سائنسی میلے؛عام بچے کو سائنسدان بنانے کا آسان نسخہ

صادقہ خان  بدھ 24 جنوری 2018
جنوری میں ’خوارزمی سائنس سوسائٹی‘ کے اشتراک سے ’لاہور سائنس میلہ‘ ایک مرتبہ پھر اپنی رونقیں بکھیرنے کو ہے۔ (فوٹو: خوارزمی سائنس سوسائٹی)

جنوری میں ’خوارزمی سائنس سوسائٹی‘ کے اشتراک سے ’لاہور سائنس میلہ‘ ایک مرتبہ پھر اپنی رونقیں بکھیرنے کو ہے۔ (فوٹو: خوارزمی سائنس سوسائٹی)

پاکستانی معاشرے میں والدین ہوں، بچے یا اساتذہ، سب ہی کی زندگی روزمرہ کے ایک معمول کے گرد گھومتی ہے جس میں سائنسی میلوں یا مباحث جیسی دماغ کو متحرک رکھنے والی تقریبات کی کوئی گنجائش نہیں۔ یقیناً اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے تعلیمی نظام کی خرابی ہے جو بچوں کی مخفی صلاحیتیوں کو سامنے لانے کے بجائے انہیں محض سلیبس پورا کرنے اور امتحانات پاس کرنے پر اکساتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ والدین بچپن سے یہ بات ان کے ذہن میں بٹھادیتے ہیں کہ ایسے پیشے کا انتخاب کرنا ہے جس سے زیادہ تنخواہ والی اچھی نوکری بہ آسانی حاصل ہوجائے۔ یوں تعلیم کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے اور درسگاہوں سے وہ ڈگری ہولڈرز نکل رہے ہیں جن میں ملک و قوم کا نام روشن کرنے اور کچھ غیر معمولی کر دکھانے کا جذبہ ہی نہیں۔ ایسے ماحول میں سائنسی علوم کی ترویج کے لیے تقریبات یا سائنسی میلوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا بلاشبہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

چند برس قبل اشعر بھی لاہور شہر کے ایک معیاری انگلش میڈیم اسکول کا ذہین طالب علم تھا جس کی زندگی اپنے جیسے لاکھوں بچوں کی طرح گھر، اسکول، کوچنگ سینٹر اور امتحانات کی روٹین کے گرد گھومتی تھی۔ جس کی ساری ذہانت اور مخفی صلاحیتیں بھاری اسکول بیگ اور الم غلم کتابوں کے بوجھ تلے دفن ہوتی جارہی تھیں اور سلیبس کی کتابوں سے بے رغبتی کے باعث اس کا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر گزرنے لگا تھا۔

پھر ایک واقعہ اس کی زندگی بدل دینے کا باعث بنا۔ ہوا کچھ یوں کہ ان کے شہر میں مختلف سائنس سوسائٹیز کے اشتراک سے ایک بڑا سائنسی میلہ منعقد کیا جارہا تھا جس میں شرکت کےلیے پہلے اسکول میں سائنسی ماڈلز کا مقابلہ تھا۔ ذہین طلبہ و طالبات کےلیے یہ پہلا موقع تھا جب انہوں نے اپنی سائنس کی کتابوں کو پوری توجہ سے کھنگالا، تاکہ سائنسی ماڈل کےلیے کوئی آئیڈیا حاصل کرسکیں، مگر اشعر سمیت سب ہی کی اس حوالے معلومات بہت تھوڑی تھیں۔ ان کی یہ مشکل سینئر سائنس ٹیچر سر عمر نے کچھ یوں حل کی:

’’کسی بھی سائنس پروجیکٹ پر ابتدا ایک اچھے اور دلچسپ موضوع کے انتخاب سے کی جاتی ہے جو چیلنجنگ بھی ہو، تاکہ آپ کی مخفی صلاحیتیں کھل کر سامنے آسکیں۔ اس کے بعد متعلقہ موضوع پر درسی کتب، پریکٹیکل جرنلز یا انٹرنیٹ کے ذریعے مکمل معلومات حاصل کیجیے۔ اگر آپ کسی نئے موضوع پر کام کرنے کا رسک نہیں لینا چاہتے، تو کسی پرانے پروجیکٹ پر بھی کام کیا جاسکتا ہے مگر اس کےلیے ضروری ہے کہ ہفتہ، دس دن لگا کر مکمل تحقیق کے ساتھ کوئی نیا تصور یا رخ سامنے لانے کی کوشش کیجیے۔ ابتدا میں پیچیدہ پروجیکٹ کے انتخاب سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ ناتجربہ کاری کے باعث وہ آپ کےلیے دردِ سر بھی بن سکتا ہے۔

’’پروجیکٹ منتخب کرنے کے بعد اگلا مرحلہ لیبارٹری میں ماڈل کی تیاری اور اس کےلیے ضروری ساز و سامان کی فراہمی کا ہے جس کےلیے ایک ناتجربہ کار طالب علم کے بجائے آپکو ایک سائنسدان کے نقطۂ نظر سے سوچنا ہوگا۔ یاد رکھیے کہ یہ تجربات اور سائنسی میلے مستقبل میں سائنس کے میدان میں کچھ غیرمعمولی کر دکھانے کی پہلی سیڑھی ہیں۔ ہماری درس گاہیں اسی لیے سائنسدان پیدا کرنے سے قاصر ہیں کہ یہاں طلبہ و طالبات کے دماغوں میں سائنسی قوانین اور مساواتیں ٹھونسی جارہی ہیں اور انہیں از خود ثابت کرنے یا مزید تحقیق پر اکسایا نہیں جاتا۔

’’کسی بھی پروجیکٹ میں پیش رفت سے پہلے یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لیجیئے کہ منصفین (ججز) کے پیمانے پر وہی پروجیکٹ پورا اترتا اور قابلِ غور سمجھا جاتا ہے جس میں کم سے کم سامان اور لاگت کے ساتھ آئیڈیا کو بہترین انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ لہذا آپ کو نہ صرف ایک سائنسدان کی طرح سوچنا ہے بلکہ عمل بھی کرکے دکھانا ہوگا۔ یعنی ابتدائی ناکامی سے دل برداشتہ ہو کر کوشش ترک نہیں کرنی۔ یاد رکھیے! سائنس غلطیوں سے سیکھ کر نئے دروازے کھولنے کا نام ہے۔ گیلیلیو سے اسٹیفن ہاکنگ تک، آج تک کوئی نامور سائنسدان ایسا نہیں گزرا جسے ابتدائی مرحلے میں ہی ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑا ہو۔

’’اس سائنسی میلے کے انعقاد کا اصل مقصد یہی ہے کہ طلبہ و طالبات درسی کتب میں درج اور اساتذہ کے پڑھائے یا سکھائے کو حرف آخر سمجھنے کے بجائے اسے عملی طور پر پرکھنا اور برتنا سیکھیں۔ زندگی کا چلن ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ جیت اُن ہی کا مقدر بنتی ہے جو ہارنا سیکھتے ہیں؛ اور ان ہی کا نصیب بنتی ہے جو گرنے کے بعد ازخود اٹھنا اور غلطیوں سے سبق حاصل کرکے اپنی اصلاح کرنا جانتے ہیں۔ ماڈل یا پروجیکٹ میں کوئی استاد آپ کی غلطی کی نشاندہی نہیں کریگا، تجربہ بار بار دوہرا کر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے طویل اور کٹھن عمل میں بارہا آپ کی ہمت ٹوٹے گی، کئی دفعہ حوصلہ شکنی ہوگی، مگر آپ کی محنت رائیگاں ہرگز نہیں جائے گی۔

یہ سب کچھ بتانے کے بعد، سر عمر نے مزید کہا:

’’چونکہ آپ میں سے بیشتر بچے پہلی بار اس طرح کے مقابلے میں حصہ لے رہے ہیں، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سائنسی میلے کے کچھ اور فوائد بھی آپ لوگوں کو اختصار کے ساتھ بتادوں۔ ان مقابلوں میں جیتنے والے طلبہ و طالبات کے گروپس کو ملکی سطح پر مقبولیت تو حاصل ہوتی ہی ہے، لیکن اگر وہ اپنی کامیابی کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے نئی تحقیق سامنے لائیں تو انہیں نہ صرف بین الاقوامی سائنسی مقابلوں میں بھیجا جاتا ہے بلکہ ان کی تحقیقات کو معروف سائنسی جرائد میں شائع بھی کروایا جاتا ہے۔ اس سے ایک طرف ان کی تحریری صلاحیتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں تو دوسری جانب مستقبل میں بیرونِ ملک اعلی تعلیم کےلیے وظائف کا حصول بھی آسان ہوجاتا ہے۔ جبکہ بار بار مقابلوں میں شرکت سے پریزنٹیشن دینے کی صلاحیت اور خود اعتمادی بڑھتی ہے جو ایک سائنسدان بننے کی لازمی شرط ہے۔‘‘

سر عمر خان کے ایک گھنٹہ طویل لیکچر کے بعد جب اشعر اور اس کے ساتھی لیب سے نکلے تو ان کی ساری الجھنیں دور ہوچکی تھیں۔ اگرچہ اس برس ان کا گروپ سائنسی میلے میں شرکت کرنے میں کامیاب رہا مگر شہر بھر کے اسکول و کالجز کے طلبہ و طالبات کے سامنے وہ کوئی غیرمعمولی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے۔ اگلے برس وہ مکمل تیاریوں اور بھرپور تحقیق کے ساتھ ایک نئے پروجیکٹ کے ساتھ شریک ہوئے اور ہر جانب سے واہ وا سمیٹی۔

آج اشعر لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں سافٹ ویئر انجینئرنگ کا طالب علم ہے اور ایک بین الاقوامی ’’روبوٹکس‘‘ مقابلے میں شرکت کےلیے پوری طرح مستعد ہے۔

اشعرکی کامیابی کی یہ کہانی آپ کی بھی ہوسکتی ہے؛ آپ کے بچوں کی بھی ہوسکتی ہے۔ جنوری 2018 میں ’’خوارزمی سائنس سوسائٹی‘‘ کے اشتراک سے ’’لاہور سائنس میلہ‘‘ ایک مرتبہ پھر اپنی رونقیں بکھیرنے کو ہے۔ اپنی صلاحیتیوں کو آزمانے اور سائنسدان بننے کا خواب پورا کرنے کا ایک بہترین موقع آپ کا منتظر ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

صادقہ خان

صادقہ خان

مصنفہ کا تعلق کوئٹہ، بلوچستان سے ہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے فری لانس سائنس جرنلسٹ اور فزکس کی استاد ہیں۔ ڈان، اے آر وائی، جنگ اور ایکسپریس ٹرایبیون میں سائنسی مضامین لکھنے کے علاوہ سائنس فکشن ناول نگار اور ترجمہ نگار بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔