انڈونیشیا کے صدر کی فکرانگیز باتیں

 اتوار 28 جنوری 2018
انڈونیشیا کے صدر کی ان باتوں سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انڈونیشیا ایک امن پسند ملک ہے۔ فوٹو: فائل

انڈونیشیا کے صدر کی ان باتوں سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انڈونیشیا ایک امن پسند ملک ہے۔ فوٹو: فائل

انڈونیشیا کے صدر جوکو ودودو نے گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا ہے کہ فوجی طاقت کے استعمال اور ہتھیاروں کی دوڑ سے تنازعات کا حل ممکن نہیں، جمہوریت لوگوں کے مفادات اور مسائل کا بہترین تحفظ ہے، جمہوریت فیصلہ سازی میں بھی اہم کردار کی حامل ہے، جمہوریت سے ہی انڈونیشیا میں معاشی نمو پانچ فیصد سے زائد اور مستحکم ہے اور انڈونیشیا دنیا کی 20 ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے۔

انھوں نے کہا کہ سیاسی استحکام اور سلامتی تب ہی ممکن ہے جب امن و سلامتی ہو، تنازعات اور جنگوں سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اسلحہ اور عسکریت پسندی سے کبھی دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا، اس وقت دنیا میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا دور دورہ ہے، دہشت گردی سے کوئی ملک محفوظ نہیں، تنازعات اور جنگوں کا سب سے زیادہ نشانہ دنیا میں 76 فیصد مسلمان ممالک بن رہے ہیں، 60 فیصد مسلح تنازعات مسلمان ممالک کو درپیش ہوئے،لاکھوں لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

اس تشویشناک صورتحال کا موجد ہماری اندرونی کمزوریاں بھی ہیں، ہمیں اپنے ممالک اور دنیا میں تنازعات کو پنپنے نہیں دینا، تاریخ نے ہمیں سکھایا ہے کہ فوجی طاقت اور ہتھیار امن برقرار رکھنے میں ناکافی ثابت ہوئے ہیں، ہتھیاروں کی دوڑ جاری رہے گی تو تنازعات جاری رہیںگے۔

انڈونیشیا کے صدر نے انتہائی اہم اور دوررس اثرات کی حامل باتیں کی ہیں۔ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کی طرح انڈونیشیا بھی انتہاپسندی کے وائرس کا شکار رہا ہے لیکن انڈونیشیا کی حکومت نے انتہاپسندی کو بڑی حکمت عملی کے ساتھ کنٹرول کیا ہے۔ انڈونیشیا آبادی کے اعتبار سے اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کی آبادی 28 کروڑ سے زیادہ ہے اور اس میں 86 فیصد عوام مسلمان ہیں۔ انڈونیشیا کو انتہاپسندی اور دہشت گردی کے علاوہ علیحدگی پسندی کا بھی سامنا رہا ہے۔

مشرقی تیمور انڈونیشیا سے الگ ہو کر ایک آزاد ریاست کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اسی طرح آچے کا تنازع بھی پاکستانی عوام کے ذہنوں میں موجود ہے۔ اس تنازع کا انڈونیشیا کے صدر نے اپنی تقریر میں ذکر بھی کیا ہے۔ انھوں نے برملا کہا کہ آچے کے تنازعے کا انڈونیشیا کو 30 سال سامنا رہا ہے لیکن فوجی طاقت سے اس کا حل نہ نکل سکا۔ بالآخر بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالا گیا۔

انڈونیشیا کے صدر کی ان باتوں سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انڈونیشیا ایک امن پسند ملک ہے۔ اس امن پسندی کی وجہ سے ہی اس ملک نے انتہائی پسماندگی کے دور سے نکل کر ترقی کی منزل کی جانب سفر شروع کر رکھا ہے۔ آج انڈونیشیا دنیا کی بیس ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان انڈونیشیا سے خاصا فائدہ لے سکتا ہے۔ انڈونیشیا نسبتاً ایک سستا ملک ہے اور یہاں سرمایہ کاری کے اچھے مواقع موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹرٹیجک معاملات میں بھی پاکستان انڈونیشیا سے خاصی مدد لے سکتا ہے۔

انڈونیشیا کے صدر نے صدر مملکت ممنون حسین سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ وہ افغانستان میں امن کے سلسلے میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے انڈونیشیا، افغانستان اور پاکستان کے علماء پر مشتمل ایک کمیٹی کے قیام کی تجویز بھی پیش کی ہے۔ پاکستان کو اس تجویز کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔ افغانستان کا بحران پاکستان کے لیے بہت سے مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ افغانستان میں جاری بدامنی کے اثرات پاکستان پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار بھی سست پڑ رہی ہے۔

اگر انڈونیشیا کے صدر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے کوئی مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں تو اس سے ضرور فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ انڈونیشیا کے صدر کی یہ بات سو فیصد سچ ہے کہ جنگوں یا عسکریت پسندی کے ذریعے کسی مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت دنیا میں جو تنازعات موجود ہیں ان میں سے 60 فیصد کا تعلق مسلم ممالک سے ہے اور انڈونیشیائی صدر نے اس حقیقت کی بھی نشاندہی کی کہ ان تنازعات میں مسلم ممالک کی اندرونی کمزوریاں بھی شامل ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک خوداحتسابی کے عمل سے گزریں اور اپنے اندرونی تضادات کو تسلیم کریں اور پھر مذاکرات کی میز پر بیٹھیں۔ اگر کوئی ملک اپنے تضادات کو تسلیم کر لے تو پھر انھیں حل کرنا مشکل نہیں رہتا۔ دوسروں پر الزام تراشی سے تنازعات ختم نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے رہتے ہیں۔ مسلم ممالک کو جو تنازعات درپیش ہیں وہ انھیں ہی حل کرنے ہیں کسی دوسرے نے نہیں۔ یہی وہ حکمت ہے جسے جتنا جلد اپنا لیا جائے اتنا ہی بہتر ہو گا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔