اشتہاری کمپنیوں کو خلاف ضابطہ ساڑھے 24 کروڑ کے اشتہار دیئے گئے، پی اے سی میں انکشاف

نمائندہ ایکسپریس  جمعرات 25 جنوری 2018
کمیٹی نے وزارت اطلاعات سے 10سالہ بجٹ کی تفصیلات طلب کرلیں۔ فوٹو: فائل

کمیٹی نے وزارت اطلاعات سے 10سالہ بجٹ کی تفصیلات طلب کرلیں۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے وزارت اطلاعات و نشریات سے 10سالہ سالانہ بجٹ کی تفصیلات طلب کرلیں۔

آڈٹ حکام نے کمیٹی میںانکشاف کیا کہ اشتہاری کمپنیوں کوخلاف ضابطہ 24کروڑ 52لاکھ روپے کے اشتہارات دیے، وزارت نے ایسے معاملات پر کوئی پالیسی ہی نہیں بنائی۔ وزارت کے حکام نے کمیٹی کوبتایا کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے اشتہاروں کیلیے 5سے 6ارب کا بجٹ رکھا جاتاہے،سرکاری ٹی وی کے معاملات پر ذیلی کمیٹی تشکیل دیدی گئی۔کمیٹی کے کنوینئر شفقت محمود ہوں گے۔

کمیٹی نے پبلک سروس پیغامات کے حوالے سے وزارت کو پالیسی بنانے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ پالیسی کمیٹی میں پیش کی جائے،اجلاس بدھ کو چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں وزارت اطلاعات و نشریات و قومی ورثہ کے مالی سال 2016-17کے آڈٹ اعتراضات سمیت 2015-16کی بجٹ گرانٹ کا جائزہ لیاگیا۔

آڈٹ حکام نے بجٹ گرانٹ کے جائزے کیلیے دوران بتایا کہ 40کروڑ روپے کی بچت اور 39 کروڑروپے سے زائد وزارت اطلاعات و نشریات نے سرنڈرکیا،جس پر کمیٹی رکن سید نوید قمر نے کہا کہ جس مد میں رقم جاری کی گئی تھی اس مد میں خرچ کیوں نہیں کی گئی۔سیکریٹری اطلاعات احمد نواز سکھیرا نے کمیٹی کو بتایا کہ کارپوریشن کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں،90دن میں باقی الیکٹرانک میڈیا کے بل کلیئر ہوتے ہیں مگر ہمارے بل 10ماہ میں کلیئر ہوتے ہیں۔

کمیٹی نے 2008سے اب تک سالانہ بجٹ کتنا لیاگیا تمام تفصیلات وزارت اطلاعات و نشریات کمیٹی میں پیش کرے۔ کمیٹی رکن اعظم سواتی نے ایک مرتبہ پھر سابق چیئرمین پیمرا ابصارعالم کی تنخواہ کامعاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ 23لاکھ روپے اسے تنخواہ دی گئی اور کیا اس کی تنخواہ اس کی تعلیمی قابلیت کے مطابق تھی۔ سیکریٹری وزارت نے جواب دیا کہ 15لاکھ روپے تنخواہ تھی۔ اعظم سواتی نے کہا کہ کیا 15لاکھ روپے بھی اسی کی تعلیمی قابلیت کے مطابق تھی۔

مشاہد حسین کے سوال کے جواب میں سیکریٹری اطلاعات نے کمیٹی کو بتایا کہ 2013کے بعد کسی بھی وزارت میںخفیہ فنڈ نہیں ہوتا، بیرون ملک کے 23ممالک میں پبلسٹی ونگ موجود ہیں۔پی ٹی وی معاملات پر کمیٹی نے سب کمیٹی بنادی گئی، شفقت محمودکوکمیٹی کنوینئراور عارف علوی، شاہدہ اختر،عاشق گوپانگ اور غلام مصطفی شاہ کمیٹی کے اراکین ہونگے۔

کمیٹی نے 10سالہ رپورٹ اورجسٹس ناصر اسلم زاہد کے فیصلے کے مطابق اقدامات اور 10سال میں کتنے اشتہارات الیکٹرانک میڈیا کو دیئے گئے،انکی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔ سیکریٹری اطلاعات نے کمیٹی کو بتایا کہ ہمارے پاس ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نہیں،اپنا لاگ کے ذریعے کام چلا رہے ہیں،قومی اسمبلی اور سینیٹ  کارروائی کے حوالے سے اسپیکر اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے حکم پراجلاس کی کارروائی نشر کی جاتی ہے، پی ٹی وی پارلیمنٹ کے نام سے ایک نیا چینل لیکر آ رہے ہیں، دو سال پہلے 2.7ارب تھا اور اب 2.6ارب تھا، ارب سے زائد کا نقصان ہوا تھا۔

آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ وزارت نے خلاف ضابطہ اشتہاری کمپنیوں کو 24 کروڑ 52لاکھ روپے کے اشتہارات دیے گئے، 3 اشتہاری کمپنیوں کو یہ اشتہار دیے گئے، تمام اخراجات میں بے ضابطگی ہوئی ہے، وزارت نے ان معاملات پر کوئی پالیسی ہی نہیں بنائی۔ پی آئی او نے کمیٹی کو بتایا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اشتہارات کیلیے 5سے 6ارب روپے کا بجٹ رکھا جاتاہے، کمیٹی نے پبلک سروس پیغامات کے حوالے سے وزارت اطلاعات کو پالیسی بنانے کی ہدایت کر دی۔

علاوہ ازیں تحریک انصاف کے شفقت محمود نے اجلاس  کارروائی براہ راست دکھانے کی تجویز پیش کر دی،خورشید  شاہ نے برجستہ کہا کہ آئندہ سال جب آپ اپوزیشن لیڈر ہونگے توکارروائی براہ راست دکھایئے گا، شفقت محمود اوراعظم سواتی نے کہا کہ ہم اپوزیشن میںنہیںحکومت میں آرہے ہیں، انکے برجستہ جملے سے اجلاس کشت زعفران بن گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔