تنہائی

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعرات 25 جنوری 2018
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

ایک اخباری خبرکے مطابق دنیا بھر میں تنہائی کوایک اہم اور بڑا مسئلہ تصورکیاجاتا ہے،اسی کی وجہ سے کئی لوگ شدید ڈپریشن میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ برطانیہ نے عوام کی فلاح وبہبود کی خاطراس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک مکمل وزارت قائم کردی ہے۔

خبر کے مطابق حکومت نے تنہائی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا ہے جو نئی قائم ہونے والی وزارت کے ماتحت کام کرے گا اور وزارت اس کمیشن کی تجاویز اور مشوروں پر عمل کرے گی۔ اس ضمن میں بتایا گیا ہے کہ وزیر برائے کھیل اورسول سوسائٹی کی جانب سے ایسی حکمت عملی اور پالیسیاں مرتب کی جائیں گی، جن کی مدد سے تنہائی کے مسئلے سے نمٹا جاسکے گا۔

برطانوی وزیراعظم تھریسامے کا کہنا ہے کہ کئی لوگوں کے لیے تنہائی جدید دورکی ایک افسوسناک حقیقت ہے ان کا کہنا تھا کہ میں چاہتی ہوں کہ ہم اپنے معاشرے کی بہتر دیکھ بھال اور خدمت کے لیے اس چیلنج سے نمٹیں اورایسے اقدامات کریں جن سے بزرگوں سمیت ہر اس طبقے کے شخص کو راحت پہنچائیں جو تنہائی کا شکار ہے۔ حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تنہائی کے منفی اثرات انتہائی سنگین ہیں۔

گزشتہ سال کی جانے والی دو مختلف ریسرچز میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کی قبل از وقت موت میں دیگر وجوہات کے ساتھ تنہائی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔آسٹریلیا میں کی جانے والی ایک اور تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ تنہائی کی وجہ سے دماغی امراض بھی پیدا ہوتے ہیں جن میں ڈپریشن، سماجی سطح پر بیزاری، چڑچڑا پن اوردماغی خلل جیسے مسائل شامل ہیں۔

تنہائی یقینا ایک اہم مسئلہ ہے جو پہلے ہمارے معاشرے میں اتنا عام نہیں تھا مگر بدلتی ہوئی سماجی اقدارکے باعث بھی ایسا ہورہا ہے۔ جس قسم کا خاندانی نظام ہمارے معاشرے کا حصہ ہے ،اس میں تنہائی کا مسئلہ بہت کم ہی پیش ہوتا ہے تاہم اب مشترکہ خاندان کی جگہ اکائی خاندان کی تعداد روز بہ روز بڑھ رہی ہے اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہو رہا ہے۔

اس عمل کی بنیادی وجہ مادہ پرستی کی سوچ اور جدید ریاست کا وہ نظام ہے کہ جہاں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ایک فرد دولت کمانے کی دھن میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے عزیزواقارب کو تھوڑا بہت وقت دینے کے قابل بھی نہیں رہتا، اسی دوڑ میں ایک وقت وہ آجاتا ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد ایک فرد خود تنہائی کا شکارہوجاتا ہے۔

ملک چین میں ایک وقت تھا کہ خاندانی نظام بہت مضبوط تھا، خاندان کا کوئی بزرگ انتقال کرجاتا تو اس کی تصویر یا مورتی بنا کرگھر میں رکھ لی جاتی تھی،گویا مرنے کے بعد مورتی کو بھی وقت دیا جاتا تھا، مگر پھر رفتہ رفتہ جدیدیت، روایت پر غالب آتی چلی گئی اور لوگ اپنا معیار زندگی زیادہ سے زیادہ بلند کرنے کے لیے اپنا وقت دولت کمانے پر صرف کرنے لگے، جدید یا ماڈرن طرز زندگی اپنانے کے لیے دن رات کام کرنے لگے یہاں تک کہ شوہروں کے ساتھ بیویاں بھی اپنا وقت ملازمت کرکے دولت کمانے میں صرف کرنے لگیں، یوں قریبی خونی رشتوں کے پاس بھی اتنا وقت نہ ہوتا کہ وہ ایک دوسرے سے خیریت ہی دریافت کرلیتے۔

اسی طرح ریاستی سطح پر آبادی کے بوجھ کوکم کرنے کے لیے ایک بچے کی پیدائش سے زائد پر پابندی عائدکردی گئی۔ ان سب معاملات کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اب چین میں خونی رشتوں کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہے کہ بیٹا اپنے باپ سے ملاقات کرسکے، چنانچہ اس معاشرتی مسئلے سے نمٹنے کے لیے چین کی حکومت کو قوانین بنانے پڑے کہ کسی طرح اولاد اپنے بوڑھے والدین سے مہینے میں ہی کم ازکم ایک بار تو ملاقات کرلے۔ ترقی حاصل کرنے کے لیے چین کے معاشرے کو یہ بھاری قربانی ادا کرنی پڑی۔ ترقی پذیر ممالک میں آج اس قسم کے مسائل بھرے پڑے ہیں۔

چین بنگلہ دیش سمیت بہت سارے ممالک میں دیہی علاقوں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شہروں کا رخ کرتی ہے اور زیادہ دولت کمانے کے لیے اپنے معصوم بچوں تک کو گھروں پر اکیلا چھوڑ دیتی ہے۔ بی بی سی کی ایک خبر کے مطابق ایسے ہی ایک دیہی علاقے کی دو بچیوں نے اپنے والدین سے ملنے کے لیے ٹرک کے نیچے پہیوں کے درمیان چھپ کر سفرکیا کیونکہ وہ اپنے والدین کی جدائی برداشت نہیں کرسکتی تھیں۔

آج ہمارے ہاں بھی کچھ یہی رحجان پایا جاتا ہے۔ اچھے خاصے خاندان جن کے پاس دولت کی کمی نہ ہو وہ بھی اپنے بچوں کو بیرون ملک پڑھائی اور ملازمت کے لیے بھیج دیتے ہیں جہاں ان کے بچے تعلیم سے فارغ ہوکر بیرون ملک ہی ملازمت یا کاروبار کرلیتے ہیں اور وطن نہیں آتے سوائے چند ایک خاص مواقعوں کے۔

ہمارے ہاں ایسے والدین کی ایک بڑی تعداد ہے جنھوں نے اپنی خوشی سے اپنے بچوں کو باہرکمانے کے لیے بھیجا اور خود یہاں تنہائی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ سمندر پار کا سفر روز روز نہیں ہو سکتا لہذا ایسے میں دس پندرہ سال سے پہلے کوئی بھی اپنے وطن کا چکر نہیں لگا تا کہ اس کا خرچہ بھی بہت ہوتا ہے اور اس میں وقت بھی بہت لگتا ہے۔ یوں ہمارے ہاں بہت سے ایسے گھرانے ہیں کہ جہاں بزرگ تنہائی کا شکار ہیں کہ ان کی اولادیں بہتر مستقبل یعنی زیادہ دولت کمانے کے لیے اپنے علاقے یا ملک سے باہر ہیں۔

ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ جدید ریاست میں رہنے کی اپنی الگ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں مثلاً زندگی گزارنے کے لیے آپ کو اس کلچر کاحصہ بننا پڑتا ہے خواہ آپ کا دل نہ بھی چاہے جیسے آپ اپنے بچے کوکسی اچھے اور ایسے اسکول میں تعلیم دلوانی ہو ،جس کے اوقات بھی زیادہ دیر تک کے ہوں کیونکہ سب ہی ایساکرتے ہیں، اس طرح بیوی کو بھی ملازمت کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

یوں بچے کو ابھی صحیح سے کھڑا ہونا بھی نہیں آیا ہوتا ہے کہ ہم اسے ڈے کیئر سینٹر یا کسی اسکول میں ڈال دیتے ہیں اور اس ضمن میں اچھا خاصا خرچہ بھی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اور اس جیسے تمام خرچے پورے کرنے کے لیے میاں بیوی کو دولت کمانے کے لیے دن رات محنت کرنا ہوتی ہے، لہذا جب زیادہ دولت کمانے کے لیے پہلے ہی وقت کم پڑرہا ہو اور اپنی اولاد کو بھی ڈے کیئر سینٹر میں ڈالنا پڑرہا ہو تو ایسے میں کوئی اپنے رشتے دار تو دور کی بات ماں باپ کو بھی کیسے وقت دے سکتا ہے؟

چنانچہ جدید ریاستوں یا ترقی یافتہ ممالک میں ڈے کیئرسینٹر ہی نہیں اولڈ ہاؤس بھی آباد ہیں، یہاں اپنے تو نہیں ہوتے لیکن بیگانے بہت سے ضرور مل جاتے ہیں یہ تنہائی کی ایک قسم ہے جب کہ ہمارے ہاں معاشرتی دباؤکے باعث لوگوں میں اپنے بزرگوں کو اولڈ ہاؤس میں بھیجنے کا رحجان توکم ہے مگر ایسے بزرگ اپنے ہی گھروں میں تنہائی کا شکار نظر آتے ہیں اور تنہائی کا شکارکیوں نہ ہوں کہ کچھ نے تو خود ہی اپنی اولاد کو زیادہ دولت کمانے کے لیے اپنے سے دور بھیج دیا، کچھ نے تو خودہی اپنی اولادوں کو شروع سے ہی یہ ذہین نشین کرادیا تھا کہ ’’خوب دولت کماؤ۔‘‘

آیے ! ذرا ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچیے کہ جب ہماری نسل دیکھے گی کہ بڑے بھائی بہن جائیداد میں حصے کے لیے لڑرہے ہیں۔ ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ کمانے کے دھن میں لگے ہوئے ہیں اور پھر انھیں بھی بار بار نصیحت سننے کو ملے گی کہ ’’فلاں ڈگری لو‘‘ فلاں کاروبارکرو‘ تاکہ زیادہ سے زیادہ دولت کماسکو تو پھر وہ کس کو زیادہ وقت دے گی، دولت کمانے کو یا رشتے ناتوں کو؟

یہ قابل غور بات ہے کہ ہم نئی نسل کو ایک اچھا انسان بنانے پر زور نہیں دیتے ہیں،انھیں اخلاقیات اپنانے پر زور نہیں دیتے، ہم صرف اور صرف ایک رول ماڈل دیتے ہیں کہ جس کے پاس دولت زیادہ ہے وہی بڑا انسان ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہم اپنے پیاروں کو پیسہ کمانے کی دوڑ میں لگا دیں گے تو ان کے پاس انسانوں کے لیے وقت کہاں ہوگا اور جب وقت نہیں ہوگا تو پھر پیسہ کمانے کادرس دینے والے تنہائی کا شکار تو ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔