سے بڑھ کر اب 4 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

اسرائیل بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ وہ بھارت کو ہر سال اوسطاً ایک ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ ہنود اور یہود کا یہ گٹھ جوڑ پاکستان کے لیے خاص طورپر تشویش کا باعث ہے کیونکہ یہ دونوں اس کے ازلی اور بد ترین دشمن ہیں۔ اس گٹھ جوڑ کو امریکا کا آشیرواد حاصل ہے اسرائیل اور بھارت کے درمیان آزادانہ تجارت کا سلسلہ بھارت کے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کے دور میں 2007 میں شروع ہوا تھا۔

بھارت اور اسرائیل کی دوستی گزشتہ چند دہائیوں سے مزید گہری ہوتی چلی جارہی ہے، اس کے پس منظر میں وہ مفادات پوشیدہ ہیں ، جن کا تعلق دفاعی اورتجارتی مفادات کے علاوہ اسلام اور مسلم دشمنی سے بھی۔ ایک جانب اسرائیل فلسطینیوں پرظلم کے پہاڑ توڑنے میں مصروف ہے تو دوسری جانب بھارت مقبوضہ کشمیر میں مظلوم کشمیریوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔

کشمیریوں کے خلاف استعمال کیے جانے والے مہلک ہتھیار اسرائیل نے ہی بھارت کو سپلائی کیے ہیں۔ امریکی پالیسیوں میں یہودی لابی کے اثرورسوخ کا بھارت کو خوب اندازہ ہے۔ اسے معلوم ہے کہ یہودی لابی کو زیادہ سے زیادہ خوش رکھ کر ہی امریکا سے خوب خوب فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ بھارت، اسرائیل اور امریکا کا تکونی گٹھ جوڑ جنوبی ایشیا میں آنے والی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے۔

بھارت امریکا اور اسرائیل کی مدد سے خلائی سائنس اور دیگر شعبوں میں جس قدر تیزی سے ترقی کررہا ہے وہ پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارے خلائی سائنس کے اداروں کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی ہے کہ ہمیں امریکا کے صدر ٹرمپ نے افغانستان میں قیام امن کے لیے کام پر بھارت کو علاقے کا تھانے دار بنادیا ہے۔ ان حالات میں بھارت اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی قربت انتہائی تشویش کا باعث ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔