یارانِ نجد

رفیع الزمان زبیری  بدھ 24 جنوری 2018

مقبول جہانگیر نے اپنی کتاب ’’یارانِ نجد‘‘ میں جن شخصیات کا ذکر کیا ہے، ان سب کا تعلق کسی نہ کسی اعتبار سے عظیم شہر نجد لاہور سے رہا ہے اور جنھیں انھوں نے کسی قدر دور و نزدیک سے دیکھا تھا اور جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’’جو ذرہ جس جگہ تھا وہیں آفتاب تھا۔‘‘

یہ کتاب مقبول جہانگیرکی زندگی میں چھپی تھی اور اب چالیس سال بعد جب وہ اس دنیا میں نہیں، راشد اشرف نے اپنے پیپر بیک کتابوں کے سلسلے میں اٹلانٹس کے تعاون سے دوبارہ شایع کی ہے۔

احسان دانشؔ کا ذکرکرتے ہوئے مقبول جہانگیر لکھتے ہیں ’’احسان صاحب کی شاعری اور آواز دونوں جب جوان تھیں، ان کی شاعری جوشؔ صاحب کی شاعری کے شانہ بہ شانہ قدم اٹھا رہی تھی اور برصغیر کے چپے چپے اورگوشے گوشے پر ان کی آواز اور کلام کا سحر طاری تھا، تب ان کے بعض معاصرین اس غم میں بتاشے کی طرح گھلے جاتے تھے کہ یہ ان پڑھ مزدور ہر مقام پر ان سے آگے ہی آگے دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے اسے زک دینے، دھکیلنے، گرانے اوربھگا دینے کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے،اس کی داستان بڑی المناک ہے‘‘ خود احسان دانش اپنے ماضی کے شکرگزار تھے کہ جس نے انھیں ابتلا وآزمائش کی بھٹی میں ڈال کر کندن بنادیا۔ احسان دانش کہتے تھے، میری عمرکی باؤلی گہری ضرور ہے لیکن اندھیری نہیں۔ جب میں اس میں جھانکتا ہوں تو چاروں طرف طاقوں میں چراغ جل اٹھتے ہیں۔

اشرف صبوحی کا ذکرکرتے ہوئے مقبول جہانگیر لکھتے ہیں ’’حیران ہوں کہ دلی کے اس البیلے ادیب اور ادیب سے بڑھ کر ایک من موہنی شخصیت اور شخصیت سے بڑھ کر ایک نفیس انسان کا ذکرکن الفاظ میں کروں۔ان کی چال ڈھال نستعلیق، ان کی نشست وبرخاست شائستہ، ان کا سراپا سراپأ وقارومتانت، ان کا رکھ رکھاؤ، خوداری اور مروت۔ چپ رہیں تو بے سخن بے زبان، بولیں تو بلبل ہزار داستان۔ کسی کا چراغ ان کے سامنے نہ جلے۔ بڑے بڑے زبان آور اور برجستہ گو ان کے روبرو بونے دکھائی دیں۔‘‘

حفیظ جالندھری سے مقبول جہانگیر کا تعلق عقیدت مندانہ تھا۔ وہ لکھتے ہیں ’’حفیظ صاحب مجھ سے اس قدر قریب ہیں کہ میں کوشش کے باوجود ان کے خدوخال دیکھنے سے قاصر ہوں۔ نہ جانے کتنی بار یہ سوچ کر قلم اٹھایا کہ چند سطریں ’’یارانِ نجد‘‘ کے تذکرے میں حفیظ صاحب کی بانکی، سجیلی، نرالی اور کٹیلی شخصیت پر لکھوں مگر ہر بار پریشان ہوکر اس ارادے پر خط تنسیخ کھینچنا پڑا۔ قوس و قزح مجموعۂ ہفت رنگ ہے۔ حفیظ صاحب قوس قزح ہوتے تو میں ان کی آسانی سے ہفت رنگ تصویر بنا لیتا لیکن مصیبت یہ ہے کہ ان سات رنگوں سے جو اور بے شمار رنگ بنتے چلے گئے ہیں، ان کی تصویر کون بنائے؟‘‘

مقبول جہانگیر لکھتے ہیں ’’بہت برس ہوئے حفیظ صاحب نے ایک غزل کہی تھی۔ اس کا مطلع تھا:

رزاقِ دوجہاں کے خزانے کوکیا ہوا

ملتا ہے غم تو وہ بھی کسی کا دیا ہوا

میرا خیال کچھ ایسا ہے کہ حفیظ کی ساری دنیا ان کے اس مطلع کی تفسیر ہے۔ ہر چند انھوں نے اس نعمت الٰہی یعنی غم کو ہزار پردوں میں چھپانے کی کوشش کی مگر وہ آشکار وعیاں ہوکر رہا۔ شاید اسی کا اثر ہے کہ حفیظ صاحب بہت حساس ہوگئے ہیں۔ اس بھری پری دنیا میں وہ اپنے آپ کو تنہا پاتے ہیں۔ ان کو احساس کچھ یہ ہے کہ جیسے زمین اور آسمان ان کے دشمن ہوگئے ہیں۔ کبھی کبھی وہ اپنے سائے سے بھی بھڑکنے لگتے ہیں۔ دراصل وہ مردم گزیدہ ہیں۔‘‘

مقبول جہانگیر کی ملاقات حمید احمد خان سے اس وقت ہوئی تھی جب وہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ ان کے مزاج میں لطافت اور نزاکت کا امتزاج تھا۔ اس نے ان کی طبیعت میں حد درجہ نفاست پیدا کردی تھی۔ مقبول جہانگیر لکھتے ہیں ’’حمید احمد خان انگریزی کے پروفیسر تھے۔ انگریزی زبان ان کا اوڑھنا بچھونا رہی لیکن بہ ایں ہمہ وہ اردو کے عاشق تھے۔ جب بولتے اور برجستہ تقریرکرتے توکیا مجال انگریزی کا کوئی ایک لفظ بھولے سے بھی ان کی زبان پر آجائے۔ انھیں اپنے لب و لہجے پر حیرت انگیز قابو تھا۔ کوئی ان کی باتیں دل کے کانوں سے سنتا تو اقرارکرتا کہ یہ ایک شریف اور اچھے آدمی کا لب و لہجہ ہے۔ کبھی کبھی یہ تلوارکی دھار بھی بن جاتا۔ ایسی دھار جو فولاد اور ریشم کو یکساں صفائی سے کاٹتی چلی جاتی۔‘‘

مقبول جہانگیرکہتے ہیں حمید احمد خان میں اپنی ذات کی نفی کرنے کا جو فن تھا وہ انھوں نے اپنے استاد گرامی مولانا عبدالباری ندوی سے سیکھا تھا، جن کی ہستی نادر روزگار تھی۔

مقبول جہانگیر کو اپنی زندگی میں جن اچھے اور بڑے آدمیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ان میں رئیس احمد جعفری کا نام نمایاں ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’جعفری صاحب کا ذہن ہر وقت مصروف رہتا تھا۔ خیالات کی دنیا میں وہ کوسوں دور نکل جاتے تھے۔ شاید اپنی تصنیفات کو وہ پہلے اپنے دماغ میں پایہ تکمیل تک پہنچاتے تھے پھر صفحہ قرطاس پر اتارنے میں انھیں کچھ زیادہ دقت نہ ہوتی۔ ان کا حافظہ بہت عمدہ تھا، جس موضوع پر قلم اٹھاتے نت نئی معلومات کا انبار لگا دیتے تھے۔ ہزاروں شعر یاد تھے۔ اردو اور عربی کا تمام کلاسیکی ادب دیمک کی طرح چاٹ گئے تھے۔ ان کی علمیت ان کے چہرے سے آشکارا تھی اور زبان اس کی تصدیق کرتی تھی۔ ان میں ایک خوبی بڑی نادر و کمیاب تھی اور وہ یہ کہ وہ جس طرح دوسروں کے منہ پرکھری کھری کہہ دینے کے عادی تھے اسی طرح دوسروں سے کھری کھری سن لینے کا تحمل بھی رکھتے تھے۔‘‘

سراج نظامی کا ذکر کرتے ہوئے مقبول جہانگیر لکھتے ہیں ’’یہ شخص ایک آدمی نہیں ایک ادارہ تھا۔ لاہورکی قدیم تہذیب، شائستگی، شرافت اور سلیقے کی چلتی پھرتی تصویر۔ اس شاخ کا ایک پھول تھا جس شاخ کے سبھی پھولوں نے نصف صدی تک لاہور میں علم و فن کی دنیا کو معطرکیے رکھا اور پھر ایک ایک کرکے یہ پھول مرجھا گئے۔ سراج نظامی نیاز مندان لاہور کی اس محفل ہم نفساں کا ایک رکن تھا جس کی علمی، ادبی شوخیاں اور اہل زبان سے جس کی معرکہ آرائیاں دلوں اور دماغوں سے کبھی محو نہ ہوں گی۔‘‘

سراج نظامی موسیقار فیروز نظامی اورکرکٹر نذیر محمدکے بڑے بھائی تھے۔ مقبول جہانگیر لکھتے ہیں ’’وہ نہ صرف موسیقی کے رازداں تھے بلکہ فن شاعری کی ابجد سے بھی خوب واقف تھے۔ مصرع دیجیے اور تھوڑی دیر میں ایک مرصع غزل لے لیجیے۔ انھوں نے آخری دور میں طب بھی پڑھی اور باقاعدہ سند حاصل کی۔ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے کے ماہر تھے۔‘‘

مقبول جہانگیر بتاتے ہیں کہ علامہ اقبال سراج نظامی کی آواز پر مرتے تھے۔ احباب سے تقاضا کرتے کہ نظامی کو بلائیں۔ نظامی خود اقبال کے عاشق تھے۔ حکم پاتے تو سرکے بل جاتے اور گھنٹوں علامہ اقبال کو انھی کا کلام دل نشیں ترنم میں سناتے۔ علامہ خود بھی روتے اور دوسروں کو بھی رلاتے حتیٰ کہ نظامی بھی رونے لگتے۔

مولانا صلاح الدین کو مقبول جہانگیر نے پہلے پہل دیکھا تو دیر تک یقین نہیں آیا کہ یہ مولانا ہیں۔ ذہن نے ان کی جو تصویر بنا رکھی تھی وہ اس کے بالکل مختلف تھے۔ مقبول جہانگیر لکھتے ہیں ’’میں ان دنوں ہائی اسکول کا طالب علم تھا اور مولانا یوم اقبال کے ایک جلسے کی صدارت کرنے تشریف لائے تھے۔ وہ کسی رخ سے مولانا نہ تھے۔ ان کا بے داغ انگریزی سوٹ، ان کی گھنی موچھیں، ان کا پیٹ، ان کا ڈیل ڈول، ذہن کو ایک دھچکا لگا۔

مولانا صلاح الدین بھی اصل میں یارانِ نجد کے اس گروہ میں شامل تھے جنھیں ڈاڑھی مونچھوں کے بغیر علمی دنیا میں جانا پہچانا اور لکھا پڑھا جاتا تھا۔ مقبول جہانگیر لکھتے ہیں۔ ’’مولانا صاحب طرز نثر نگار تھے، بہترین مترجم تھے، انصاف پسند نقاد اور وسیع المطالعہ عالم تھے۔ مولانا صحیح معنوں میں شرافت، اخلاص اور حیا کی تصویر تھے۔ وہ گفتگو نہیں کرتے تھے، پھول برساتے تھے یا یوں کہیے موتی رولتے تھے۔ میں نے زندگی میں ایسے بہت کم لوگ دیکھے ہیں جوکسی زبان کو یوں چٹخارے لے لے کر بولتے ہوں جیسے بقول شوکت تھانوی اپنی محبوبہ سے باتیں کر رہے ہوں۔‘‘

مقبول جہانگیر عبدالرحمن چغتائی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’وہ مصور مشرق ایک دن ہی میں نہیں بن گئے۔ اس کے لیے انھیں ایک طویل سفر محنت و مشقت کا طے کرنا پڑا ہے۔ نصف صدی تک بائیس بائیس گھنٹے روز ریاض کرنا پڑا ہے۔ دل و جگر کا خون جلانا پڑا ہے۔ ایسے حالات بھی گزرے ہیں کہ گھر میں چولہا نہیں سلگا ہے مگر انھوں نے اپنے چہرے بشرے سے ظاہر نہیں ہونے دیا ہے کہ ان پر کیا بیت رہی ہے۔ عبدالرحمن چغتائی کو اپنے کام اور فن سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے اور بلاشبہ یہ جنون عشق ہی ہے جو پستیوں کو بلندیوں میں اور بلندیوں کو پستیوں میں بدل دیتا ہے۔‘‘

دو مجموعے ہیں ’’کاجل‘‘ اور ’’لگان‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔