اپنا ووٹ کس کو دوں؟

فاطمہ نقوی  جمعرات 25 جنوری 2018
fnakvi@yahoo.com

[email protected]

اپنا ووٹ کس کو دوں؟

دنیا گول ہے اسی لیے لوٹ کے بدھو پھر اپنے لکھنے لکھانے کی طرف آگئے کہ چھٹتی نہیں۔۔۔ اصل میں پچھلے چند مہینوں سے کچھ کام ایسے تھے کہ ہم تو وہ کام نہیں کرنا چاہتے تھے مگر کیے بغیر چارہ بھی نہ تھا کہ مرضی میرے صیاد کی تھی۔۔۔ اور تقدیر کے لکھے کو دور کرنا ہمارے جیسوں کا کام نہ تھا مگر ان تمام دوستوں کا شکریہ جنھوں نے ہمیں ڈھیر ساری ای میلز بھیج کر ہمیں یاد دلایا ہے کہ وہ ہمارے کالم کو کتنا ’’مس‘‘ کر رہے ہیں۔ ان تمام ای میلز اور فونز کو دیکھ کر ہمیں از حد خوشی ہوئی اور ڈھیروں ڈھیر خون بڑھ گیا کہ کوئی تو ہے جو ہمیں یاد کرتا ہے۔ فاطمید والوں سے گزارش ہے کہ وہ ہم سے رجوع کر سکتے ہیں۔

تھوڑی بات ملکی حالات و واقعات کی ہو جائے۔ 2018ء الیکشن کا سال ہے یعنی واقعی میں تبدیلی کا سال ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ واقعی کوئی تبدیلی آئے گی بھی یا پھر لوٹ پھیر کے وہی پرانے چہرے، پرانے نظریات، پرانی حکمت عملیاں ہی گردش میں رہیںگی۔ کیونکہ ہم وہ قوم ہیں جو آزمائے ہوؤں کو پھر آزمانے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

ادھر عوام نے زبردست پذیرائی کی، کچھ عرصہ ملک ایسے چلا کہ لگتا تھا کہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر اسلامی ممالک کی سربراہی اور اقوام عالم میں کھڑا ہو گا مگر پلک جھپکتے ہی فسوں ٹوٹ گیا اور ہر شخص کہنے پر مجبور ہو گیا کہ کیا یہ سپنا تھا، پھر کافی عرصہ فرشتوں کی حکومت رہی، عوام نے کھلے دل سے استقبال کیا کیونکہ ان کا نعرہ بھی پرکشش تھا اس کے بعد کچھ عرصہ آنیاں اور جانیاں لگی رہیں، پھر شریف خاندان نے عنانِ حکومت سنبھالی، ڈکٹیٹر کی گود میں پروان چڑھنے والوں نے مسلم لیگ کو بھی ہائی جیک کر کے اس میں (ن) کی آمیزش کر دی اور ( م) کی جگہ (ن) نے لے لی۔

اس کے بعد پھر ایک فرشتے نے باگ ڈور سنبھالی، جمہوری حکومت کا خاتمہ بڑے ڈرامائی انداز میں ہوا مگر عوام نہیں نکلے کیونکہ ان کو پتہ تھا کہ شاید ہمیں کچھ ریلیف اس دور میں مل جائے۔ آخر کار کچھ عرصے کے بعد ایک زرداری سب پر بھاری نے بڑے آرٹ کے ساتھ حکومت سنبھالی، اس کے بعد پھر نواز شریف، عمران خان ان تمام ادوار میں للکارتے ہی رہے، اپنی سحر انگیز اور طلسماتی شخصیت سے نوجوانوں کو مسحور تو کرتے رہے مگر جب بات ووٹ کی آئی تو نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

حقیقت میں ماضی کو چند سطروں میں ہم نے اس لیے دہرایا تا کہ اندازہ لگا سکیں کہ اتنا عرصہ صرف اور صرف پیپلزپارٹی اور ن لیگ ہی کسی نہ کسی صورت میں حکومت میں شامل رہیں، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے پاس نہ تو کوئی وژن تھا نہ ہی عوام کے لیے کوئی مشن۔ ہاں ذاتی مفادات کو حل کرنے کی تو پوری فہرست تھی۔

نواز شریف اور زرداری میں زرداری واقعی سب پر بھاری اور اس لحاظ سے بہتر ہیں کہ اگر وہ اپنے ساتھیوں اور ان خیالات کو تبدیل کر لیں جو کہ ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے ہیں تو ملکی سطح پر قوم اور ملک کے غدار نہیں۔ آپ نے ہمیشہ ملک کی سالمیت کی بات کی۔ بد ترین حالات میں بھی کبھی ملک کے غداروں کو اچھا نہیں کہا۔ زرداری جیل میں تھے، بینظیر عام عورتوں کی طرح اپنے بچوں کا ہاتھ پکڑے باپ سے ملوانے جیل جاتیں۔ کبھی کبھی تو ملاقات کا موقع بھی نہ ملتا مگر صرف شکایت اس طرح سے زبان پر آتی کہ شکوہ تو ہوتا مگر دشمنوں سے ملنے کی بات نہ ہوتی۔

دوسری طرف ہم نواز شریف کو اگر سامنے رکھتے ہیں تو ملک کے بد ترین دشمن کے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے وہاں تجارت کی اسٹیل ملز لگائی، بغیر ویزے کے انڈیا کے لوگوں کو اپنی ذاتی خوشیوں میں مدعوکیا۔ ملک کے انتہائی اہم اداروں پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور ایسی زبان استعمال کی جو کہ ایک لیڈر کے شایان شان نہیں تھی۔ منی لانڈرنگ میں ملوث ہوئے، اقامہ جیب میں لیے پھرتے رہے اور پھر بھی عوام سے پوچھتے رہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ عوام کی جگہ اگر اپنے ضمیر سے پوچھ لیتے تو شاید پتہ چل جاتا کہ آپ کو کیوں نکالا۔ عوام کی بھلائی کے کام کرنے والوں کو کبھی پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ مجھے کیوں نکالا؟

نکالنے کے لیے ماڈل ٹاؤن کے 14 لوگوں کے لہو کی پکار ہی کافی ہے۔ پھر پنجاب حکومت پر معصوم زینب کا قرض بھی چڑھ چکا، خدا خدا کر کے قاتل ہاتھ آیا۔ ٹی وی پر بیٹھ کر ن لیگ کی نمایندگی کرنے والی خاتون وزیر کی بات سن کر ہی شاید آپ سمجھ لیتے کہ مجھے کیوں نکالا، خاتون وزیر کس ڈھٹائی سے کہہ رہی ہیں کہ بچی کو چھوڑ کر عمرہ کرنے کیوں گئے، بچوں کی ذمے داری والدین کی ہوتی ہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ پھر ریاست کی کیا ذمے داری ہوتی ہے۔

حضرت عمرؓ تو یہ کہتے ہیں کہ دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا ہو تو عمرؓ ذمے دار ہے یہاں لاکھوں لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کیا ان کی ذمے داری حکمرانوں پر نہیں ہے۔

تیسری سرکردہ پارٹی کے سربراہ عمران خان جو کرپشن میں تو ملوث نہیں، نیت بھی نیک ہے، مگر کوئی وژن اور مشن جو کہ عوام کے لیے ہو، خارجہ پالیسی کے لیے ہو، ملک کے اداروں کو بہتر بنانے کے لیے ہو، وہ بھی ان کے پاس نہیں۔ اگر ان کی تقاریر کو تسلسل سے سن لیا جائے تو صرف اور صرف زرداری اور نواز شریف کی تذلیل ہی نظر آئے گی۔ ان کی ذاتی زندگی پر لوگوں کے بے رحمانہ کمنٹس نظر آئیں گے لیکن ہمیں کوئی لیڈر، کوئی ورکر ایسا نظر نہیں آئے گا جو قائد اعظم کے وژن کو آگے بڑھائے، اقوام عالم میں پاکستان کی سربلندی کے لیے کام کرتا نظر آئے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں اپنے ووٹ کا استعمال کس کے حق میں کروں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔