عوامی جمہوریت کی تلاش  

سعد اللہ جان برق  جمعرات 25 جنوری 2018
barq@email.com

[email protected]

سقراط نے یہ جو کہا ہے کہ میں نے ساری عمر میں یہ جان لیا کہ میں کچھ نہیں جانتا تو یہ پکا پکا سچ ہے کیونکہ ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سقراط کے ہمسر ہونا چاہتے ہیں بلکہ اپنی جہالت پر مہر تصدیق ثبت کرنا چاہتے ہیں اوراس سے زیادہ جہالت اور ہو بھی کیا سکتی ہے کہ ہم جسے ’’ انناس ‘‘ سمجھتے ہیں وہ بعد میں عورت نکلتی ہے اور جسے عورت سمجھتے ہیں وہ انناس بالکل بھی نہیں نکلتی ہے ’’ پیرنی یا مرشدنی ‘‘ نکلتی ہے۔

اب یہ جمہوریت کا بچہ جمورا ہے اس کے ساتھ ہم نے کتنا زمانہ گزار لیا کہ یاد تک نہیں ہے کہ کتنے زمانے سے یہ ہمیں ’’ لاحق ‘‘ ہے اور کتنے زمانے سے ہم اس کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں لیکن ابھی تک نہ تو ہم اسے جان پائے اور نہ اسے پانے کے لیے اس ’’ شکار ‘‘ کے بارے میں پتہ ہے جوایک زمانے سے اس کے فتراک میں پڑا ہوا ہے۔ چنانچہ گذشتہ دنوں ایک نو ’’ سیکھیے ‘‘ نے جمہوریت کی تشریح چاہی تو ہمارا بھی وہی حال ہو گیا جو ملا نصر الدین کا اس وقت ہوا تھا جب کسی نے اس سے ’’ کریما ‘‘ کے معنی پوچھے۔

جمہورریت بلا شک و شبہ جمہوریت ہوتی ہے اور جمہوریت کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی چاہی کوئی ’’ سیتا ‘‘ پر ہاتھ رکھوا کے اس سے پوچھے یا گیتا کے کاندھے پر پورا بازو رکھوا کے پوچھے ۔ لیکن اس کندہ نا تراش نے کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے پھر پوچھا ۔ میرا مطلب ہے کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے اور ہم  نے بھی اسی عارفانہ لہجے میں کہا کہ جمہوریت ہی جمہوریت ہوتی ہے۔

جب کئی بار ہم دونوں میں اسی طرح سوال و جواب ہوتے رہے تو ہم نے وہی کیا جو اسے مواقع پر علامہ بریانی کو کرتے دیکھا ہے، ایک دم جلال میں آکر ہم نے کہا کہ اتنی دیر سے سمجھاتے سمجھاتے ہم تھک گئے  اور تمہاری سمجھ میں اتنی سی بات نہیں آتی کہ جمہوریت ، جمہوریت ہوتی ہے لیکن وہ بھی پرلے درجے کا ضدی تھا ۔بولا ٹھیک ہے جمہوریت تو جمہوریت ہوتی ہے لیکن یہ ’’ عوامی جمہوریت ‘‘ کیا ہوتی ہے کیونکہ جمہوریت تو پیدائشی طور پر عوامی ہوتی ہے تو پھر یہ عوامی جمہوریت؟

یعنی بقول قائد عوام فخر ایشیا عرف روٹی کپڑا مکان ۔پاکستان میں جمہوریت کی دم کے ساتھ یہ جو ’’ عوامی ‘‘ کی چھاج ویلڈ کی گئی ہے اس کے پیچھے بہت لمبا فلسفہ ، بہت چوڑا پس منظر اور لمبا چوڑا فلسفہ ہے جسے ہم فلسفۂ ’’ تنویت ‘‘ کہہ سکتے ہیں یعنی ہر چیز کے دو رخ ،دوحصے ، دو نمونے ، دو پیس ہوتے ہیں۔ ابتدا دو قومی نظریے سے ہوئی پھر دو ٹکڑوں میں بٹا ہوا ملک قائم ہوا، دو زبانیں تھیں ، دو قومی لیڈر تھے چنانچہ اس ملک کے مزاج میں ’’ دوئی ‘‘ ایسی بس گئی ہے کہ یہاں جو کچھ پیدا ہوتا ہے یا بنتا ہے وہ دو دومیں ہوتا ہے ۔ اور غالباً اس ’’ دو دو ‘‘ کے ردعمل کے طور پر P.P.P نے ’’ تین ‘‘ کا فارمولہ تین کردیا۔

تین پی پی ، تین جھنڈے کے رنگ تین نعرے روٹی کپڑا اورمکان ، تین اجزاء ۔ اسلام جمہوریت اور سوشلزم ۔اسلام ہمارا دین ہے جمہوریت ہماری سیاست ہے اور سوشلزم ہماری معیشت ہے ۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ آدمی میں ہزار نشانیاں اور ہوں تو ایک دو نشانیاں ماں کی ضرور ہوتی ہیں اس لیے تین تین کے باوجود پی پی پی بھی دو دو سے چھٹکارا نہیں پاسکی ہے ۔ جہاں کہیں اس کا کوئی سربراہ ہوتا ہے کسی بھی سطح پر توبھی تو ایک کے اندر ’’ دو ‘‘ ہوتا ہے، چیئرمین بھی ہوتا ہے اور صدر بھی ہوتا ہے بلکہ جب چاہتا ہے چیئرمین ہوجاتا ہے اور جب چاہتا ہے صدر بن جاتا ہے۔

وہ شیر والی بات ہے کہ شیر بادشاہ ہے جب چاہتا ہے بچے دے دیتا ہے جب چاہتا ہے انڈے دے دیتا ہے، اکثر تو اونچی سطح پر عہدے ہی نہیں آدمی بھی دو ہوتے ہیں۔ محترمہ بینظیر کے ساتھ بھی ابتدا میں والدہ محترمہ بھی چیئرپرسن تھیں اور اب باپ بیٹے اکٹھے ہی چیئر پرسن ہیں۔

اس طرح وہ مشہور و معروف کہاوت بھی غلط ہو گئی کہ ایک کمبل میں دو فقیر گزارا کر سکتے ہیں لیکن ایک ہی ملک میں دو بادشاہ او ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں اور یہاں دونوں رہ رہے ہیں حالانکہ ’’ ذوالفقار ‘‘ کا لغوی مطلب ہی دو ٹکڑے کرنے والے کے ہیں چاہے وہ جسم ہو یا کوئی ’’ ملک ‘‘ اور یہی تنویت یا ڈوئیلزم سیاست میں بھی عوامی +جمہوری حکومت کی شکل میں پائی کے لیے بھی جگہ نہیں بچی ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ پائی پائی کہیں باہر لے جا کر سنبھالتے ہیں۔

یہاں ہم ملا بلکہ علامہ نصیر الدین کے ایک اور واقعے کا حوالہ دینا چاہیں گے جس کا تعلق بھی ’’ عوامی فہم ‘‘ سے ہے، وہ تھے تو صرف نام کے ملا بلکہ علامہ ۔ لیکن وضع قطع عالمانہ رکھتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ جب روزگار کے لالے پڑ گئے توکسی چھوٹے سے گمنام گاؤں کی ایک لا وارث جگہ پر قبضہ کرلیا ۔ لوگ بھی آہستہ آہستہ آنے اور باہر کے ایک ثقہ علامہ کا سن کر جوق در جوق آنے لگے ۔ جمعہ کے دن اور بھی زیادہ لوگ آگئے لیکن علامہ کو تو کچھ آتا جاتا نہیں تھا خطاب کیا کرتے ۔ اس لیے کچھ غلط سلط عربی بولنے کے بعد گویا ہوئے ۔ تم کو پتہ ہے آج میں تم سے کیا کہنے والا ہوں۔

لوگوں نے کہا ۔ نہیں ہم کو پتہ نہیں ہے ۔اس پر علامہ بولے جب تم کو اتنا بھی پتہ نہیں ہے تو تمہیں کچھ کہنا ہی فضول ہے اور وہاں سے ہٹ گئے۔ دوسرے جمعے کو جب ان کے اسی سوال کا جواب ہاں میں آیا کہ ہاں ہمیں پتہ ہے ۔ تو بولے جب تمہیں پتہ ہی ہے تو میرے کہنے کی کیا ضرورت ہے؟۔ تیسرے جمعے کو عوام نے مشورہ کرکے دو ٹولیاں بنائی تھیں۔ علامہ کے سوال پر آدھے لوگوں نے کہا کہ ہاں ہم جانتے ہیں کہ آپ کیا کہنے والے ہیں اور آدھے لوگوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے اس پر ملا بلکہ علامہ مسکرائے بولے یہ تو اور بھی اچھا ہے جو جانتے ہیں وہ ان لوگوں کو بتادیں جو نہیں جانتے۔

ہم مسکرا تو نہیں سکتے کیونکہ معاملہ ’’ عوامی جمہوریت کا ہے جو مسکرانے کی نہیں رونے کی چیز ہے۔ لیکن پھر بھی آپ سے پوچھتے ہیں کہ قسم کھائیے کہ آپ کو پتہ نہیں کہ ’’ عوامی جمہوریت ‘‘ کیا ہوتی ہے کیونکہ اگر ستر سال میں بھی آپ یہ نہیں جان پائے ہیں تو کیا فائدہ ؟ پھر ہم بتائیں گے کہ عوامی جمہوریت وہ ہوتی ہے جو صرف عوامی ہوتی ہے عوام ہی اسے کھاتے پیتے ہیں دھوتے نچوڑتے ہیں اور خواص کے خاص گھرانوں کے قریب بھی نہیں بھٹکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔