پولیس گردی

جاوید قاضی  ہفتہ 27 جنوری 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

جب سے پولیس کے راز افشا ہوئے، کچھ پردے تھے جو چاک ہوئے، میڈیا کے وسیع ہونے سے جو لب آزاد ہوئے، آنکھیں کھلی ہیں، مگر میری آنکھیں کچھ اور زاویوں کو ترتیب دے رہی ہیں۔ میں اس کہانی کو کوئی عنوان، کوئی نام، کوئی سمت یا منطق دینا چاہتا ہوں۔ ہماری عدلیہ نے ایک طرف نیب پر گھیرا تنگ کیا ہوا ہے اور دوسری طرف خود ملزمان کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بھی کوشاں ہے۔ ان سب کے لیے صرف اعلیٰ عدالتیں اس وقت آگے ہیں اور چھوٹی عدالتیں جیسی تھیں، جوں کی توں ہیں۔ وہ ہی بوسیدہ تفتیش کا طریقہ کار اور کچھوے کی چال چلتی ہوئی ۔ آرٹیکل 199، سوموٹوز اور آرٹیکل 184(3) سے آگے کیا ہے۔

آتے ہیں سندھ کی بیوروکریسی کی طرف۔ راؤ انوار تو ایک چھوٹی سی کہانی ہے، اس سے کہیں بڑے افسانے اور ہیں۔ ہمارے اے ڈی خواجہ صاحب کیا کچھ بھی نہیں جانتے، ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ میہڑ میں چانڈیو قبیلے کے تین لوگ دن دھاڑے مار دیے گئے۔ جن لوگوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی جانے کی کوشش کی جارہی ہے، ان کے خلاف ایف آئی آر داخل نہیں ہورہی ہے۔ اب جو سندھ میں دیکھتا ہوں، اس وقت بھی انگریزوں کے احسانات کے تلے دبی ہوئی ہے۔ زمینوں کا سروے انھوں نے کروایا اور اس طرح سے ریونیو ڈپارٹمنٹ کی ترتیب ہوئی۔ آب پاشی کا نظام بھی انھوں نے ہی بنایا۔

سندھ سے سکھر بیراج اگر نکال دیا جائے تو ایک ہی لمحے میں ہماری آنکھوں کو پورا سندھ بنجر نظر آئے گا اور اب تک 50 سال سے راج کرتی ہوئی پاکستان پیپلز پارٹی 1982 میں اپنی عمر پوری کرتے ہوئے سکھر بیراج کا نعم البدل نہ دے سکی۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی نے امیروں اور شرفاؤں کواربوں کی ہاؤسنگ اسکیمز دیں۔

بدنصیبی سے ضلع ملیر کراچی میں ریونیو ریکارڈ کے مطابق زمینیں ہیں، نہ کہ سٹی سروے کے مطابق اور اس علاقے کا سروے انگریزوں نے بھی نہیں کیا۔ اس طرح سے ملیر کے علاقے میں زمین اسی کی ہے جس کا زور چلتا ہے۔

ملیر کراچی کا وہ ضلع ہے جس میں دو بڑی ہاؤسنگ اسکیمز نے اپنا کام شروع کردیا ہے اور بہت سارے ہاؤسنگ پراجیکٹس ابھی ملیر کی طرف آرہے ہیں۔ ملیر ضلع کو مشرق و شمال سے ٹھٹہ اور جامشورو کا بارڈر لگتا ہے۔ ٹھٹہ میں ایک بڑی اسکیم پر قانون سازی ہو چکی ہے اور اس سے پہلے وہاں پر ہزاروں ایکڑ بے نامی زمینیں خریدی جا چکی ہیں۔

یہی حال محکمہ تعلیم کا ہے۔ اسکول ویران ہیں، ٹوٹے پھوٹے اور بدحالی کا شکار، اساتذہ غائب، پانی اول تو میسر نہیں اور اگر ہے تو آلودہ۔ کسی شہر میں فلٹر پلانٹ کام نہیں کرتے۔ اسپتالوں میں نہ دوائیں میسر ہیں، نہ ان کے باتھ رومز فنکشنل ہیں، آپریشن تھیٹرز کی سہولت تک نہیں، پھر بیچارے لوگ نیم حکیموں کے پاس نہ جائیں تو کہاں جائیں۔ سندھ کی 20 فیصد آبادی کو یرقان لاحق ہے۔

سندھ جیسے ایک پرچون کی دکان ہو۔ رشوت کی پرچون کی دکان۔ جہاں ایوارڈ کا نیلام ہوتا ہے۔ سندھ کے ریونیو بھی دوسروں صوبوں سے آگے نکل گئے، مگر ان کے اوپر بھی ڈاکا زنی عروج پر ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ ’’مال کھاؤ اور کھلاؤ‘‘ اب غور اس بات پر کیا جاسکتا ہے کہ اگر نیب نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ سندھ کا اپنا اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ بھی ہے جو کہ ہے کہ نہیں۔

نیب کو روکنے کے لیے قانوں سازی کی گئی، جو ناکام ہوئی۔ اے ڈی خواجہ کو نکالنے کی کوشش کی گئی وہ بھی ناکام ہوئی۔ احتساب کوئی بھی مکمل و جامع نہیں ہوتا، سوال صرف Context  کا ہے۔ حکمرانوں کو افسر شاہی چاہیے، ایک ایسا افسر شاہی جو ان کے حکم کے تابع ہو اور کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہ کرے۔ مگر یہ افسر شاہی ایسا کیوں ہے؟ وہ اس لیے کہ ان کی پوسٹنگز اور تبادلے کا اختیار ان ہی حکمرانوں کے تابع ہے۔ یہی حکمران جمہوریت کے رکھوالے بھی ہیں اور جیالے بھی۔

پنجاب میں زینب نے پولیس کی کارکردگی کے سارے راز کھول دیے اور اب یہ بات آہستہ آہستہ ہی سامنے آئے گی کہ زینب کو مارنے والے ہاتھ عمران کے تو ہیں، مگر پیچھے ایک سند ہے جس میں حصہ داری شاید پولیس کی بھی ہے۔ راز تو خیبرپختونخوا کی پولیس کے بھی کھلے ہیں کہ عاصمہ کے قاتل اب بھی لاپتہ ہیں۔ جو بھی ہے، ان تینوں صوبوں میں پولیس کا وجود تو ہے، مگر عجیب ہے یہ بات کہ بلوچستان میں پولیس ہی نہیں اور آج کل بلوچستان کرپشن اور جرم میں عروج پر ہے۔ مذہبی جنونیت ہو یا علیحدگی پرستی، ہر ایک نے اپنے اپنے جھنڈے بلوچستان کی سرزمین پر گاڑے ہوئے ہیں۔

کون لوگ ہیں جنھوں نے NAB  کے آرڈینیس میں Plea bargaining  کی شقوں کو چیلنج کیا؟ اعلیٰ عدالتیں۔ ورنہ کیا تھا، مال کماؤ، مال واپس کرو ۔ ان تمام کمزوریوں کے سامنے اعلیٰ عدالتوں کے پاس صرف آرٹیکل 184(3),199 اور سوموٹو ہیں۔ سسٹم یقینا آگے رواں ہے۔ جمہوریت بھی پروان چڑھ رہی ہے۔ عدالتیں بااختیار ہیں۔ لیکن میرے حساب سے سسٹم کی صفائی کچھ اس طرح سے ہو کہ اس افسر شاہی کو حکمرانوں سے آزاد کیا جائے اور اس کے لیے ضروری ہے افسر شاہی کے تبادلے، پرموشنز اور پوسٹنگز کی نگرانی کے لیے ایک جدا ریگولریٹی ادارہ بنایا جائے تاکہ قصور میں معصوم بچیوں کا قتل خاموشی سے دیکھنے والا پولیس افسرنہ ہو، اسپتالوں میں ادویات کا بجٹ کھانے والا سپریٹنڈنٹ نہ ہو اور اسکولوں میں پرنسپل غائب استادوں سے کمیشن نہ لے۔

معاملہ یہاں پر جمہوریت یا آمریت کا نہیں، معاملہ ہے ایسے افسران کا جو حد سے گزر جاتے ہیں، ورنہ آج تیسرا مسلسل بیلٹ باکس ہونے جارہا ہے۔ یہ سال الیکشن کا سال ہے، کرپشن اور اقربا پروری کہیں بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ جمہوریت ہو یا آمریت، شرفا وہی ہیں۔ ان کے عزائم بھی وہی ہیں اور کام بھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جمہوریت سے راہیں پھر بھی ہموار ہوتی ہیں لیکن آمریت سے راہیں اور زیادہ بند ہوتی ہیں۔

سندھ میں حکمرانوں کی نیندیں حرام ہیں۔ وہ آئی جی ہٹا نہیں سکتے۔ اور یہی ہے آرٹیکل 184(3),199 اور سوموٹو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔