انگریزی ادب کا درخشاں ستارہ جان اپڈائیک جس نے مصلحت پسندی کو مسترد کردیا

عارف عزیز  اتوار 28 جنوری 2018
جان اپڈائیک کا ایک مضبوط حوالہ ان کی حقیقت پسندی ہے۔ فوٹو : فائل

جان اپڈائیک کا ایک مضبوط حوالہ ان کی حقیقت پسندی ہے۔ فوٹو : فائل

گھر میں موجود میز پر رکھا ٹائپ رائٹر اسے اپنی جانب کھینچتا تھا۔ قلم اور کورے کاغذوں میں اسے عجیب سی کشش محسوس ہوتی اور ڈاک کے خاکی لفافے بہت پُراسرار معلوم ہوتے۔ ان پر درج نام اور مختلف پتے پڑھنے کی کوشش جیسے اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ یہ جان اپڈائیک کی زندگی کے ابتدائی دن تھے۔

والد اسکول ٹیچر اور والدہ ادیب تھیں۔ دنیا جہان کے موضوعات پر کتابیں گھر میں موجود تھیں اور علمی و ادبی مباحث بھی ننھے اپڈائیک کی سماعت سے ٹکراتے رہتے۔ اسی ماحول کا اثر تھاکہ اس نے کتابوں کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ اس قابل ہوگیا کہ بچوں کا ادب پڑھ سکے۔ اسی مطالعے نے تخیل کو مہمیز دی اور ایک دن نوعمر اپڈائیک نے قلم تھام کر جذبات اور احساسات کو نظم کردیا۔ اس پہلی کاوش کے بعد مختصر مضمون بھی لکھ ڈالا۔ یہ تخلیقی کاوشیں والدین کے سامنے رکھیں تو انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور بعد کے برسوں میں خصوصاً والدہ کی راہ نمائی میں اپڈائیک کا قلم متحرک رہا۔ یہ تخلیقی سفر جاری رہا اور آج جان اپڈائیک دنیا بھر میں اپنے نظریۂ ادب اور منفرد اسلوب کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔

جان اپڈائیک کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے جس کا بچپن عام بچوں سے کچھ مختلف تھا۔ وہ روانی سے بول نہیں سکتے تھے اور ایک ایسے جلدی مرض میں بھی مبتلا تھے جس کے باعث ان کی جلد کی رنگت سفید اور چہرے پر سرخ نشانات پڑچکے تھے، مگر والدین کی بھرپور توجہ اور ہمّت افزائی نے انہیں کسی بھی قسم کے احساسِ کم تری سے دوچار نہیں ہونے دیا۔ وہ اپنے قلمی سفر کی ابتدا کے حوالے سے لکھتے ہیں۔’’ میں نے اپنی ماں کو ہمیشہ رائٹنگ ٹیبل پر لکھنے پڑھنے میں مشغول پایا۔ شعور کی سرحدوں کو چُھوا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک رائٹر کے طور پر شناخت کی جاتی ہیں۔ انہوں نے میرے اندر لکھنے کا شوق پیدا کیا اور ہر قدم پر میری راہ نمائی کی۔ میرا تخلیقی سفر انہی دنوں کی اُس حوصلہ افزائی اور مدد کا نتیجہ ہے۔‘‘

جان اپڈائیک کی تاریخِ پیدائش 18مارچ اور سال 1932ء ہے۔ ابتدائی عمر میں وہ عام بچوں کی طرح مہم جوئی پر مبنی قصوں، طلسماتی اور تجسس سے بھرپور کہانیوں میں دل چسپی لیتے رہے۔ وقت کے ساتھ ان کا علم اور مشاہدہ بڑھا تو خود بھی مختلف موضوعات پر قلم اٹھانے لگے۔ نوعمری کا دور ختم ہوا تو اپڈائیک نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا باقاعدہ اظہار کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے اپنے رہائشی علاقے ریڈنگ کے طرزِ زندگی اور مسائل کو بیان کیا اور یوں باقاعدہ لکھنے کا آغاز ہوا۔ اپڈائیک کی تخلیقات نے متنوع موضوعات اور منفرد اسلوبِ نگارش کی بدولت قارئین کو متوجہ کر لیا۔ ان کے عام مضامین کا موضوع سماجی اقدار اور امریکی شہری تھے جب کہ شارٹ اسٹوریز اور ناولوں میں انہوں نے خاص طور پر مڈل کلاس طبقے اور ان کے مسائل کو اجاگر کیا۔

جان اپڈائیک کا ایک مضبوط حوالہ ان کی حقیقت پسندی ہے۔ ان کی تحریروں میں انسانی رویّوں اور الجھنوں کے ساتھ سماجی سطح پر شکست و ریخت کی عکاسی نے ناقدین کو چونکا دیا۔ اپڈائیک کی تخلیقی انفرادیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ان قدروں اور روایات کی پابندی نہیں کی جو حقائق سے چشم پوشی پر اکساتی ہیں اور کسی بھی معاشرے کو تنگ نظری کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔ خاص طور پر اخباری مضامین ان کی قوتِ مشاہدہ اور تجزیاتی فکر کی عمدہ مثال ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے معاشرے اور عام لوگوں کی ترجمانی کرتے رہے۔ رواں اور سادہ طرزِ تحریر کے باعث نقاد اور اپڈائیک کے ہم عصر بھی ان کے معترف نظر آئے۔ ناقدین کے مطابق اپڈائیک نے انگریزی ادب میں روایت اور نام نہاد اصولوں کی پاس داری کرنے کے بجائے متحرک زندگی کا ساتھ دیا اور اسی خوبی کی بنیاد پر صفِ اوّل کے تخلیق کاروں میں شمار ہوئے۔

دورانِ تعلیم جان اپڈائیک ایک مقامی روزنامہ ’’ریڈنگ ایگل‘‘ سے بہ طور کاپی بوائے منسلک ہوگئے۔ یہ ملازمت ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے اور فکری پختگی کا ذریعہ بنی۔ اس عرصے میں ان کا ادبی ذوق اور رجحان خوب پروان چڑھا۔ 1950ء میں اپڈائیک نے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور یہاں سے انگریزی ادب میں گریجویشن کیا۔ فائن آرٹس میں گہری دل چسپی کے باعث انہوں نے اسکیچ اورکارٹون بنانے کا فن سیکھ لیا تھا۔ اپڈائیک کی حسِ مزاح بھی تیز تھی۔ وہ اپنے فن اور اِسی مہارت کو کام میں لائے اور معاشرتی مسائل اور خامیوں کو طنز و مزاح کے رنگ میں پیش کیا۔ مقامی اخبارات میں شایع ہونے والے اپڈائیک کے کارٹونز بہت پسند کیے گئے۔ فائن آرٹس میں یہی دل چسپی انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی لے گئی جہاں اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اس عرصے میں شارٹ اسٹوریز، اخباری مضامین اور شاعری کا سلسلہ جاری رہا اور ایک قلم کار کی حیثیت سے ان کی پہچان کا سفر شروع ہوگیا۔

انگلینڈ میں حصولِ تعلیم کے دوران اُن کی ملاقات امریکی قلم کاروں ای بی وہائٹ اور کیتھرائن وہائٹ سے ہوئی جنہوں نے اپڈائیک کی تخلیقات کی ستائش کے بعد ’’نیویارکر‘‘ کے لیے لکھنے کی دعوت دی۔ چند ماہ بعد اپڈائیک امریکا لوٹے اور نیویارکر کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اس معروف جریدے میں 1954ء میں پہلی بار ان کی ایک اسٹوری چھپی اور پھر یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔ اب اپڈائیک کا فن اور ان کا اسلوب بھی اس دور کی ادبی بیٹھکوں میں زیرِ بحث آنے لگا تھا۔ مطالعہ اپڈائیک کے ذہن کو اجالتا اور فکر لکھنے پر آمادہ کرتی رہی۔ شاعر اور کہانی کار کے بعد وہ ایک نقاد کی حیثیت سے بھی سامنے آئے۔ یہ کمال اور ہمہ جہتی ان کے وسیع مطالعے اور تجزیاتی فکر کا نتیجہ تھی۔

جان اپڈائیک کی شارٹ اسٹوریز اور ناولوں کا چرچا امریکا اور بیرونِ ملک بھی ہونے لگا تھا۔ قارئین کے ساتھ انگریزی ادب کے ناقدین بھی ان کے کمالِ فن کا اعتراف کرچکے تھے۔ اپڈائیک گویا مقبولیت کے ہفت خواں طے کررہے تھے، لیکن قارئین کے ذہنوں کے پردے پر ان کے محبوب مصنف کا ابھرنے والا خاکہ ابھی بے رنگ تھا۔ وہ اپڈائیک کے حالاتِ زندگی اور نظریات کی بابت کم جانتے تھے۔ اپڈائیک نے 1989ء میں اپنی خود نوشت لکھ کر اس خاکے میں رنگ بھر دیے۔ طرزِ تحریر ایسا کہ قاری ختم کیے بغیر کتاب چھوڑنا نہ چاہے۔ یوں واقعات کے تسلسل، روانی اور زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ذات آشنائی کا مرحلہ بھی مکمل ہوا۔

جان اپڈائیک نے اپنے گردوپیش کے مسائل اور واقعات کو اپنے الفاظ اور اسلوب کا پیراہن عطا کیا اور ان پر کہانیاں بنیں۔ یہ تخلیقات متوسط طبقے اور اس کی مجبوریوں پر مصنف کی گرفت اور گہرے مشاہدے کی بہترین مثال ہیں۔ وہ معاشرے کی خامیوں اور تلخ حقائق کی منظر کشی میں ملکہ رکھتے تھے۔ اپڈائیک مصلحت کوش نہیں رہے اور ہمیشہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے امریکا کے مضافات کی زندگی کے ایسے پہلوؤں پر بات کی جنہیں اُس دور میں ناگفتہ سمجھا جاتا تھا اور اس پر تنقید کا نشانہ بنے۔ ان کے ناولوں کا موضوع اخلاقی پستی، اقدار کی پامالی اور معاشرتی پیچیدگیوں کے علاوہ جنسی رویّے بھی رہے۔ اس کی ایک مثال ناول Couples ہے جو 1968ء میں منظر عام پر آیا۔

اس ناول کا موضوع بوسٹن اور نواح کی زندگی تھی۔ اس ناول کو بے حد مقبولیت ملی اور یہ بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ یہ ناول جان اپڈائیک کو معروف امریکی میگزین ’’ٹائم‘‘ کی کور اسٹوری تک لے آیا۔ بعض حلقوں کی جانب سے ان پر نسل پرستی اور زن بیزاری کی تہمت بھی دھری گئی۔ اپڈائیک نے ان الزامات کو مسترد کردیا۔ وہ اپنے نظریۂ ادب اور فلسفے پر ڈٹے رہے۔ ان کا ناول Bech is Back منظرِ عام پر آیا تو ایک مرتبہ پھر ٹائم میگزین نے اس پر اسٹوری شایع کی۔ یہ 1983ء کی بات ہے۔ اپڈائیک کا پہلا ناول The poorhoise fair تھا جب کہ 1958ء میں نظموں کا مجموعہ منظرِ عام پر آیا جس کا عنوان The Carpentered Hen تھا۔ اس عرصے میں ان کی شارٹ اسٹوریز نیویارکر کا حصّہ بنتی رہیں اور ناقدین نے انہیں انگریزی ادب کا شاہ کار تسلیم کیا، تاہم اپڈائیک کی وجہِ شہرت ان کے ناول بتائے جاتے ہیں۔ ان کے دیگر مشہور ناولوں میں  The Witches of Eastwick شامل ہے جو 1984ء میں شایع ہوا۔ یہ ناول تین عورتوں کے گرد گھومتاہے۔

اس کے علاوہ Bech سیریز کی تین کہانیوں کے بعد Rabbit سیریز نے مقبولیت کی تمام سرحدیں پار کرلیں۔ یہ ایک ایسے شخص کی سرگزشت ہے جو باسکٹ بال اسٹار کے طور پر شہرت رکھتا تھا۔ اس کی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور مختلف واقعات کو اپڈائیک نے اپنے منفرد اسلوب میں بیان کیا تھا جسے ناقدین نے ایک شاہ کار قرار دیا۔ 1963میں ان کا ناول  The Centaur  شایع ہوا جس پر نیشنل بک ایوارڈ کے حق دار قرار پائے۔ Rabbit سیریز کی بات کی جائے تو ایک کہانی Rabbit Is Rich کو 1982ء میں پلٹزر پرائز دیاگیا جب کہ 1991ء میں Rabbit at Rest بھی یہی ایوارڈ لے اڑی۔ 1994ء میں جان اپڈائیک کا ایک ناول شایع ہوا۔ اس کا نامTristan and Isolde  تھا۔ یہ جنوبی امریکا کی مختلف نسلوں کی داستان تھی۔ اس ناول میں مذہب، معاشرتی روایات، سماجی اقدار اور محبت جیسے لطیف جذبے کی لفظی منظر کشی کی گئی ہے۔ 1996ء آیا تو اپڈائیک قارئین کے سامنے چار نسلوں کی کہانی لے آئے۔ یہ ناول In the Beauty of the Lilies کے نام سے شایع ہوا جس کی کہانی  Wilmotفیملی کے گرد گھومتی ہے اور 1910ء سے شروع ہونے والے واقعات کا سلسلہ 1990ء تک جاری رہتا ہے۔

نائن الیون نے دنیا کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس سانحے نے قلم کاروںکو بھی متاثر کیا اور دہشت گردی اہم موضوع بن گیا۔ 2006ء میں اپڈائیک نے ٹیررسٹ نامی ناول لکھا جس کا مرکزی کردار 18سالہ نیوجرسی کا ایک انتہا پسند ہے۔

1997ء میں ان کا سائنس فکشن ناول Toward the End of Time قارئین تک پہنچا۔ یہ امریکا اور چین کے مابین فرضی جنگ اور اس کے بعد کے حالات پر مبنی کہانی ہے۔ 2008ء میں The Widows of Eastwick شایع ہوا ، جو1984 ء میں لکھے گئے ناول کی کڑی ہے۔ یہ ان کی زندگی کا آخری ناول ثابت ہوا۔ اس سے اگلے برس 27 جنوری کو وہ پھیپھڑوں کے سرطان کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے۔ اپڈائیک نے دو شادیاں کیں۔ زمانۂ طالب علمی میں وہ ایک لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوئے اور اس سے شادی کرلی جو 1974ء تک چل سکی۔ 1977ء میں ان کی ملاقات مارتھا سے ہوئی جو طلاق یافتہ اور تین بچوں کی ماں تھی۔ اپڈائیک نے ان سے دوسری شادی کی۔

دنیا بھر میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے والے اس عظیم لکھاری کو متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ امریکی حکومت نے بھی ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ 1998ء میں جان اپڈائیک کو اس وقت کے امریکی صدر بش سینیر نے نیشنل میڈل آف آرٹ دیا۔ 2003ء میں بش جونیر کی حکومت میں وہ نیشنل میڈل آف ہیومینیٹیز کے حق دار ٹھیرے۔ وہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف آرٹس اینڈ لیٹرز کے سب سے کم عمر رکن منتخب ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ رکنیت کے وقت ان کی عمر 32 سال تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔