حالات کبھی جھوٹ نہیں بولتے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 27 جنوری 2018

اگرآپ سے کہا جائے کہ آپ دنیا کی سب سے زیادہ خوشحال، ترقی یافتہ، آزاد، کامیاب قوم بن سکتے ہیں تو آپ انتہائی مایوسی سے فوراً پوچھیں گے کہ کیسے۔ آئیں۔ اس ’’کیسے‘‘ کا جواب سنتے ہیں ۔ ہزاروں کہانیوں میں سے ناقابل فراموش کہانی ایورسٹ گلیوئے کی ہے جو فرانس کا ہونہار طالب علم تھا اور بچپن سے ہی ریاضی خصوصاً الجبرے میں حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔

1831 میں جب وہ صرف 20 سال کا تھا ایک لڑکی کی وجہ سے اس کا جھگڑا ہوگیا دوسرے شخص نے اسے دست بدست جنگ (Duel) کا چیلنج کردیا، جنگ سے ایک رات قبل اسے یقین ہوگیا کہ کل لڑائی میں اس کی موت یقینی ہے اسی خوف اوردہشت کے عالم میں وہ اپنی میز پر بیٹھا اور الجبرے کی ان تمام Equations کی سمری لکھنے لگا جو زندگی بھر اسے پریشان کرتی رہی تھیں ۔ وہ رات بھر برق رفتاری اوربھر پور جوش وجذبے سے الجبرے کی مساواتیں لکھتا رہا، اگلے دن اپنی توقع کے عین مطابق وہ لڑائی میں مخالف کے ہاتھوں مارا گیا اس کی موت کے کئی سال بعد جب اس کے ان نوٹس کا مطالعہ کرنے کے بعد شایع کرایاگیا تو الجبرے کے میدان میں ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ اس کے ان نوٹس نے علم ریاضی کے بارے میں ایسے ایسے نکات اور جہات کا انکشاف کیا جو اپنے عہد سے بہت آگے تھے۔ یہ جاننا مشکل ہے کہ ایک ہی رات میں وہ اس کے ذہن میں کیسے تخلیق پائے ۔

نظریہ اضافت پر مسلسل دس سال تک کام کرنے کے بعد ایک روز تھک ہارکر البرٹ آئن اسٹائن نے مزید کام نہ کرنے کا فیصلہ کیا وہ اس شام جلدی اپنے بستر پر سونے کے لیے چلا گیا، اگلی صبح جب وہ بیدار ہواتو اسے اپنے مسئلے کا حل مل گیا۔

مشہور مو سیقار رچرڈ ویگنر سے سخت محنت کے باوجود اپنے اوپرا کے لیے موسیقی نہیں بن رہی تھی ایک دن وہ خود کو سخت مایوس اور بے بس محسوس کررہا تھا اس بے چینی میں وہ جنگل کی سیر کو نکل گیا ایک جگہ تھک کر زمین پر لیٹ گیااور جلد نیند کی آغوش میں چلا گیا نیم خوابیدہ حالت میں وہ خود کو تیز رفتار پانی میں ڈوبتا محسوس کرنے لگا رواں اورتیز پانی کی آواز اس کے کانوں میں جلتر نگ سا بجانے لگی وہ نیند سے بیدار ہوا تو ڈوبنے کے خوف کی وجہ سے پسینے میں شرابور تھا وہ تیزی سے گھرکی طرف بھاگا اور خواب میں سنائی دینے والے پانی کے جلترنگ کو اپنی ڈائری میں نوٹ کرلیا اور اس طرح بہتے پانی کا جلترنگ اس کے اوپرا کے لیے لافانی موسیقی کا تحفہ دے گیا۔

مارتھا گراہم کے والد ڈاکٹر جارج گراہم ذہنی بیماریوں کے معروف ڈاکٹروں میں سے ایک تھے وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے پیشے کے بارے میں زیادہ گفتگو نہیں کرتے تھے مگر وہ ایک موضوع پر مارتھا کے ساتھ صرف ضروری بات چیت کرتے جسے وہ بہت پسند کرتی تھی اپنے مریضوں کا علاج کرتے کرتے ڈاکٹر گراہم ان کی بدن بولی یعنی باڈی لینگوئج سے ہی ان کی ذہنی کیفیت سمجھ جایا کرتے تھے وہ صرف دیکھ کر ہی اپنے مریضوں کی ذہنی بے چینی کا اندازہ لگا لیتے تھے وہ اکثر مارتھا کوکہا کرتے تھے ’’جسم کبھی جھوٹ نہیں بولتا ‘‘ جس طرح بقول ڈاکٹر گراہم ’’ جسم کبھی جھوٹ نہیں بولتا ‘‘ بالکل اسی طرح ’’ حالات کبھی جھوٹ نہیں بولتے ‘‘ آپ صرف دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کسی شخص کی سماجی سمت کس طرف جارہی ہے۔

آج پاکستان کے بیس کروڑ لوگ سخت مایوسی اور بے بسی کی آگ میں ننگے بدن کے ساتھ جل رہے ہیں بربادی ، غربت و افلاس ، بیماریاں ، ذلت چڑیلوں کی طرح ان سے چمٹ چکی ہیں ۔جن سے بظاہر نجات نا ممکن دکھائی دے رہا ہے سب کے سب شدید ذہنی دباؤکا شکار ہیں ان کی ذہنی کشادگی انتہائی محدود سطح پر آگئی ہے ان میں سے جوش اور فکری تسلسل نہ ہونے کے برابر ہے دنیا کے نامور لوگوں نے تمام تر مشکلات ، تمام تر رکاوٹوں تمام تر مایوسی تما م تر بے بسی کے باوجود اپنا سفر جاری رکھا کیونکہ وہ بخوبی سمجھتے اورجانتے تھے کہ ان کی مایوسی، رکاوٹ بے مقصد نہیں ہے جب ان کا اعصابی تناؤ اپنے عروج پر ہوتا تھا تو وہ صرف یہ کرتے تھے کہ وہ کام چھوڑکرکچھ دیرکے لیے سوجایا کرتے تھے یا کچھ دیرکے لیے دوسرے کام کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے یہ ہی وہ عارضی وقفہ ہوتا تھا جب ان کے کام کی تکمیل کے لیے ایک ٹھوس اور کامل حل ان کے ذہن کے کسی گوشے سے جنم لے لیتا تھا۔

یا د ر کھیں جب ہم یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہمارے پاس اپنے کام کی تکمیل کے لیے بڑا وقت پڑا ہے یایہ کام ناممکن ہے تو ہمارے ذہن کی کارگردی سست پڑجاتی ہے ہماری توجہ اور خیالات بٹ جاتے ہیں اور دماغ کے لیے کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور ہم ہمت ہار بیٹھتے ہیں لیکن دوسری طرف جب ہم اپنے کام کی تکمیل کے لیے ایک ڈیڈ لائن مقررکرلیتے ہیں جو حقیقی بھی ہوسکتی ہے اور خود ساختہ بھی۔ اور ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہم نے ایک مقررہ مدت میں اپنے کام کی تکمیل کرنی ہے تو ہمارا ذہن پہلے سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے کام کرنے لگتا ہے آئیڈیاز کی بارش ہونے لگتی ہے پھر آپ کے پاس مایوسی کا شکار ہونے کے لیے وقت ہی نہیں بچتا ہے۔ ہر دن آپ کے لیے ایک سخت چیلنج بن کر آتا ہے ہر صبح آپ نئے اور اچھوتے آئیڈیاز کے ساتھ بیدار ہوتے ہیں جو آپ کو ہدف کی طرف دھکیلتے ہیں۔

آئیں ! ہم سب بیس کروڑ خود ایک ڈیڈ لائن مقررکرلیتے ہیں جو 2018 ہوسکتی ہے کہ آپ نے اسی سال دنیاکی سب سے زیادہ خوشحال، ترقی یافتہ، آزاد،کامیاب قوم بننا ہے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کی حالت اس فوج کی جیسی ہوجائے گی جس کے پیچھے ایک سمندر اور سامنے ایک پہاڑکھڑاہواور پیچھے ہٹنا ممکن نہ ہو اوراب صرف فتح کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں۔ آپ یقینا فتح سے ہمکنار ہوجائیں گے اور پھر آپ دنیا کی سب سے زیادہ خو شحال، ترقی یافتہ، آزاد اورکامیاب قوم بن چکے ہونگے بس اب آپ کے راضی ہونے کی دیر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔