پلاسیبو ایفیکٹ؛ مریض کا ’اعتقاد‘ بھی دوا یا علاج کے اثرات کا تعین کرسکتا ہے

رضوان طاہر مبین  جمعرات 25 جنوری 2018
پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect) دراصل طبی کے بہ جائے ایک نفسیاتی مظہر ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect) دراصل طبی کے بہ جائے ایک نفسیاتی مظہر ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

جیسے عام زندگی میں یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں دوا اعتقاد سے کھائو یا فلاں ڈاکٹر کا علاج اعتقاد سے کرو، تب ہی فائدہ ہوگا، ورنہ نہیں۔ ہمارے سماج میں سینہ بہ سینہ چلنے والی یہ بات بے بنیاد نہیں، بلکہ یہ سائنسی اور علمی طور پر اپنا وجود رکھتی ہے، اصطلاحاً اسے پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect) کہتے ہیں۔

طبی ماہرین اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ کسی مرض میں کوئی بے ضرر چیز بھی پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect) کے تحت مثبت نتائج دے سکتی ہے۔ پلاسیبو ایفیکٹ کو پرکھنے کے لیے دوا کے روپ میں ایسے بے ضرر اجزا دیے گئے، جن سے مریض نے افاقہ محسوس کیا، کیوں کہ وہ ان اجزا کو اپنے مرض میں مفید خیال کر رہا تھا۔ اچھی توقع یہاں ایک اہم عنصر کے طور پر کام کرتی ہے۔ مریض جتنی زیادہ یہ توقع رکھتا ہے کہ کوئی معالج یا دوا اسے فائدہ پہنچائے گا، اسے وہ اتنا ہی فائدہ پہنچاتا ہے۔

تحقیق کی دنیا میں مثبت سوچ کی طاقت نیا موضوع نہیں، یہی وجہ ہے کہ امید کو ’زندگی‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پلاسیبو انسان کے کسی دوا پر مثبت یقین رکھنے کی وہ مخفی صلاحیت ہے، جس کے سبب وہ کسی بے ضرر چیز سے بھی افاقہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ جسے ایک چھوٹا بچہ پٹی باندھنے پر درد یا تکلیف میں بہتری محسوس کرتا ہے، جس کی کوئی طبی وجہ نہیں ہوتی۔

پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect) پر Henry K. Beecher (1904-1976) کی 1955ء میں پہلی باقاعدہ تحقیق شایع ہوئی، جس کے مطابق 26 سے زائد مطالعوں میں اوسطاً 32 فی صد مریضوں میں پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect) دیکھا گیا۔ طبعی لحاظ سے پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect) سائنس کا ایک قابل پیمائش عمل ہے۔ جس میں فشار خون(Blood Pressure) یا نبض کی رفتار وغیرہ سے پرکھا جاتا ہے۔

پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect) دراصل طبی کے بہ جائے ایک نفسیاتی مظہر ہے، جو کسی بھی نئی دوا کے تجربے کے دوران بھی خاص طور پر مدنظر رکھا جاتا ہے، اس کے لیے بیماری کے شکار دو گروہوں میں سے ایک کو نئی دوا دی جاتی ہے، جب کہ دوسرے کو دوا کے نام پر بے ضرر اجزا۔ اگر دونوں گروہ یک ساں افاقہ محسوس کریں، تو نئی دوا ناکام تصور کی جاتی ہے، کیوں کہ دوا کی کام یابی کے لیے دوا دیے جانے والے گروہ میں بہتر نتائج ہونا ضروری ہیں۔

’درد‘ کے حوالے سے تحقیق کرنے والے امریکی ماہر Jeffery Magail کے مطابق پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect) صرف درد کُش ادویہ میں ہی نہیں، بلکہ اینٹی ڈپریشن اور Anti-Psychotic تحقیقات میں بھی سامنے آتا ہے۔ پلاسیبو ایفیکٹس میں اکثر ہمارے یقین کی بنیادیں تجربات کے ساتھ معلومات اور تصورات پر بھی استوار ہوتی ہیں۔ اسی بنیاد پر ہم باطنی طور پر طے کر لیتے ہیں کہ یہ مرض اس دوا یا ڈاکٹر سے ٹھیک ہو جائے گا۔

تحقیقات کے دوران منفی پلاسیبو ایفیکٹ کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے، جس میں مریض دوا سے متعلق خراب یا منفی تاثر رکھتا ہے اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں سوچتا ہے، تو اسی کا شکار بھی ہو جاتا ہے، اصطلاحاً اسے نوسیبو ایفیکٹ (Nocebo Effect) کہا جاتا ہے، جیسے بہت سے مریض اس واہمے میں مبتلا تھا کہ فلاں دوا کھانے سے انہیں دوسرا کوئی طبی مسئلہ لاحق ہوجائے گا، تو وہ دوا کے استعمال کے بعد اس میں مبتلا ہوگئے۔

پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect) سائنس کا ایک نہایت دل چسپ مظہر ہے، جس میں حیاتیات اور نفسیات کا ایک سمبندھ سامنے آتا ہے۔ پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect) کے سبب ہی اکوپنکچر (Acupuncture) اور دیگر متبادل طریقہ علاج کی اثر پذیری کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے لگے ہیں، بعض ماہرین کا یہ خیال ہے کہ ہم ادویات کو پلاسیبو ایفیکٹ سے جدا کر ہی نہیں سکتے۔

پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect)کے حوالے سے محققین میں ایک مضبوط نظریہ یہ ہے کہ یہ فرد کی توقعات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس کے اثر کا دارومدار توقعات کے کم زور یا پختہ ہونے کو دوش ہے۔ بعض تحقیقات میں پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect) کے سبب جسم میں طبعی تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں، جس کے سبب مریض پر پلاسیبو اور حقیقی اثر میں امتیاز کرنا دشوار ہوا۔

علاج یا دوا کا تصور ہی شفایابی سے منسلک ہے، ہمارا ذہن اپنے ماحول اور سماج سے یہ سیکھتا ہے کہ مرض کیا ہوتا ہے اور دوا کا کیا مصرف ہے۔ بہت سی چیزیں ہمارے تجربات کے بعد کسی ایک مخصوص معنی کی حامل ہو جاتی ہیں۔ جیسے روسی محقق  Ivan Pavlov نے ایک کتے پر مشروط آموزش(Conditional Learning) کے ذریعے کچھ ایسا ہی تجربہ کیا تھا، جس میں یہ بات سامنے آئی کہ تجربات کے نتیجے میں ایک بے معنی سی چیز کسی چیز سے نتھی ہو جائے، تو وہ کوئی مخصوص معنی دینے لگتی ہے۔

Ivan Pavlov نے ایک مخصوص مدت تک ایک کتے کو غذا دینے سے قبل ایک گھنٹی بجائی، تو کچھ دن بعد کتے کے منہ میں وہ کیمیائی عمل صرف گھنٹی بجنے سے ہی برپا ہونے لگا، جو غذا کو سامنے دیکھنے سے ہوتا تھا، کیوں کہ کتے کے نزدیک وہ گھنٹی غذا ملنے کی علامت بن چکی تھی۔ ہمارے اردگرد بھی بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں، جس سے ہم سمجھ جاتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے، جب کہ اس کا تجربہ نہ رکھنے والوں کے لیے وہ بالکل بے معنی ہوتی ہے۔

پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect) کا تعلق صرف دوا سے نہیں، طریقہ علاج، اور معالج سے بھی ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ آدھا مرض تو اچھا معالج ہی ختم کر دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ڈاکٹر سے معائنے کے بعد بھی ایک مریض بہتر اور مرض کی شدت میں کمی محسوس کرنے لگتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اس کا خیال اب بیماری سے صحت یابی کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ بعض اوقات ہمارے ذہن میں خود بخود پچھلے تجربات آجاتے ہیں، جو ہمیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم نے اس سے پہلے بھی جب فلاں دوا لی، یا فلاں ڈاکٹر سے علاج کرایا، تو ٹھیک ہو گئے۔ اس تجربے کے سبب ہمارے اچھے یقین میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک فرضی سرجری کے بعد بھی پلاسیبو ایفیکٹ کے تحت مریضوں نے افاقہ محسوس کیا، حالاں کہ اس آپریشن میں کچھ بھی نہیں کیا گیا تھا۔

پلاسیبو ایفیکٹ کے حوالے سے تحقیق کرنے والے امریکی محقق Luana Colloca نے اس ضمن میں ایک تجربہ مشین پر ٹریٹمنٹ کے حوالے سے بھی کیا۔ جس میں ٹریٹمنٹ کے دوران مریض کے سامنے ایک سرخ بتی روشن ہوتی، اور ٹریٹمنٹ اختتام پر سبز بتی جل جاتی۔ Luana Colloca نے اپنے مریض پر ٹریٹمنٹ کرتے ہوئے ایک بار مشین پر بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سرخ بتی روشن کی، (جو اس بات کی علامت تھی کہ علاج جاری ہے) اور پھر سبز بتی جلائی (جو اس بات کا اشارہ ہوتی کہ علاج ختم ہو گیا) اس عمل کے بعد بھی مریض نے بہتری محسوس کی، کیوں کہ پچھلے تجربات کے بعد اسے یقین تھا کہ اس ٹریٹمنٹ سے افاقہ ہو جائے گا۔

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کوئی نئی دوا کھاتے ہیں، لیکن ہمیں اس سے افاقہ نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں امریکی ماہر Luana Colloca کہتی ہیں کہ توقع کرنے اور یقین ہونے میں فرق ہوتا ہے، اگر دوا کے بارے میں یقین نہ ہو کہ یہ ٹھیک کرے گی، تو پلاسیبو ایفیکٹ کا امکان کم ہوتا ہے۔ امریکی پروفیسر Kaptchuk، پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect) کو اچھی ادویات کی تیاری میں ایک رکاوٹ سمجھنے کا تصور رد کرتے ہوئے کہتے ہیں، درحقیقت پلاسیبو ایفیکٹ (Placebo Effect) وہ پانی ہے، جس میں کسی بھی دوا کو تیرنا ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔